انسان کی ایک اہم ضرورت علاج بھی ہے، عام طور پر فقہاء نے علاج کو نفقہ میں شامل نہیں رکھا ہے اور بیوی کا علاج شوہر پر لازم قرار نہیں دیا گیا ہے، چنانچہ فقہاء حنفیہ میں علامہ ابن عابدین شامیؒ کا بیان ہے  :


کما لایلزمہ مداواتہا أی إتیانہ لہا بدواء المرض ولا أجرۃ الطبیب۔ [24]


یہی بات فقہاء مالکیہ میں علامہ دردیر[25]  فقہاء شوافع میں امام نووی[26] اور فقہاء حنابلہ میں علامہ ابن قدامہ و علامہ شرف الدین موسیٰ[27] نے لکھی ہے، اس عہد کے مشہور محقق ڈاکٹر وہبہ  زحیلی نے بھی ائمۂ اربعہ کا یہی نقطۂ نظر نقل کیا ہے ؛ لیکن اس سلسلہ میں قرآن و سنت کی کوئی ایسی نص موجود نہیں ہے، جو بتاتی ہو کہ علاج کے اخراجات نفقہ میں شامل نہیں ہیں، خیال ہوتا ہے کہ گذشتہ ادوار میں علاج اتنی زیادہ خرچ طلب اور طریقۂ کار کے اعتبار سے ترقی یافتہ اور دقیق عمل نہیں تھا، زیادہ تر پرہیز اور جڑی بوٹیوں کے ذریعہ علاج کیا جاتا تھا، جسمانی مشقت برداشت کرنے کی صلاحیت، آلودگی سے تحفظ اور فطری طریقہ پر زندگی گزارنے کے معمول کی وجہ سے لوگوں میں قوت مدافعت بھی زیادہ تھی ؛ لیکن اب مشینی زندگی اور مصنوعی راحت و آرام کی عادت کی وجہ سے لوگوں کی قوت برداشت کم ہو گئی ہے، غیر فطری طور پر زیادہ سے زیادہ غذا پیدا کرنے اور فضائی و آبی آلودگی کے بڑھ جانے، نیز موسم کے غیر معتدل ہو جانے کی وجہ سے نت نئی پیچیدہ بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں، ان حالات میں اگر کسی عورت کو کھانا اور کپڑا تو دے دیا جائے اور اس کی بیماری کا علاج نہ کرایا جائے تو یقیناً یہ منصفانہ بات نہیں ہو گی۔


اس لئے اس مسئلہ پر اُصولی حیثیت سے غور کرنا چاہئے، سوال یہ ہے کہ نفقہ سے کیا مراد ہے ؟ فقہاء نے نفقہ کی تعریف ایسی چیزوں کی فراہمی سے کی ہے، جن پر انسان کی بقا کا مدار ہو، چنانچہ علامہ داماد آفندی نفقہ کی شرعی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں  :


ما یتوقف علیہ بقاء شیٔ من نحو مأکول و ملبوس و سکنیی۔ [28]

جس پر کسی چیز کا بقا موقوف ہو، جیسے کھانا، لباس اور رہائش۔

اسی طرح علامہ شامیؒ فرماتے ہیں  :

ألإدرار علی شیٔ بما فیہ بقاء ہ۔[29]

کسی کے لئے وہ چیز فراہم کرنا، جس میں اس کی بقاء ہو۔


ظاہر ہے کہ انسان کی بقاء اور اس کی زندگی کے تحفظ میں دوا و علاج کی اہمیت غذا اور لباس سے بھی زیادہ ہے، اس لئے یقیناً علاج بھی نفقہ میں شامل ہو گا اور جیسے خوراک اور پوشاک کا مہیا کرنا مرد کی ذمہ داری ہے، اسی طرح علاج کا نظم کرنا بھی بدرجۂ اولیٰ اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہو گا، اس سلسلہ میں عالم اسلام کے ممتاز فقیہ ڈاکٹر وہبہ زحیلی کا یہ اقتباس بڑی اہمیت کا حامل اور نقل کئے جانے کے لائق ہے  :

ویظہر لديّ أن المداواۃ لم تکن فی الماضی حاجۃ أساسیۃ، فلا یحتاج الإنسان غالبا إلی العلاج، لأنہ یلتزم قواعد الصحۃ والوقایۃ، فاجتہاد الفقہاء مبنی علی عرف قائم فی عصرہم، أما الاٰن فقد أصبحت الحاجۃ إلی العلاج کا لحاجۃ إلی الطعام والغذاء ؛ بل أہم ؛ لأن المریض یفضل غالباً مایتداوای بہ علی کل شیٔ، وہل یمکنہ تناول الطعام وہو یشکو ویتوجع من الآلام والأوجاع التی تبرح بہ وتجہدہ و تہددہ بالموت ؟ [30]

مجھ پر جو بات واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ علاج گذشتہ زمانہ میں بنیادی ضرورت نہیں تھی، انسان کو عام طور پر علاج کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، اس لئے کہ وہ حفظانِ صحت کی اُصولوں کی پابندی کرتا تھا، لہٰذا فقہاء کا اجتہاد ان کے زمانہ کے عرف پر مبنی ہے، اب علاج ویسے ہی ضرورت ہو گئی ہے، جیسا کہ کھانا اور غذا ؛ بلکہ اس سے بھی زیادہ علاج کی اہمیت ہے ؛ کیوں کہ اکثر اوقات مریض علاج کو ہر چیز پر مقدم رکھتا ہے، کیا یہ ممکن ہے کہ انسان کھانا کھائے، حالاں کہ وہ تکلیف میں ہو اور ان آلام و مصائب سے کراہ رہا ہو ؛ جو اس کے لئے مشقت کا باعث ہیں اور جو اس کو موت کے قریب پہنچا رہی ہیں ؟


پھر اس بات کو اس سے مزید تقویت پہنچتی ہے کہ فقہاء نے اولاد کے علاج کو لازم قرار دیا ہے، جس پر اجماع نقل کیا گیا ہے،[31] تو بیوی، جو حصول اولاد کے لئے ذریعہ و وسیلہ ہے، اس کا علاج کیوں واجب نہیں ہو گا ؟ بلکہ بیوی کا علاج تو بدرجۂ اولیٰ واجب ہونا چاہئے ؛ کیوں کہ بیوی اپنے شوہر کی وجہ سے محبوس ہوتی ہے اور وہ اپنے لئے کسبِ معاش کے ذرائع کو اختیار کرنے سے قاصر رہتی ہے، اولاد کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔