تجہیز و تکفین

دنیا میں انسان کی جو آخری ضرورت ہے، وہ تجہیز و تکفین ہے، اگر مرنے والے نے اتنا مال نہ چھوڑا ہو کہ خود اس کے ترکہ سے اس کے کفن دفن کا انتظام ہو سکے تو جس شخص پر اس کے نفقہ کی ذمہ داری تھی، اسی پر کفن اور دفن کی ذمہ داری ہو گی، چنانچہ علامہ حصکفیؒ لکھتے ہیں  :

وکفن من لا مال لہ علی من تجب علیہ نفقتہ ) فإن تعددوا فعلی قدر میراثہم۔ [43]


جس مرنے والے کا مال نہیں ہو، اس کے کفن کے اخراجات اس شخص کے ذمہ ہوں گے، جس پر اس کا نفقہ واجب تھا، اگر متعدد لوگوں پر نفقہ واجب تھا تو ان سب پر میراث کے حقدار ہونے کی نسبت سے نفقہ واجب ہو گا۔


بیوی کے بارے میں فقہاء کے نقاطِ نظر میں اختلاف ہے، ایک رائے یہ ہے کہ بیوی کی تجہیز و تکفین کی ذمہ داری شوہر پر نہیں ہو گی ؛ کیوں کہ انتقال کے ساتھ ہی رشتۂ نکاح منقطع ہو چکا ہے، دوسری رائے یہ ہے کہ اگر اس نے ترکہ چھوڑا ہو تو اس میں سے تجہیز و تکفین ہو گی، ورنہ شوہر پر اس کی ذمہ داری ہو گی، یہ رائے امام ابویوسفؒ کی طرف بعض لوگوں نے منسوب کی ہے[44]،  تیسری رائے یہ ہے کہ کفن بھی لباس کے درجہ میں ہے، لہٰذا جیسے زندگی میں عورت کا لباس شوہر پر واجب تھا، اسی طرح یہ آخری لباس پہنانا بھی اس کی ذمہ داری ہو گی، امام ابویوسفؒ کا قولِ راجح یہی ہے[45]، یہی رائے امام شافعیؒ کی بھی ہے[46]، ظاہر ہے کہ زندگی بھر کی رفاقت کا تقاضہ یہی ہے کہ اپنے ہم سفر کو آخری سفر پر رخصت کرتے ہوئے مناسب انتظام کر کے رخصت کرے۔