جن خواتین کا نفقہ واجب ہے، وہ بنیادی طور پر تین ہیں : ماں، بیٹی اور بیوی، —- اسلام میں والدین کو جو اہمیت حاصل ہے، وہ محتاج اظہار نہیں، اﷲ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے ساتھ ساتھ والدین سے حسن سلوک کی تلقین کی ہے [47] ماں کے احسانات کا اﷲ تعالیٰ نے خاص طور پر ذکر فرمایا ہے[48]،  اس بات سے بھی منع کیا گیا کہ کوئی اپنے والدین کو ’ اُف ‘ تک کہے، [49] مشہور مفسر بغوی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اگر ماں باپ کا پیشاب، پاخانہ بھی صاف کرنا پڑے، جیسا کہ وہ بچپن میں تمہارے پیشاب پاخانہ صاف کیا کرتے تھے، تب بھی زبان پر اُف نہ لاؤ[50]، ظاہر ہے کہ حسن سلوک میں ان کی ضروریات کو پورا کرنا بھی شامل ہے، پس اگر ماں معاشی اعتبار سے خود مکتفی ہو اور اولاد کے نفقہ کی محتاج نہ ہو، تب تو ان کا نفقہ اور ان کی ضروریات کو اپنی طرف سے پورا کرنے کی کوشش کرنا مستحبات اور اخلاقی واجبات میں ہے ؛ تاکہ ان کا دل خوش ہو اور یہ خوشی اولاد کے لئے وجہ نجات بنے ؛ لیکن اگر وہ محتاج ہو، تب تو ان کا نفقہ اولاد پر واجب ہے اور نفقہ میں  خوراک و پوشاک، علاج و رہائش، خادم کا نظم اور دوسری مالی ضروریات شامل ہیں، اگر وہ نفقہ نہیں ادا کرے تو اسے نفقہ ادا کرنے پر مجبور کیا جائے گا، چنانچہ علامہ ابن قدامہؒ فرماتے ہیں  :

ویجبر علی نفقۃ والدیہ الخ۔ [51]

ماں کا نفقہ اختلافِ مذہب کے باوجود واجب ہے، یعنی اگر کسی مسلمان شخص کی ماں یہودی یا عیسائی ہو، یا بیٹا مسلمان ہو گیا ہو اور ماں ابھی کافر و مشرک ہو، تب بھی اس کا نفقہ واجب ہو گا، ولا تجب نفقۃ مع اختلاف الدین إلا للزوجۃ والأبوین … الخ[52]  اس میں شبہ نہیں کہ بیوی کو اس بات کا حق دیا گیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو الگ رہائش کا مطالبہ کرے ؛ لیکن یہ حکم عام حالات میں ہے، اگر ماں خدمت و تیمار داری کی محتاج ہو تو اولاد پر واجب ہے کہ وہ اس کا انتظام کرے اور اگر کوئی دوسری خاتون اس کے لئے مہیا نہیں ہو سکے تو وہ اپنی بیوی کو اس پر مجبور کر سکتا ہے ؛ کیوں کہ ساس کی خدمت بھی دیانتاً واجب ہے اور جو چیز دیانتاً واجب ہوتی ہے، وہ ضرورت و مجبوری کے وقت قانوناً واجب قرار دی جا سکتی ہے۔