بیٹی کا نفقہ باپ پر واجب ہے، بشرطیکہ وہ خود اپنی ضروریات پوری نہیں کر سکتی ہو، ایک تو بچپن سے بالغ ہونے اور نکاح کے بعد شوہر کے یہاں رخصت ہونے تک بیٹی کا نفقہ باپ کے ذمہ ہے، والأنثیٰ حتی یدخل بھا زوجہا،[53]  اس سلسلہ میں علامہ ابن قدامہؒ نے ایک حدیث بھی نقل کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : لڑکی کا نفقہ شادی تک باپ کے ذمہ رہے گا، ولا تسقط نفقۃ الجاریۃ حتیٰ تتزوج[54]، بلکہ بعض فقہاء مالکیہ نے صراحت کی ہے کہ اگر شادی ہو گئی ؛ لیکن شوہر اتنا تنگ دست ہے کہ نفقہ ادا نہیں کر سکتا، تب بھی والد کے ذمہ نفقہ واجب رہے گا، … أی الموسر لا الفقیر، فتستمر فلا تسقط۔[55]

اگر خدانخواستہ بیٹی پر طلاق واقع ہو جائے یا وہ بیوہ ہو جائے تو پھر اس کے نفقہ کی ذمہ داری باپ پر لوٹ آئے گی، واستمرت إن دخل زمنۃ ثم طلق[56]،  اگر لڑکی خود کمائے اور اپنی ضروریات پوری کر لے تب تو باپ پر اس کا نفقہ واجب نہیں ؛ لیکن والد اپنی لڑکی کو  کسبِ معاش پر مجبور نہیں کر سکتا، ولا یجوز للأب أن یجبرہا علی الإقتصاد[57]، ماں کی طرح بیٹی کا نفقہ بھی اختلاف مذہب کے باوجود واجب ہوتا ہے، یعنی بیٹی مسلمان نہ ہو، تب بھی اس کا نفقہ واجب ہے[58]،  پھر یہ بات بھی جائز نہیں ہے کہ نفقہ کے معاملہ میں بیٹے کو بیٹی پر ترجیح دی جائے ؛ کیوں کہ زندگی میں تمام اولاد کے ساتھ شریعت نے مساویانہ طور پر ہبہ کرنے کو واجب قرار دیا ہے۔