دوسرا قابل ذکر مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کچھ عرصہ بیوی کا نفقہ ادا نہیں کیا ہو اور اس نے کسی طرح اپنے وقت کاٹ لئے تو شوہر پر گذشتہ دنوں کا نفقہ واجب ہو گا یا نہیں ؟ —- مالکیہ کہتے ہیں کہ واجب ہو گا ’’ تطالبہ إذا أیسر( وإن لم یفرضہ ) علیہ ( حاکم )‘‘[64] شوافع بھی اسی کے قائل ہیں ’’ إذا لم یکسہا مدۃ، صارت الکسوۃ دینا علیہ‘‘[65]اور یہی نقطۂ نظر حنابلہ کا ہے ؛ بلکہ ابن قدامہ نے صراحت کی ہے کہ چاہے بیوی کا نفقہ نہ ادا کرنا کسی عذر کی بنا پر ہو یا بلا عذر، ہر صورت میں شوہر پر نفقہ دین رہے گا، ومن ترک الإنفاق الواجب لإمرأۃ مدۃ، لم یسقط بذلک، وکانت دینا فی ذمتہ، سواء ترکہا لعذر أو غیر عذر فی أظہر الروایتین۔ [66]


احناف کا نقطۂ نظر اس سلسلہ میں کسی قدر مختلف ہے، حنفیہ کے نزدیک گذرے ہوئے دنوں کا نفقہ دو ہی صورتوں میں واجب ہو گا، یا تو زوجین نے آپس میں ماہانہ نفقہ کے لئے مقدار کا معاہدہ کر لیا تھا یا قاضی نے نفقہ کا فیصلہ شوہر کے خلاف نفقہ واجب ہونے کا اور اس کی متعین مقدار ہونے کا فیصلہ کر دیا تھا اور اس معاہدہ اور فیصلہ کے باوجود اک عرصہ گذر گیا اور نفقہ ادا نہیں کیا تو اس مدت کا نفقہ شوہر کو ادا کرنا ہو گا، اور اگر پہلے سے باضابطہ کوئی معاہدہ نہیں ہوا یا قاضی کا فیصلہ نہیں ہوا ہو اور شوہر کا نفقہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے اس نے کسی طرح اپنی ضرورت پوری کر لی ہو تو اب اس مدت کا نفقہ واجب نہیں ہو گا،  [67]لیکن یہ نقطۂ نظر غالباً اس عہد کے حالات پر مبنی تھا، جب کہ عدالت سے رُجوع کرنا اور نفقہ کا فیصلہ حاصل کرنا چنداں دشوار نہیں تھا، ہمارے دور میں عدالت سے رُجوع کرنے میں جس تگ و دو اور تضیع اوقات سے گزرنا پڑتا ہے اور جس مالی زیر باری سے انسان دوچار ہوتا ہے، اس کے باوجود ایک ایسے حق کو حاصل کرنے کے لئے جو شرعاً واجب ہے، اس کا مکلف کرنا یقیناً ناانصافی ہو گی اور یہ جفا شعار شوہروں کے لئے فرار کا راستہ اختیار کرنے کا چور دروازہ بن جائے گا، اس لئے فی زمانہ جمہور کی رائے پر عمل کیا جانا چاہئے ؛ کیوں کہ شریعت کا عمومی اُصول یہ ہے کہ جب کوئی حق واجب ہو تو دو ہی صورتوں میں ساقط ہوتا ہے یا تو صاحب حق کا حق ادا کر دیا جائے یا وہ اپنا حق معاف کر دے۔