اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا نفقہ ادا نہیں کرے اور یہ نفقہ ادا نہیں کرنا اس بنیاد پر ہو کہ شوہر معاشی تنگی کی وجہ سے بیوی کا نفقہ ادا کرنے پر قادر ہی نہ ہو اور خود بیوی بھی اس موقف میں نہ ہو کہ اپنی ضروریات خود پوری کر سکے تو اس صورت میں اکثر فقہاء کے نزدیک اس کا نکاح فسخ کر دیا جائے گا ؛ کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے بیوی کے سلسلہ میں دو ہی راستے رکھے ہیں، ’’ إمساک بالمعروفیا تسریح بالإحسان‘‘[68] إمساک بالمعروف‘ کے معنی ہیں : بھلے طریقہ پر بیوی کو رکھنا، ظاہر ہے کہ بیوی کو طلاق بھی نہ دینا اور اس کو فاقہ کشی پر مجبور کیا جانا بھلے طریقہ پر رکھنا نہیں ہے، جب کوئی شخص اس پر قادر نہیں ہو اور وہ بیوی بھی اس حالت پر صبر کرنے کی کیفیت میں نہ ہو تو اس کے لئے یہی راستہ ہے کہ وہ بہتر طریقہ پر بیوی کو چھوڑ دے، اگر شوہر نفقہ بھی ادا نہیں کر سکے اور بیوی کو چھوڑنے پر بھی تیار نہیں ہو تو بیوی کے مطالبہ پر قاضی اس کا نکاح فسخ کر دے گا، مالکیہ، شوافع اور حنابلہ کی یہی رائے ہے[69]، حنفیہ کے نزدیک چوں کہ رشتۂ نکاح سرد و گرم میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے لئے ہے ؛ اس لئے اگر شوہر نفقہ سے عاجز ہو تو نکاح فسخ نہیں کیا جائے گا ؛ بلکہ قاضی کے فیصلہ کے مطابق عورت شوہر کے نام پر قرض لے کر اپنی ضروریات پوری کرے گی۔[70]

موجودہ دور میں چوں کہ سرکاری عدالتی نظام سے انصاف حاصل کرنے میں بڑی دشواری ہے، مسلمان اپنے طور پر جو دارالقضاء قائم کرتے ہیں، ان کو قوتِ تنفیذ حاصل نہیں ہے اور ایسی دشواریوں میں بھی باوجود مطالبہ کے عورت کا نکاح فسخ نہیں کرنا فتنہ اور اس کے گناہ میں پڑ جانے کا باعث ہو سکتا ہے ؛ اس لئے ہندوستان میں دارالقضاء کا عمل جمہور کے مسلک کے مطابق ہے۔