قدرت کے باوجود نفقہ ادا نہیں کرے ؟

دوسری صورت یہ ہے کہ شوہر نفقہ ادا کرنے پر قادر ہو، پھر بھی ادا نہیں کرے، اس صورت میں اکثر فقہاء کی رائے یہ ہے کہ اگر شوہر کا پیسہ یا سامان گرفت میں آ جائے تو اس کو فروخت کر کے اس کی بیوی کا نفقہ عدالت ادا کرے گی ؛ لیکن اگر یہ ممکن نہ ہو سکے اور عورت فسخ نکاح کا مطالبہ کرتی ہو تو اس کا نکاح فسخ کر دیا جائے گا، یہی رائے فقہاء مالکیہ کی ہے،[71]  اور یہی نقطۂ نظر فقہاء  حنابلہ کا بھی ہے ؛ البتہ انھوں نے صراحت کی ہے کہ اگر شوہر کا مال موجود ہو تو بیوی بہ اجازت یا    بلا اجازت اس میں سے خرچ کرے اور وہ بھی نہ ہو سکے تب قاضی نکاح فسخ کر دے[72]، فقہاء شوافع کے یہاں دونوں طرح کے اقوال ہیں، امام غزالی کا رجحان یہ ہے کہ عورت کے مطالبہ پر اس کا نکاح فسخ کر دیا جانا چاہئے[73]، لیکن حنفیہ کے نزدیک اس صورت میں بھی اس کا نکاح فسخ نہیں کیا جائے گا ؛ بلکہ قاضی اس کو قید کر کے اس بات پر مجبور کرے گا کہ بیوی کا نفقہ ادا کرے۔[74]

جیسا کہ اوپر مذکور ہوا حنفیہ کی یہ رائے بھی فقہاء کے دور میں پائے جانے والے آسان اور ارزاں نظام عدل کے پس منظر میں ہے، موجودہ دور میں اس پر عمل کرنا بہت دشوار اور عورت کے لئے حق و انصاف سے مسلسل محرومی کا باعث ہو گا، اس لئے اکابر علماء ہند نے اس بارے میں مالکیہ کے مسلک کو اختیار کیا ہے، حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنی کتاب ’’الحیلۃ الناجزۃ‘‘ میں اور حضرت مولانا عبدالصمد رحمانی ؒنے ’’ کتاب الفسخ والتفریق‘‘ میں اس پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔