طلاق کے ساتھ ہی رشتۂ نکاح ختم ہو جاتا ہے ؛ لیکن جب تک عدت نہ گذر جائے اس وقت تک وہ دوسرا نکاح نہیں کر سکتی ؛ اس لئے اس کا نفقہ سابق شوہر پر واجب رہتا ہے، اس کی صراحت خود قرآن مجید میں موجود ہے، جو مطلّقہ حمل کی حالت میں ہو، اس کی عدت ولادت تک ہے، چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ’’ وإن کن أولات حمل فانفقوا علیہن حتی یضعن حملہن[75]  یعنی جب مطلقہ عورت حمل کی حالت میں ہو تو ولادت تک اس کا نفقہ ادا کرنا ہے ؛ اس لئے اس بات پر فقہاء کا اتفاق ہے کہ عدت کے بعد مطلقہ کا نفقہ واجب نہیں ہے، عدت کی حالت میں بعض فقہاء کے نزدیک بہر صورت مطلقہ کا نفقہ واجب ہے، چاہے اس کو طلاق رجعی دی گئی ہو یا طلاق بائن و مغلظہ، اور وہ حمل کی حالت میں ہو یا نہ ہو، اسی طرح اس پر بھی اتفاق ہے کہ اگر حاملہ ہو تو طلاق بائن اور طلاق مغلظہ کی صورت میں بھی نفقہ اور رہائش واجب ہو گی ؛ البتہ اگر طلاق بائن یا طلاق مغلظہ دی گئی اور وہ حمل کی حالت میں نہ ہو تو مالکیہ، شوافع اور حنابلہ کے یہاں نفقہ اور رہائش واجب نہیں ہو گی اور ایک قول کے مطابق صرف رہائش واجب ہو گی، حنفیہ کے نزدیک طلاق بائن ہو یا طلاق مغلظہ اور مطلقہ اس وقت حمل کی حالت میں رہی ہو یا نہیں رہی ہو، ہر صورت میں عدت کا نفقہ واجب ہو گا ؛ کیوں کہ عورت سابق شوہر کی وجہ سے عدت میں محبوس ہوتی ہے، وہ کہیں جا بھی نہیں سکتی اور خود کما بھی نہیں سکتی، نہ دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔ [76]

عدت گزرنے کے بعد چوں کہ رشتۂ نکاح مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہے ؛ اسی لئے اس کا نفقہ واجب نہیں رہتا، اگر عدالت فیصلہ بھی کر دے تو مسلمان عورت کے لئے اس کا لینا جائز نہیں ہو گا، ( اس موضوع پر تفصیلی مطالعہ کے لئے دیکھئے : حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کا رسالہ : نفقۂ مطلقہ کے احکام، کتاب و سنت کی روشنی میں ) ؛ البتہ اگر مطلقہ کے کم سن بچے ہوں، جس کا حق پرورش شرعاً عورت کو حاصل ہو یعنی لڑکی کے بالغ ہونے تک اور لڑکے کے آٹھ دس سال کی عمر کو پہنچنے تک، تو جب تک عورت بچوں کی پرورش کرتی رہے گی، بچوں کے نفقہ کے علاوہ، عورت کے پرورش کی اجرت بھی اس مرد پر واجب ہو گی، یہ اُجرت کم سے کم اتنی مقدار میں ہونی چاہئے کہ عورت کے نفقہ کی ضرورت پوری ہو جائے، گویا ایسی مطلقہ عورت نفقہ کی حقدار تو ہو گی ؛ لیکن بطور نفقۂ زوجیت کے نہیں ؛ بلکہ بطور اُجرت پرورش کے : أما أجرۃ الحضانۃ فللأم [77] ؛ بلکہ اگر بچہ اتنا کم سن ہو کہ ابھی دودھ پی رہا ہو تو فقہاء نے عورت کو بچہ کے نفقہ کے علاوہ دو اُجرت کا حقدار قرار دیا ہے، ایک اُجرتِ پرورش اور دوسرے دودھ پلانے کی اُجرت، علامہ ابن نجیم مصریؒ نے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے  :

فعلی ہذا تجب علی الأب ثلاثۃ، أجرۃ الرضاع، أجرۃ الحضانۃ ونفقۃ الولد۔ [78]

پس، اس طرح باپ پر تین چیزیں واجب ہوں گی، دودھ پلانے کی اُجرت، پرورش کی اُجرت اور لڑکے کا نفقہ۔