مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم ہے[84]، اگر کسی شخص نے اس سے بھی کم مہر مقرر کیا، تو اس کا اعتبار نہیں، ایسی صورت میں بھی کم سے کم دس درہم کے بقدر مہر واجب ہو گا[85]، کیوں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ مہر دس درہم سے کم نہیں ہونا چاہئے، لا مہر دون عشرۃ دراہم[86]، دس درہم کی مقدار موجودہ اوزان میں تیس گرام چھ سو اٹھارہ ملی گرام ہو گا ( ۶۱۸ ء ۳۰ ) ہے، امام مالکؒ کے نزدیک مہر کی کم سے کم مقدار چوتھائی دینار سونا یا تین درہم خالص چاندی ہے[87]،  چوتھائی دینار کا وزن موجودہ اوزان میں ( تقریباً   ۴ ماشہ سونا ) اور تین درہم کا ۱۱ گرام کے قریب ہوتا ہے، امام مالکؒ نے بھی بعض احادیث کو ملحوظ رکھا ہے، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کے نزدیک کم ترین مقدار مہر کی کوئی حد نہیں، کم سے کم جو چیز قیمت یا اُجرت بن سکتی ہو، وہ مہر بھی ہو سکتی ہے[88]،  لیکن اس پر اتفاق ہے کہ زیادہ سے زیادہ مہر کی کوئی مقدار متعین نہیں ؛ کیوں کہ قرآن مجید میں مہر کے لئے ’ قنطار ‘ کا لفظ وارد ہوا ہے[89]، جس کے معنی بہت زیادہ مال کے ہیں، وہو المال الکثیر،[90]  حضرت عبداﷲ بن عباس ص نے بارہ ہزار درہم یا ایک ہزار دینار کو ’ قنطار ‘ قرار دیا ہے[91]، جو نہایت خطیر رقم ہوتی ہے۔

چنانچہ عہد نبوی ا اور عہد صحابہ ث میں بعض دفعہ مہر کی اچھی خاصی مقدار بھی متعین کی گئی ہے، خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات میں سے حضرت اُم حبیبہؓ کا مہر چار ہزار درہم مقرر ہوا تھا، جو آپ اکی طرف سے شاہ حبش نجاشی نے مقرر کیا تھا اور انھوں نے ہی ادا بھی کر دیا تھا[92]،  اس سلسلہ میں ایک لطیفہ بھی قابل ذکر ہے، حضرت عمر ص نے جب دیکھا کہ لوگ بطور تفاخر کے بہت زیادہ مہر مقرر کرنے لگے ہیں تو چاہا کہ زیادہ سے زیادہ مقدار مہر چار سو درہم متعین کر دی جائے، آپؐ  نے یہ بات خطبہ کے دوران ممبر پر ارشاد فرمائی، حضرت عمر ص جب خطبہ دے کر نیچے اُترے، تو ایک قریشی خاتون نے کہا : آپ نے یہ کیسے کہہ دیا، جب کہ اﷲ تعالیٰ نے کہا ہے کہ ’’ قنطار ‘‘ یعنی بے شمار مال ( بہ طور مہر ) دے دو، تو اسے واپس لینے کی کوشش مت کرو[93]، حضرت عمر ص کا مزاج بلا تأمل حق کو قبول کر لینے کا تھا، چنانچہ فوراً فرمایا : اللّٰہم غفراً، کل الناس أفقہ من عمر، ( بارِ الٰہا ! مجھے معاف کر دیجئے، ہر شخص عمر سے زیادہ فقیہ ہے ) پھر آپ دوبارہ ممبر پر چڑھے اور فرمایا : لوگو ! میں نے تمہیں چار سو درہم سے زیادہ مہر رکھنے سے منع کیا تھا، لیکن جو چاہے اس سے زیادہ بھی اپنے مال میں سے دے سکتا ہے۔ [94]

جب اﷲ تعالیٰ نے صحابہ ث کو فراخی عطا فرمائی اور معاشی حالات بہتر ہوئے تو انھوں نے زیادہ مہر بھی مقرر کئے، خود حضرت عمرؓ کے بارے میں منقول ہے کہ انھوں نے جب حضرت علیؓ کی صاحب زادی حضرت اُم کلثوم ؓسے نکاح کیا، تو ان کا مہر چالیس ہزار درہم مقرر کیا[95]، غالباً یہ خانوادۂ نبوت کی توقیر و تکریم کے طور پر تھا، حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنی صاحب زادیوں کا مہر ایک ہزار دینار رکھتے تھے[96]،  بعض میں پندرہ سو دینار کا بھی ذکر آیا ہے[97]، حضرت انس بن مالکؓ نے ایک خاتون سے بیس ہزار مہر پر نکاح کیا[98]،  روایت میں مطلق بیس ہزار ہے، لیکن غالباً اس سے بیس ہزار درہم مراد ہوں گے، اس سے معلوم ہوا کہ اگر زیادہ مہر رکھنا محض اپنی بڑائی کے اظہار کے لئے نہ ہو ؛ بلکہ واقعی وہ بیوی کو اتنی رقم دینے کا ارادہ رکھتا ہو اور اس کے اندر اس کی استطاعت ہو، تو اس میں حرج نہیں۔

لیکن عام حالات میں مہر کی مقدار نہ اتنی کم ہونی چاہئے کہ اس کی کچھ اہمیت ہی باقی نہ رہے اور نہ اتنی زیادہ ہونی چاہئے کہ ادائیگی دشوار ہو جائے اور ادائیگی کی نیت نہ ہو، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات کا مہر عام طور پر پانچ سو درہم تھا[99]، راجح یہی ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا مہر بھی پانچ سو درہم ہی تھا[100]، اسی لئے متعدد اہل علم نے لکھا ہے کہ مستحب ہے کہ پانچ سو درہم سے زیادہ مہر نہیں رکھا جائے[101]، پانچ سو درہم کی مقدار موجودہ اوزان میں ( ۹۰۰ ء ۱۵۳۰) ہوتی ہے۔