غرض کہ مہر کے مقرر کرنے میں اعتدال ہونا چاہئے، مہر بالکل بے حیثیت بھی نہ ہو اور اتنا زیادہ بھی نہ ہو کہ شوہر کے لئے ادا کرنا ممکن نہ رہے، نیز اس میں فقہاء نے خاندانی روایات کو بھی ملحوظ رکھا ہے، یعنی لڑکی کے دادیہالی خاندان میں جو مہر رکھا جاتا ہو، اس کو ملحوظ رکھا جائے، اسی کو فقہ کی اصطلاح میں ’’ مہر مثل ‘‘ کہتے ہیں، مہر مثل سے مراد صرف تعداد نہیں ہے ؛ بلکہ اس کی قدر اور قوت خرید بھی ہے، جیسے بیس سال پہلے لڑکی کی پھوپھی کا مہر دس ہزار روپیہ رکھا گیا ہو اور آج اس کامہر دس ہزار روپیہ رکھ دیا جائے، تو یہ انصاف کی بات نہیں ہو گی، کیوں کہ بیس سال پہلے دس ہزار میں کم سے کم پانچ تولہ سونا خرید کیا جا سکتا تھا اور آج اس سے ایک تولہ سونا بھی نہیں خرید کیا جا سکتا، تو اعتبار صرف دس ہزار کے عدد کا نہیں ہے ؛ بلکہ اس کی قوت خرید کا بھی ہے، افسوس کہ آج کل مہر کے معاملہ میں بھی افراط و تفریط ہے، بہت سے علاقوں اور برادریوں میں آج بھی پانچ سو روپیہ مہر مقرر کیا جاتا ہے اور بعض حضرات محض اظہار تفاخر کے طور پر کئی کئی لاکھ روپے مہر مقرر کرتے ہیں اور ادا نہیں کرتے۔

آج کل چوں کہ کرنسی کی قیمت میں استحکام نہیں ہے اور مسلسل اتار کا رجحان ہے، آج سے بیس پچیس سال پہلے پانچ ہزار روپے کی اہمیت تھی، لیکن آج اتنی رقم سے ایک غریب گھرانے کی زندگی بھی نہیں گذر پاتی اور ہندوستان میں نقد مہر ادا کرنے کا رواج نہیں ہے، ان حالات میں مناسب طریقہ یہ ہے کہ مہر سونے یا چاندی میں مقرر کیا جائے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کے زمانہ میں درہم چاندی کا اور دینار سونے کا ہوا کرتا تھا، کیوں کہ سونے اور چاندی کی قیمت میں ابھی بھی ایک حد تک استحکام ہے، اس لئے یہ عورت کے حق میں انصاف کی بات ہو گی، مثلاً اگر آج پانچ تولہ سونا مہر مقرر کیا جائے، تو اس کی قیمت پچاس ہزار یا اس سے کچھ زیادہ ہے، اگر اگلے بیس سال کے بعد بھی مہر ادا کیا جائے تو عورت کو پانچ تولہ سونا حاصل ہو گا، اس کے برخلاف اگر پچاس ہزار مہر مقرر ہو، تو ممکن ہے بیس سال بعد اس سے دو ہی تولہ سونا خرید کیا جا سکے، ظاہر ہے یہ عورت کے لئے نہایت نامنصفانہ بات ہو گی کہ ایک تو اس کا مہر وقت پر ادا نہیں کیا گیا، دوسرے جو مہر دیا گیا، اس کی بھی اب قیمت نہایت کم ہو گئی، چنانچہ اس سلسلہ میں ’’ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ‘‘ نے اپنے دوسرے فقہی سیمینار منعقدہ ۱۹۸۹ء میں حسب ذیل تجویز منظور کی ہیں  :

مہر کی سونے اور چاندی کے ذریعہ تعیین عمل میں آئے ؛ تاکہ پوری طرح عورتوں کے حقوق کا تحفظ ہو سکے اور سکوں کی قوت خرید میں کمی کی وجہ سے ان کو نقصان نہ پہنچے۔[102]