یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ مہر بھی دوسرے قرضوں کی طرح ایک قرض ہے، اس لئے صحیح طریقہ تو یہ ہے کہ مہر نکاح کے وقت ہی ادا کر دیا جائے، صحابہ ث اور بعد کے ادوار میں بھی عام معمول یہی تھا کہ نکاح کے وقت ہی مہر ادا کر دیا جاتا تھا، اور اگر پورا مہر ادا نہیں کر پاتے تب بھی مہر کا کچھ نہ کچھ حصہ نکاح کے وقت دے دیا جاتا، یہ روایت عربی اسلامی معاشرہ میں اتنی قوت کے ساتھ قائم تھی کہ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی عورت دعویٰ کرے کہ میری اپنی شوہر کے ساتھ خلوت ہو گئی، اس کے باوجود اس نے کوئی مہر ادا نہیں کیا تھا، تو یہ بات قابل قبول نہیں ہے ؛ کیوں کہ یہ ظاہرِ حال کے خلاف ہے[103]، لیکن بدقسمتی سے ہندوستان میں نکاح کے وقت مہر ادا کرنے کا رواج ہی نہیں رہا اور اب نوبت یہاں تک آ چکی ہے کہ اگر کسی عورت کو اس کا مہر ادا کیا جائے تو وہ خوف کھانے لگتی ہے کہ کہیں شوہر کا ارادہ طلاق دینے کا تو نہیں ہے۔