اکثر حالات میں تو مہر ادا کرنے کی نیت ہی نہیں ہوتی، محض رسمی طور پر مہر مقرر کر لیا جاتا ہے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے نکاح کیا اور مہر مقرر کیا، لیکن اس کے دل میں ہو کہ وہ مہر ادا نہیں کرے گا، تو اﷲ تعالیٰ کی یہاں وہ زانی شمار کیا جائے گا … ولیس فی نفسہ أن یؤدیہ إلیہا إلا کان عند اﷲ زانیا،[104]  ایک اور روایت میں ہے کہ جس نے کسی عورت سے کم یا زیادہ مہر پر نکاح کیا اور اس کے دل میں یہ ہے کہ وہ اسے اس کا مہر نہیں دے گا، تو اس نے دھوکہ بازی کی، اگر اس کا انتقال ہو اور اس وقت تک اس نے اس کا حق ادا نہیں کیا، تو قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ سے ایک زانی شخص کی حیثیت سے اس کی ملاقات ہو گی۔[105]

بعض لوگ میاں بیوی کے تعلقات خراب ہونے کے وقت عورت کو تنگ کرتے ہیں، تاکہ وہ خود ہی اپنا مہر معاف کرنے پر آمادہ ہو جائے، یہ نہایت ہی ناشائستہ حرکت ہے اور بے غیرتی اور خدا نا ترسی کی بات ہے، حضرت عبداﷲ بن عمر ص سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : اﷲ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گنہگار وہ شخص ہے، جو کسی عورت سے نکاح کرے، اس سے اپنی ضرورت پوری کر لے، پھر اسے طلاق دے دے اور اس کا مہر بھی نہیں دے[106]،  اس لئے پوری دیانت داری کے ساتھ نکاح کے وقت مہرا ادا کرنے کی نیت رکھنی چاہے ؛ کیوں کہ جب آدمی کسی قرض کو ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، تو اﷲ تعالیٰ کی مدد بھی شریک حال ہوتی ہے اور اگر طلاق کی نوبت آ جائے، تو مہر سے بچنے کے لئے بہانہ تلاش نہیں کرنا چاہئے ؛ بلکہ مہر کے علاوہ بھی بیوی کو بطور حسن سلوک کچھ دے کر رخصت کرنا چاہئے، جس کو ’’ متاع ‘‘ کہتے ہیں اور جس کی خود قرآن مجید میں تلقین کی گئی ہے[107]، چنانچہ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر عورت خلع کا مطالبہ کر رہی ہو اور اس مطالبہ میں مرد کی زیادتی کا دخل ہو، یعنی اس کی طرف سے ظلم و حق تلفی پائی جانے کی بنا پر وہ خلع کا مطالبہ کر رہی ہو، تو مرد کے لئے مہر کی واپسی یا اس کے معاف کرنے کا مطالبہ کراہت سے خالی نہیں اور اگر عورت کی غلطی کی وجہ سے خلع کی نوبت آ رہی ہے تو مہر کے بقدر واپس لینا یا مہر معاف کرا لینا جائز ہے، تاہم بہتر یہی ہے کہ مہر ادا کر دے اور اس صورت میں بھی مقدار مہر سے زیادہ کا مطالبہ مکروہ ہے۔[108]