اگر کسی وجہ سے زندگی میں مہر ادا نہیں کر سکے، تو بعض علاقوں میں موت کے بعد بیوی سے مہر معاف کرا دیا جاتا ہے، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لاش سامنے رکھی ہوئی ہے اور عورتیں اخلاقی دباؤ ڈالتی ہیں کہ مہر معاف کر دو، اس وقت رنج و الم کی فضا ہوتی ہے اور اگر اندر سے معاف کرنے پر آمادگی نہ ہو، تب بھی حیا کے تقاضہ کے تحت وہ زبان سے انکار نہیں کر پاتی، یہ نہایت ہی ناشائستہ اور غیر شرعی طریقہ ہے، شرعی اُصول یہ ہے کہ جب کسی کا انتقال ہو، تو پہلے قرض داروں کا قرض ادا کیا جائے، پھر ورثہ میں ترکہ کی تقسیم ہو، جیسے دوسرے قرض واجب الاداء ہیں اور ان کے بارے میں بھی پوچھ ہو گی، اسی طرح مہر بھی ایک قرض ہے اور اس کی بھی اﷲ کے پاس جواب دہی ہے، اس لئے مہر معاف کرانے کی کوئی وجہ نہیں، ترکہ میں سے پہلے دوسرے قرض داروں کی طرح بیوی کا بھی مہر ادا ہونا چاہئے، اس کے بعد جو بچ جائے وہ تمام ورثہ میں تقسیم ہو۔

حاصل یہ ہے کہ  :

۱)  مہر بیوی کا نہایت اہم شرعی حق ہے۔

۲)   مہر نہ بہت کم ہونا چاہئے اور نہ اتنا زیادہ کہ اس کا ادا کرنا شوہر کے لئے ممکن نہ ہو۔

۳) کوشش کرنی چاہئے کہ نکاح کے وقت ہی پورا مہر یا اس کا مناسب حصہ ادا کر دیا جائے۔

۴)  اگر اُدھار مہر مقرر ہو تو سونے چاندی میں مقرر کیا جائے۔

۵)  اگر شوہر انتقال تک مہر ادا نہیں کر پایا ہو، تو اس کے ترکہ میں سے دوسرے قرضوں کی طرح عورت کا مہر بھی پہلے ادا کر دیا جائے، اس کے بعد ترکہ کی تقسیم ہو۔

۶)  اگر خدا نخواستہ علاحدگی کی نوبت آئے، تو مہرا دا کرنے میں بہانہ بازی سے کام نہ لے اور عورت کو خلع پر مجبور نہ کرے۔