یوں تو ماں باپ اپنی بیٹی کو کبھی بھی اور کچھ بھی تحفہ دے سکتے ہیں، لیکن آج کل لڑکی کے لئے جہیز کو جو نکاح کا ایک جزو بنا لیا گیا ہے، یہ نہایت ہی غیر شرعی عمل ہے، بعض حضرات خیال کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو جہیز دیا ہے، یہ غلط فہمی پر مبنی ہے، حقیقت یہ ہے کہ جیسے آپ ا حضرت فاطمہؓ کے والد تھے، اسی طرح حضرت علی کرم اﷲ وجہ کے مربی و سرپرست بھی تھے، حضرت علیؓ نے جب حضرت فاطمہ ؓسے نکاح کے لئے پیغام دیا تو آپؐ نے اسے قبول فرمایا اور ایک زرہ جو اُن کو غزوۂ بدر میں ملی تھی اسے فروخت کر کے ایک نئے گھر کے لئے جو ضروریات مطلوب ہوتی ہیں، وہ آپؐ  نے خرید کروا دیں اور جو رقم بچ گئی وہ حضرت علیؓ کے حوالہ کر دی ؛ تاکہ مہر کا کچھ حصہ وہ اس سے ادا کر دیں، اس کی تفصیل حدیث و سیرت کی کتابوں میں موجود ہے[109]، اور یہ بھی آپؐ نے اس حیثیت سے فرمایا کہ آپ اہی عاقدین کے سرپرست و مربی تھے، اس کو اس بات سے بھی تقویت پہنچتی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کا اپنی باقی تینوں صاحب زادیوں حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت اُم کلثومؓ کو کوئی جہیز دینا ثابت نہیں، ظاہر ہے کہ اگر آپؐ نے حضرت فاطمۃ الزہرا کو جہیز دیا ہو تو اپنی ان تین صاحب زادیوں کو بھی جہیز دیا ہوتا ؛ کیوں کہ آپ نے اولاد کے درمیان عدل و مساوات کا حکم دیا ہے۔

اس لئے یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ جہیز دینا سنت یا مستحب ہے اور اس کا مطالبہ کرنا تو قطعاً جائز نہیں، فقہاء کی عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جہیز یا کسی رقم کا مطالبہ کرنا رشوت کے حکم میں ہے، اس لئے حرام ہے[110]، کیوں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا کہ رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں پر اﷲ کی لعنت ہے[111]، رشوت دینا تو بہت مجبوری کی حالت میں جائز ہے اور فقہاء نے اس کی صراحت کی ہے[112]، لیکن رشوت لینا کوئی مجبوری نہیں ہو سکتی ؛اس لئے یہ تو بہ ہر صورت حرام ہے اور لے لیا ہو، تو واپس کر دینا واجب ہے[113]، اس لئے جہیز اور رقم کا مطالبہ نہ صرف ظلم و گناہ ہے، بلکہ یہ حرام کھانا ہے اور وہ نکاح کیسے بابرکت ہو سکتا ہے، جو ایسے عمل پر مشتمل ہو، جس پر خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے لعنت بھیجی ہے، اس لئے نکاح کو سادہ اور آسان بنانا چاہئے، آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ جس نکاح میں جتنے کم اخراجات ہوں وہ اتنا ہی بابرکت نکاح ہے، إن أعظم النکاح برکۃ أیسرہا مؤنۃ۔ [114]

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے ایک سیمینار میں ملک بھر سے آئے ہوئے مختلف مکاتبین فکر کے علماء نے متفقہ طور پر جہیز کے سلسلہ میں جو قرارداد منظور کی ہے وہ اس طرح ہے  :

آج ہماری عائلی زندگی میں لڑکوں کی خرید و فروخت کا مزاج بن گیا ہے اور انھیں مالِ تجارت بنالیا گیا ہے، کبھی لڑکوں کی طرف سے، کبھی ان کے والدین اور اقرباء کی طرف سے اور کبھی خود لڑکی والوں کی طرف سے، نہ صرف یہ کہ قیمت لگائی جاتی ہے ؛ بلکہ بھاؤ تاؤ کیا جاتا ہے اور کون زیادہ سے زیادہ دے گا ؟ اس کی تلاش کی جاتی ہے، شرعاً نکاح میں لڑکی والوں سے کچھ لینا، وہ چاہے تلک کے نام ہو یا گھوڑے جوڑے کے نام پر یا مروج قیمتی جہیز کے نام پر ہو، جائز نہیں، شریعت نے ’’ أحل لکم ماوراء ذلکم أن تبتغوا بأموالکم‘‘[115] کے حکم ربانی کے ذریعہ مردوں پر نکاح میں مال خرچ کرنے کی ذمہ داری عائد کی ہے، آج ہم نے اس حقیقت کو بدل ڈالا ہے، اور عورتوں کو نکاح کے لئے مال خرچ کرنا پڑتا ہے، کبھی صریح مطالبہ ہوتا ہے اور کبھی عادت اور عرف و رواج کے تحت یہ ہوتا ہے، یہ ساری صورتِ حال چاہے اس طرح کا مال لینا ہو یا پیشکش کرنا ہو، شرعاً جائز و درست نہیں ہے۔

اکیڈمی تمام مسلمانانِ ہند کو اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ وہ مسلم معاشرہ کو ان خطوط پر متوجہ کریں، جو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے ان کے لئے تجویز کئے ہیں اور شادیوں کو ہر طرح سادہ رکھیں اور ارشاد نبوی ’’ أعظم النکاح برکۃ وأیسرہا مؤنۃ‘‘ کے مطابق بغیر جہیز و دباؤ اور فرمائش و مطالبہ، نیز اسراف و تبذیر کے، بطریق سنت نبویہ انجام دیں۔[116]