شریعت نے خاندانی نظام کے بقاء، بچوں کی بہتر نگہداشت اور خواتین کی فطری صلاحیت کی رعایت کرتے ہوئے، ذمہ داریوں کی اس طرح تقسیم کی ہے، کہ کسبِ معاش کی ذمہ داری — جس کے لئے محنت، مزدوری، دوڑ دھوپ کی ضرورت پیش آتی ہے — مرد پر رکھی گئی ہے اور اُمور خانہ داری خواتین سے متعلق رکھے گئے ہیں، اس کی یہ تعبیر درست نہیں ہے کہ عورت گھر کی خادمہ ہے ؛ بلکہ صحیح تعبیر یہ ہے کہ عورت گھر کی ’’مالکہ ‘‘ ہے، اسی لئے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ’’ المرأۃ راعیۃ علی بیت بعلہا وولدہ وہی مسئولۃ عنہم‘‘ [117] یعنی عورت گھر کی ذمہ دار اور اس کی انچارج ہے، عورت کو —- چاہے وہ   کسبِ معاش کی صلاحیت رکھتی ہی ہو —-  کسب معاش پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، یہ خواتین کے لئے بہت بڑی رحمت ہے، آج مغربی دنیا میں خواتین سے دوہری خدمت لی جاتی ہے، ان کو بچوں کی پرورش اور اُمور خانہ داری کی بھی تکمیل کرنی پڑتی ہے اور ملازمت کر کے پیسے بھی کمانے پڑتے ہیں اور معاشی ذمہ داریوں میں شریک ہونا پڑتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس تقسیم کار میں خاندانی نظام کا بقا ہے، انسانی فطرت یہ ہے کہ باہمی احتیاج اور ضرورت مندی سے تعلقات استوار رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی صلاحیت باقی رہتی ہے، مزدور سرمایہ دار کو اس لئے برداشت کرتا ہے کہ اس کی روزی روٹی سرمایہ دار سے متعلق ہے، سرمایہ دار مزدور سے اپنا تعلق اس لئے موافق رکھنا چاہتا ہے کہ جب تک مزدور کے ہاتھ نہیں لگیں، محض سرمایہ سے کوئی چیز نہیں بن سکتی، یہی حال زندگی کے دوسرے شعبوں کا ہے، ازدواجی زندگی کا مسئلہ بھی اسی طرح ہے، شوہر اپنے ذہن و قلبی سکون نیز گھر اور بچوں کی نگہداشت اور تربیت کے لئے بیوی کا محتاج ہے اور بیوی اپنی ضروریاتِ زندگی اور تحفظ کے لئے شوہر کی ضرورت مند ہے، یہ ایک دوسرے کی ضرورت باہم تعلقات کی استواری کا سبب بنتی ہے اور انسان ایک دوسرے کو برداشت کرتا ہے، اگر شوہر عیاشی کا راستہ اختیار کر لے اور اس کا دل بال بچوں کی محبت سے خالی ہو جائے تو بیوی سے بے اعتنائی پیدا ہو جاتی ہے اور اس کی کمزوریوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، اسی طرح عورت اپنی ضروریاتِ زندگی کے بارے میں شوہر سے بے نیاز ہو جائے تو ناگواریوں کے باوجود اس سے نباہ کی صلاحیت نہیں رہتی، غرض کہ گھر اور باہر کی ذمہ داریوں کی تقسیم شوہر و بیوی کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے رہیں اور ہلکے پھلکے ناخوشگوار واقعات کو برداشت کر لیا کریں، مغربی ملکوں میں چوں کہ عورتوں کو گھر سے باہر لایا گیا، وہ مردوں ہی کی طرح معاشی دوڑ دھوپ میں مشغول کر دی گئی ؛ اس لئے طلاق کی کثرت ہو گئی، نکاح کے رشتے مکڑی کے جالے کی طرح قائم ہونے اور ٹوٹنے لگے اور اس طرح خاندانی نظام بکھر کر رہ گیا، جب خاندانی نظام بکھرا تو بچے اپنی شناخت اور ماں باپ کی محبت سے محروم ہو گئے، شوہروں کے لئے وہ سکون بخش شریکِ حیات عنقا ہو گئیں، جو پسینہ بہا کر آنے والے شوہر کا محبت کے ساتھ استقبال کرے اور بیویوں کے لئے وہ وفا شعار شوہر نہیں رہے، جو اپنی بیوی سے جاں نثارانہ محبت رکھنے والا اور جوانی کے بعد بڑھاپے میں بھی اس کا ساتھ دینے والا ہو۔

لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام خواتین پر کسبِ معاش کا دروازہ بالکل ہی بند کر دیا گیا ہے، اگر وہ اپنے سرپرست یعنی شادی سے پہلے والد اور شادی کے بعد شوہر کی اجازت سے شرعی حدود کی رعایت کرتے ہوئے کسبِ معاش کی سرگرمی میں حصہ لینا چاہے، تو اس کی گنجائش ہے۔