خواتین اور املاک میں تصرف کا حق

اسلام سے پہلے بہت سے مذاہب اور نظامہائے قانون وہ تھے، جن میں عورتوں کو مالک بننے کا حق حاصل نہیں تھا، وہ خود مال اور جائیداد شمار کی جاتی تھیں ؛ لیکن اسلام نے بحیثیت انسان، مردوں اور عورتوں کو ایک ہی درجہ میں رکھا ہے، جیسے مرد اپنی املاک کا خود مالک ہوتا ہے اور اس میں تصرف کرنے کا مجاز ہوتا ہے، اسی طرح عورتیں بھی مالک بن سکتی ہیں اور اپنی املاک کو اپنی مرضی کے مطابق خرچ کر سکتی ہیں، چنانچہ فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ عورت کو اپنے مال پر ولایت حاصل ہو گی، وہ اپنے مال کو خرید و فروخت کر سکتی ہے، کرایہ پر لگا سکتی ہے اور دوسرے سے تصرفات کر سکتی ہے۔


جو عورت ماں بن چکی ہو، یا شادی شدہ ہو اور کچھ عرصہ شوہر کے ساتھ رہ چکی ہو، اس کے بارے میں تو تمام فقہاء کا اتفاق ہے، البتہ اگر وہ بالغ ہو چکی ؛ لیکن ابھی غیر شادی شدہ ہے، تو کیا اس کا مال اس کے حوالہ کیا جا سکتا ہے اور وہ اس میں تصرف کر سکتی ہے، یا ابھی اُس کو اِس کا اختیار نہیں ہو گا ؟ دوسرے : شادی کے بعد اس کو اپنے مال میں تصرف کرنے کا اختیار خرید و فروخت کی حد تک ہی ہو گا، یا وہ ایسا تصرف بھی کر سکتی ہے، جس میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو، جیسے ہبہ اور صدقہ کرنا ؟ — اس سلسلہ میں فقہاء کے دو نقاط نظر ہیں، ایک نقطۂ نظر احناف، شوافع، حنابلہ اور جمہور کا ہے کہ جیسے ایک لڑکے کو بالغ ہونے کے بعد اپنا مال اپنی تحویل میں لینے اور اس میں تصرف کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے، اسی طرح ایک بالغ لڑکی کو بھی اس کا حق حاصل ہو گا، چاہے ابھی اس کی شادی ہوئی ہو یا نہیں ہوئی ہو، نیز جیسے اس کو خرید وفروخت وغیرہ کا حق حاصل ہو گا، اسی طرح وہ اپنی چیز کسی کو ہبہ کرنا چاہے، تو یہ بھی اس کے لئے جائز ہو گا اور یہ اختیارات اسے شادی سے پہلے بھی حاصل ہوں گے اور شادی کے بعد بھی، نیز وہ اپنے تصرف میں شوہر سے اجازت لینے کی پابند نہیں ہو گی، اگر اپنے شوہر سے اجازت لئے بغیر بھی، کسی کو کوئی چیز دینا چاہے تو دے سکتی ہے۔


دوسرا نقطۂ نظر مالکیہ کا ہے، امام مالک ؒ کے نزدیک لڑکی کا مال اسے ماں بننے کے بعد، یا شوہر کے یہاں چند سال گزرنے کے بعد حوالہ کیا جائے گا اور جب مال اس کے حوالہ ہو جائے گا، تو ایسا تصرف تو وہ خود کر سکتی ہے، جس سے اس کا ذاتی یا مالی نفع متعلق ہو، لیکن ایسا تصرف، جو ’تبرع ‘ کے قبیل سے ہو، یعنی جس کا مقصد دوسروں کے ساتھ حسن سلوک ہو، وہ اسے اپنی ایک تہائی املاک کی حد تک ہی کر سکتی ہے، اگر اس سے زیادہ مال ہبہ یا صدقہ کرنا چاہے، تو ضروری ہو گا کہ شوہر سے اجازت لے۔[126]


ان میں سے پہلا نقطۂ نظر راجح ہے ؛ کیوں کہ قرآن و حدیث سے کوئی ایسی پابندی ثابت نہیں ہوتی اور نہ اس معاملہ میں مردوں اور عورتوں کے احکام میں فرق و امتیاز معلوم ہوتا ہے، اﷲ تعالیٰ نے صدقہ کرنے والوں کی تعریف کرتے ہوئے، اس نیک کام کی نسبت مردوں کی طرف بھی کی ہے اور عورتوں کی طرف بھی : ’’ والمتصدقین والمتصدقات‘‘[127] رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے نماز عید کے موقع سے خطبہ ارشاد فرمایا اور اپنے خطبہ میں عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے، خاص طور پر انھیں صدقہ کرنے کی تلقین فرمائی، حضرت بلال ص نے اپنا کپڑا بچھایا، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم ان کو صدقہ کی تلقین کرتے جاتے اور خواتین انگوٹھیاں وغیرہ حضرت بلالؓ کے کپڑے میں ڈالتی جاتیں[128]، حضرت زینب ؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے ہمیں خطاب فرمایا : اے گروہ خواتین !صدقہ کیا کرو، چاہے اپنے زیور ہی سے کر پاؤ، ’’ تصدقن ولومن حلیکن‘‘۔[129]


حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے، جو حضرت زبیر ص کے نکاح میں تھیں، ان کو ایک باندی حضور صلی اﷲ علیہ و سلم نے عطا فرمائی، انھوں نے اسے فروخت کر لیا، حضرت زبیر ص آئے اس وقت باندی کی قیمت حضرت اسماء ؓ کی گود میں رکھی ہوئی تھی، انھوں نے حضرت اسماءؓ سے کہا کہ یہ پیسے مجھے ہبہ کر دو، حضرت اسماءؓ نے کہا، میں نے تو اسے صدقہ کر دیا ہے، إنی تصدقت بہا[130]، ایک موقع پر حضرت اسماءؓ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ میرے پاس تو اپنا ہی مال ہوا کرتا ہے، جو حضرت زبیرؓ  خانہ داری میں دیا کرتے ہیں، آپؐ نے انھیں نصیحت کی : اے اسماء ! دیتی رہو اور صدقہ کرتی رہو اور خزانہ کا منھ بند مت کرو کہ تم پر بھی بند کر دیا جائے گا[131]، ام المومنین حضرت میمونہؓ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کے زمانہ میں باندی آزاد کر دی اور حضور صلی اﷲ علیہ و سلم سے اس کا ذکر کیا، آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم نے اپنے ماموں وغیرہ کو باندی دے دی ہوتی، تو زیادہ باعث اجر ہوتا : لو أعطیتہا أخوالک کان أعظم لأجرک[132]،بلکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرہ میں عام طور پر جتنی مقدار صاحب خانہ کی اجازت کے بغیر صدقہ و خیرات وغیرہ میں خرچ کی جاتی ہے، اتنی مقدار عورت شوہر کی اجازت کے بغیر بھی خرچ کر سکتی ہے اور اس میں نہ صرف اس کو اجر حاصل ہو گا ؛ بلکہ اس کا شوہر بھی اجر میں شریک سمجھا جائے گا، چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ عورت اگر اپنے شوہر کے گھر سے خرچ کر لے، تو اس کو بھی اجر ہو گا اور اتنا ہی اجر اس کے شوہر کو بھی ہو گا اور ایک کی وجہ سے دوسرے کے اجر میں کمی واقع نہیں ہو گی[133]۔


ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جیسے مردوں کو بالغ ہونے کے بعد اپنے مال میں ہر طرح کے تصرف کا حق حاصل ہے، یہی حق عورتوں کو بھی حاصل ہے، شادی شدہ خواتین اپنے مال میں تصرف کرنے کے لئے شوہر سے اجازت لینے کی پابند نہیں ہیں، وہ جس طرح ایسا تصرف کر سکتی ہے، جس سے ان کو دنیوی نفع حاصل ہو، اسی طرح وہ ہبہ اور صدقہ بھی کر سکتی ہیں اور یہی جمہور کا نقطۂ نظر ہے، یہ اور بات ہے کہ چوں کہ خواتین کو لوگوں کے بارے میں زیادہ تجربہ نہیں ہوتا اور وہ حالات سے مردوں کی بہ نسبت کم واقف ہوتی ہیں، اس لئے بہتر ہے کہ وہ اپنے سرپرستوں یعنی والد اور شوہر وغیرہ سے مشورہ کر لیا کریں ؛ تاکہ خود ان کے مفادات کی حفاظت ہو اور وہ نقصان سے بچ سکیں، — جن حضرات نے یہ بات کہی ہے کہ عورتوں کو اپنے مال میں تصرف کرنے کا حق ماں بننے یا شادی پر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہو گا اور اس کے بعد بھی ان کو ایسا تصرف کرنے کا حق حاصل نہیں ہو گا، جو تبرع، یعنی ایک طرفہ حسن سلوک کے قبیل سے ہو، ان کا مقصد بھی عورتوں کی آزادی کو محدود کرنا نہیں ؛ بلکہ انھیں کے مفادات کی حفاظت مقصود ہے۔