مسئلہ۔ اگر ایسی بیماری ہے کہ روزہ نقصان کرتا ہے اور یہ ڈر ہے کہ اگر روزہ رکھے گی تو بیماری پڑھ جائے گی یا دیر میں اچھی ہو گی یا جان جاتی رہے گی تو روزہ نہ رکھے جب اچھی ہو جائے گی تو اس کی قضا رکھ لے لیکن فقط اپنے دل سے ایسا خیال کر لینے سے روزہ چھوڑ دینا درست نہیں ہے بلکہ جب کوئی مسلمان دیندار طبیب کہہ دے کہ روزہ تم کو نقصان کرے گا تب چھوڑنا چاہیے۔
مسئلہ۔ اگر حکیم یا ڈاکٹر کافر ہے یا شرع کا پابند نہیں ہے تو اس کی بات کا اعتبار نہیں ہے فقط اس کے کہنے سے روزہ نہ چھوڑے۔
مسئلہ۔ اگر حکیم نے کچھ کہا نہیں لیکن خود اپنا تجربہ ہے اور کچھ ایسی نشانیاں معلوم ہوئیں جن کی وجہ سے دل گواہی دیتا ہے کہ روزہ نقصان کرے گا تب بھی روزہ نہ رکھے اور اگر خود تجربہ کار نہ ہو اور اس بیماری کا کچھ حال معلوم نہ ہو تو فقط خیال کا اعتبار نہیں۔ اگر دیندار حکیم کے بغیر بتائے اور بے تجربے کے اپنا خیال ہی خیال پر رمضان کا روزہ توڑے گی تو کفارہ دینا پڑے گا۔ اور اگر روزہ نہ رکھے گی تو گنہگار ہو گی۔
مسئلہ۔ اگر بیماری سے اچھی ہو گئی لیکن ابھی ضعف باقی ہے اور یہ غالب گمان ہے کہ اگر روزہ رکھا تو پھر بیمار پڑ جائے گی تب بھی روزہ نہ رکھنا جائز ہے۔
مسئلہ۔ اگر کوئی مسافرت میں ہو تو اس کو بھی درست ہے کہ روزہ نہ رکھے پھر کبھی اس کی قضا رکھ لے اور مسافرت کے معنے وہی ہیں جس کا نماز کے بیان میں ذکر ہو چکا ہے یعنی تین منزل جانے کا قصد ہو۔
مسئلہ۔ مسافرت میں اگر روزے سے کوئی تکلیف نہ ہو جیسے ریل پر سوار ہے اور یہ خیال ہے کہ شام تک گھر پہنچ جاؤں گی یا اپنے ساتھ سب راحت و آرام کا سامان موجود ہے تو ایسے وقت سفر میں بھی روزہ رکھ لینا بہتر ہے۔ اور اگر روزہ نہ رکھے تب بھی کوئی گناہ نہیں۔ ہاں رمضان شریف کے روزے کی جو فضیلت ہے اس سے محروم رہے گی۔ اور اگر راستہ میں روزہ کی وجہ سے تکلیف اور پریشانی ہو تو ایسے وقت روزہ نہ رکھنا بہتر ہے۔
مسئلہ۔ اگر بیماری سے اچھی نہیں ہوئی اس میں مر گئی یا ابھی گھر نہیں پہنچی مسافرت ہی میں مر گئی تو جتنے روزے بیمار یا سفر کی وجہ سے چھوٹے ہیں آخرت میں ان کا مواخذہ نہ ہو گا کیونکہ قضا رکھنے کی مہلت ابھی اس کو نہیں ملی تھی
مسئلہ۔ اگر بیماری میں دس روزے گئے تھے پھر پانچ دن اچھی رہی لیکن قضا روزے نہیں رکھے تو پانچ روزے معاف ہیں فقط پانچ روزوں کی قضا نہ رکھنے پر پکڑی جائے گی۔ اور اگر پورے دس دن اچھی رہی تو پورے دسوں دن کی پکڑ ہو گئی اس لیے ضروری ہے کہ جتنے روزوں کا مواخذہ اس پر ہونے والا ہے اتنے دنوں کا فدیہ دینے کے لیے کہہ مرے جبکہ اس کے پاس مال ہو اور فدیہ کا بیان آگے آتا ہے۔
مسئلہ۔ اسی طرح اگر مسافرت میں روزے چھوڑ دیئے تھے پھر گھر پہنچنے کے بعد مر گئی تو جتنے دن گھر میں رہی ہے فقط اتنے دن کی پکڑ ہو گی اس کو بھی چاہیے کہ فدیہ کی وصیت کر جائے۔ اگر روزے گھر رہنے کی مدت سے زیادہ چھوٹے ہوں تو ان کا مواخذ نہیں ہے۔
مسئلہ۔ اگر راستہ میں پندرہ دن رہنے کی نیت سے ٹھیر گئی تو اب روزہ چھوڑنا درست نہیں کیونکہ شرع سے اب وہ مسافر نہیں رہی۔ البتہ اگر پندرہ دن سے کم ٹھیرنے کی نیت ہو تو روزہ رکھنا درست ہے۔
مسئلہ۔ حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی عورت کو جب اپنی جان کا یا بچہ کی جان کا کچھ ڈر ہو تو روزہ نہ رکھے پھر کبھی قضا رکھ لے لیکن اگر اپنا شوہر مالدار ہے کہ کوئی انا رکھ کر دودھ پلوا سکتا ہے تو دودھ پلانے کی وجہ سے ماں کو روزہ چھوڑنا درست نہیں ہے۔ البتہ اگر وہ ایسا بچہ ہے کہ سوائے اپنی ماں کے کسی اور کا دودھ نہیں پیتا ہے تو ایسے وقت ماں کو روزہ نہ رکھنا درست ہے۔
مسئلہ۔ کسی انا نے دودھ پلانے کی نوکری کی پھر رمضان آ گیا اور روزہ سے بچہ کی جان کا ڈر ہے تو انا کو بھی روزا نہ رکھنا درست ہے۔
مسئلہ۔ اسی طرح اگر کوئی دن کو مسلمان ہوئی یا دن کو جوان ہوئی تو اب دن بھر کچھ کھانا پینا درست نہیں ہے اور اگر کچھ کھا لیا تو اس روزہ کی قضا رکھنا بھی نئی مسلمان اور نئی جوان کے ذمہ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ۔ مسافرت میں روزہ نہ رکھنے کا ارادہ تھا لیکن دوپہر سے ایک گھنٹہ پہلے ہی اپنے گھر پہنچ گئی یا ایسے وقت میں پندرہ دن رہنے کی نیت سے کہیں رہ پڑی اور اب تک کچھ کھایا پیا نہیں ہے تو اب روزہ کی نیت کر لے۔
فدیہ کا بیان
مسئلہ۔ جس کو اتنا بڑھاپا ہو گیا ہو کہ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رہی یا اتنی بیمار ہے کہ اب اچھے ہونے کی امید نہیں نہ روزے رکھنے کی طاقت ہے تو وہ روزے نہ رکھے اور ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو صدقہ فطر کے برابر غلہ دے دے یا صبح شام پیٹ بھر کے اس کو کھلا دے شرع میں اس کو فدیہ کہتے ہیں اور اگر غلہ کے بدلے اسی قدر غلہ کی قیمت دے دے تب بھی درست ہے۔
مسئلہ۔ وہ گیہوں اگر تھوڑے تھوڑے کر کے کئی مسکینوں کو بانٹ دیے تو بھی صحیح ہے۔
مسئلہ۔ پھر اگر کبھی طاقت آ گئی یا بیماری سے اچھی ہو گئی تو سب روزے قضا رکھنے پڑیں گے اور جو فدیہ دیا ہے اس کا ثواب الگ ملے گا۔
مسئلہ۔ کسی کے ذمہ کئی روزے قضا تھے اور مرتے وقت وصیت کر گئی کہ میرے روزوں کے بدلے فدیہ دے دینا تو اس کے مال میں اس کا ولی فدیہ دے دے اور کفن دفن اور قرض ادا کر کے جتنا مال بچے اس کی ایک تہائی میں سے اگر سب فدیہ نکل آئے تو دینا واجب ہو گا۔
مسئلہ۔ اگر اس نے وصیت نہیں کی مگر ولی نے اپنے مال میں سے فدیہ دے دیا تب بھی خدا سے امید رکھے کہ شاید قبول کر لے اور اب روزوں کا مواخذہ نہ کرے اور بغیر وصیت کیے خود مردے کے مال میں سے فدیہ دینا جائز نہیں ہے اسی طرح اگر تہائی مال سے فدیہ زیادہ ہو جائے تو باوجود وصیت کے بھی زیادہ دینا بدون رضا مندی سب وارثوں کے جائز نہیں ہاں اگر سب وارث خوش دل سے راضی ہو جائیں تو دونوں صورتوں میں فدیہ دینا درست ہے لیک نابالغ وارث کی اجازت کا شرع میں کچھ اعتبار نہیں۔ بالغ وارث اپنا حصہ جدا کر کے اس میں سے دے دیں تو درست ہے۔
مسئلہ۔ اگر کس کی نماز قضا ہو گئی ہوں اور وصیت کر کے مر گئی کہ میری نمازوں کے بدلے میں فدیہ دے دینا اس کا بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ۔ ہر وقت کی نماز کا اتنا ہی فدیہ ہے جتنا ایک روزہ کا فدیہ ہے اس حساب سے دن رات کے پانچ فرض اور ایک وتر چھ نمازوں کی طرف سے ایک چھٹانک کم پونے گیارہ سیر گہیوں اسی روپے کے سیر سے دے مگر احتیاطا پورے بارہ سیر دے۔
مسئلہ۔ کسی کے ذمہ زکوٰۃ باقی ہے ابھی ادا نہیں کی تو وصیت کر جانے سے اس کا بھی ادا کر دینا وارثوں پر واجب ہے۔ اگر وصیت نہیں کی اور وارثوں نے اپنی خوشی سے دے دی تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی۔
مسئلہ۔ اگر ولی مردے کی طرف سے قضا روزے رکھ لے یا اس کی طرف سے قضا نمازیں پڑھ لے تو یہ درست نہیں یعنی اس کے ذمہ سے نہ اتریں گی۔
مسئلہ۔ بے وجہ رمضان کا روزہ چھوڑ دینا درست نہیں اور بڑا گناہ ہے یہ نہ سمجھے کہ اس کے بدلے ایک روزہ قضا رکھ لوں گی کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ رمضان کے ایک روزے کے بدلے میں اگر سال برابر روزے رکھتی رہے تب بھی اتنا ثواب نہ ملے گا جتنا رمضان میں ایک روزے کا ثواب ملتا ہے۔
مسئلہ۔ اگر کسی نے شامت اعمال سے روزہ نہ رکھا تو اور لوگوں کے سامنے کچھ کھائے نہ پئے نہ یہ ظاہر کرے کہ آج میرا روزہ نہیں ہے اس لیے کہ گناہ کر کے اس کو ظاہر کرنا بھی گناہ ہے اگر سب سے کہہ دے گی تو دہرا گناہ ہو گا۔ ایک تو روزہ نہ رکھنے کا دوسرا گناہ ظاہر کرنے کا۔ یہ جو مشہور ہے کہ خدا کی چوری نہیں تو بندہ کی کیا چوری یہ غلط بات ہے بلکہ جو کسی عذر سے روزہ نہ رکھے اس کو بھی مناسب ہے کہ سب کے روبرو نہ کھائے۔
مسئلہ۔ جب لڑکا یا لڑکی روزہ رکھنے کے لائق ہو جائیں تو ان کو بھی روزہ کا حکم کرے اور جب دس برس کی عمر ہو جائے تو مار کر روزہ رکھائے اگر سارے روزے نہ رکھ سکے تو جتنے رکھ سکے رکھائے۔
مسئلہ۔ اگر نابالغ لڑکا لڑکی روزہ رکھ کے توڑ ڈالے تو اس کی قضا نہ رکھائے۔ البتہ اگر نماز کی نیت کر کے توڑ دے تو اس کو دہرائے۔