مسئلہ۔ کوئی شہر کافروں کے قبضہ میں تھا وہی لوگ وہاں رہتے سہتے تھے پھر مسلمان ان پر چڑھ آئے اور لڑ کر وہ شہر ان سے چھین لیا اور وہاں دین اسلام پھیلایا اور مسلمان بادشاہ نے کافروں سے لے کر شہر کی ساری زمین ان ہی مسلمانوں کو بانٹ دی تو ایسی زمین کو شرع میں عشری کہتے ہیں اور اگر اس شہر کے رہنے والے لوگ سب کے سب اپنی خوشی سے مسلمان ہو گئے لڑنے کی ضرورت نہیں پڑی تب بھی اس شہر کی سب زمین عشری کہلائے گی اور عرب کے ملک کی بھی ساری زمین عشری ہے۔

مسئلہ۔ اگر کسی کے باپ دادا سے یہی عشری زمین برابر چلی آتی ہو یا کسی ایسے مسلمان سے خریدی جس کے پاس اسی طرح چلی آتی ہو تو ایسی زمین میں جو کچھ پیدا ہوا اس میں بھی زکوٰۃ واجب ہے۔ اور طریقہ اس کا یہ ہے کہ اگر کھیت کو سینچنا نہ پڑھے فقط بارش کے پانی سے پیداوار ہو گئی یا ندی اور دریا کے کنارے پر ترائی میں کوئی چیز بوئی اور بے سنچے پیدا ہو گئی تو ایسے کھیت میں جتنا پیدا ہوا ہے اس کا دسواں حصہ خیرات کر دینا واجب ہے یعنی دس من میں ایک من اور دس سیر میں ایک سیر اور اگر کھیت کو پرچلا کر کے یا کسی اور طریق سے سینچا ہے تو پیداوار کا بیسواں حصہ خیرات کرے یعنی بیس من میں ایک من اور بیس سیر میں ایک سیر اور یہی حکم ہے باغ کا ایسی زمین میں کتنی ہی تھوڑی چیز پیدا ہوئی ہو بہرحال یہ صدقہ خیرات کرنا واجب ہے کم اور زیادہ ہونے میں کچھ فرق نہیں ہے۔

مسئلہ۔ اناج ساگ ترکاری میوہ پھل پھول وغیرہ جو کچھ پیدا ہو سب کا یہی حکم ہے۔

مسئلہ۔ عشری زمین یا پہاڑ یا جنگل سے اگر شہد نکالا تو اس میں بھی یہ صدقہ واجب ہے۔

مسئلہ۔ کسی نے اپنے گھر کے اندر کوئی درخت لگایا یا کوئی چیز ترکاری کی قسم سے ہے اور کچھ بویا اور اس میں پھل آیا تو اس میں یہ صدقہ واجب نہیں ہے۔

مسئلہ۔ اگر عشری زمین کوئی کافر خرید لے تو وہ عشری نہیں رہتی پھر اگر اس سے مسلمان بھی خرید  لے یا کسی اور طور پر اس کو مل جائے تب بھی وہ عشری نہ ہو گی۔

مسئلہ۔ یہ بات کہ یہ دسواں یا بیسواں حصہ کس کے ذمہ ہے یعنی زمین کے مالک پر ہے یا پیداوار کے مالک پر ہے۔ اس میں بڑا عالموں کا اختلاف ہے مگر ہم آسانی کے واسطے یہی بتلایا کرتے ہیں کہ پیداوار والے کے ذمہ ہے۔ سو اگر کھیت ٹھیکہ پر ہو خواہ نقد پر یا غلہ پر تو کسان کے ذمہ ہو گا اور اگر کھیت بٹائی پر ہو تو زمیندار اور کسان دونوں اپنے اپنے حصہ کا دیں۔