مسئلہ۔ جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا اتنی ہی قیمت کا سوداگری کا اسباب ہو اس کو شریعت میں مالدار کہتے ہیں ایسے شخص کو زکوٰۃ کا پیسہ دینا درست نہیں اور اس کو زکوٰۃ کا پیسہ لینا اور کھانا بھی حلال نہیں۔ اسی طرح جس کے پاس اتنی ہی قیمت کا کوئی مال ہو جو سوداگری کا اسباب تو نہیں لیکن ضرورت سے زائد ہے وہ بھی مالدار ہے ایسے شخص کو بھی زکوٰۃ کا پیسہ دینا درست نہیں اگرچہ خود اس قسم کے مالدار پر زکوٰۃ بھی واجب نہیں۔
مسئلہ۔ اور جس کے پاس اتنا مال نہیں بلکہ تھوڑا مال ہے یا کچھ بھی نہیں یعنی ایک دن کے گزارہ کے موافق بھی نہیں اس کو غریب کہتے ہیں ایسے لوگوں کو زکوٰۃ کا پیسہ دینا درست ہے اور ان لوگوں کو لینا بھی درست ہے۔
مسئلہ۔ بڑی بڑی دیگیں اور بڑے بڑے فرش فروش اور شامیانے جن کی برسوں میں ایک آدھ دفعہ کہیں شادی بیاہ میں ضرورت پڑتی ہے اور روزہ مرہ ان کی ضرورت نہیں ہوتی وہ ضروری اسباب میں داخل نہیں۔
مسئلہ۔ رہنے کا گھر اور پہننے کے کپڑے اور کام کاج کے لیے نوکر چاکر اور گھر کی گھرستی جو اکثر کام میں رہتی ہے یہ سب ضروری اسباب میں داخل ہیں اس کے ہونے سے مالدار نہیں ہو گی چاہے جتنی قیمت کی ہو اس لیے اس کو زکوٰۃ کا پیسہ دینا درست ہے اسی طرح پڑھے ہوئے آدمی کے پاس اس کی سمجھ اور برتاؤ کی کتابیں بھی ضروری اسباب میں داخل ہیں۔
مسئلہ۔ کسی کے پاس دس پانچ مکان ہیں جن کو کرایہ پر چلاتی ہے اور اس کی آمدنی سے گزر کرتی ہے یا ایک آدھ گاؤں ہے جس کی آمدنی آتی ہے لیکن بال بچے اور گھر میں کھانے پینے والے لوگ اتنے زیادہ ہیں کہ اچھی طرح بسر نہیں ہوتی اور تنگی رہتی ہے اور اس کے پاس کوئی ایسا مال بھی نہیں جس میں زکوٰۃ واجب ہو تو ایسے شخص کو بھی زکوٰۃ کا پیسہ دینا درست ہے۔
مسئلہ۔ کسی کے پاس ہزار روپے نقد موجود ہیں لیکن وہ پورے ہزار روپے کا یا اس سے بھی زائد کا قرض دار ہے تو اس کو بھی زکوٰۃ کا پیسہ دینا درست ہے اور اگر قرضہ ہزار روپے سے کم ہو تو دیکھو قرضہ دے کر کتنے روپے بچتے ہیں اگر اتنے بچیں جتنے میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے تو اس کو زکوٰۃ کا پیسہ دینا درست نہیں اور اور اگر اس سے کم بچیں تو دنیا درست ہے۔
مسئلہ۔ ایک شخص اپنے گھر کا بڑا مالدار ہے لیکن کہیں سفر میں ایسا اتفاق ہوا کہ اس کے پاس کچھ خرچ نہیں رہا سارا مال چوری ہو گیا اور کوئی وجہ ایسی ہوئی کہ اب گھر تک پہنچنے کا بھی خرچ نہیں ہے ایسے شخص کو بھی زکوٰۃ کا پیسہ دینا درست ہے۔ ایسے ہی اگر حاجی کے پاس راستے میں خرچ مک گیا اور اس کے گھر میں بہت مال و دولت ہے اس کو بھی دینا درست ہے۔
مسئلہ۔ زکوٰۃ کا پیسہ کسی کافر کو دینا درست نہیں مسلمان ہی کو دے۔ اور زکوٰۃ اور عشر اور صدقہ فطر اور نذر اور کفارہ کے سوا اور خیر خیرات کافر کو بھی دینا درست ہے۔
مسئلہ۔ زکوٰۃ کا پیسہ کسی کافر کو دینا درست نہیں مسلمان ہی کو دے دے۔ اور زکوٰۃ اور عشر اور صدقہ فطر اور نذر اور کفارہ کے سوا اور خیر خیرات کافر کو بھی دینا درست ہے۔
مسئلہ۔ زکوٰۃ کے پیسہ سے مسجد بنوانا یا کسی لا وارث مردہ کا گور و کفن کر دینا یا مردے کی طرف سے اس کا قرضہ ادا کر دینا یا کسی اور نیک کام میں لگا دینا درست نہیں جب تک کسی مستحق کو دے نہ دیا جائے زکوٰۃ ادا نہ ہو گی۔
مسئلہ۔ اپنی زکوٰۃ کا پیسہ اپنے ماں باپ دادا دادی نانا نانی پر دادا وغیرہ جن لوگوں سے یہ پیدا ہوئی ہے ان کو دینا درست نہیں ہے۔ اسی طرح اپنی اولاد اور پوتے پڑپوتے نواسے وغیرہ جو لوگ اس کی اولاد میں داخل ہیں ان کو بھی دینا درست نہیں۔ ایسے ہی بی بی اپنے میاں کو اور میاں بی بی کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔
مسئلہ۔ ان رشتہ داروں کے سوا سب کو زکوٰۃ دینا درست ہے۔ جیسے بھائی بہن بھتیجی بھانجی چچا پھوپی خالہ ماموں سوتلی ماں سوتیلا باپ سوتیلا دادا ساس خسر وغیرہ سب کو دینا درست ہے۔
مسئلہ۔ نابالغ لڑکے کا باپ اگر مالدار ہو تو اس کو زکوٰۃ دینا درست نہیں اور اگر لڑکا لڑکی بالغ ہو گئے اور خود وہ مالدار نہیں لیکن ان کا باپ مالدار ہے تو ان کو دینا درست ہے۔
مسئلہ۔ اگر چھوٹے بچے کا باپ تو مالدار نہیں لیکن ماں مالدار ہے تو اس بچے کو زکوٰۃ کا پیسہ دینا درست ہے۔
مسئلہ۔ سیدوں کو اور علویوں کو اسی طرح جو حضرت عباس کی یا حضرت جعفر کی یا حضرت عقیل یا حضرت حارث بن عبدالمطلب کی اولاد میں ہوں ان کو زکوٰۃ کا پیسہ دینا درست نہیں اسی طرح جو صدقہ شریعت سے واجب ہو اس کا دینا بھی درست نہیں جیسے نذر کفارہ عشر صدقہ فطر اور اس کے سوا اور کسی صدقہ خیرات کا دینا درست ہے۔
مسئلہ۔ گھر کے نوکر چاکر خدمت گار ماما دائی کھلائی وغیرہ کو بھی زکوٰۃ کا پیسہ دینا درست ہے لیکن ان کی تنخواہ میں نہ حساب کرے بلکہ تنخواہ سے زائد بطور انعام اکرام کے دے دے اور دل میں زکوٰۃ دینے کی نیت رکھے تو درست ہے۔
مسئلہ۔ جس لڑکے کو تم نے دودھ پلایا ہے اس کو اور جس نے بچپن میں تم کو دودھ پلایا ہے اس کو بھی زکوٰۃ کا پیسہ دینا درست ہے۔
مسئلہ۔ ایک عورت کا مہر ہزار روپیہ ہے لیکن اس کا شوہر بہت غریب ہے کہ ادا نہیں کر سکتا تو ایسی عورت کو بھی زکوٰۃ کا پیسہ دینا درست ہے اور اگر اس کا شوہر امیر ہے لیکن مہر دیتا نہیں یا اس نے اپنا مہر معاف کر دیا تو بھی زکوٰۃ کا پیسہ دینا درست ہے اور اگر یہ امید ہے کہ جب مانگوں گی تو وہ ادا کر دے گا کچھ تامل نہ کرے گا تو ایسی عورت کو زکوٰۃ کا پیسہ دینا درست نہیں۔
مسئلہ۔ ایک شخص کو مستحق سمجھ کر زکوٰۃ دے دی پھر معلوم ہوا کہ وہ تو مالدار ہے یا سید ہے یا اندھیاری رات میں کسی کو دے دیا پھر معلوم ہوا کہ وہ تو میری ماں تھی یا میری لڑکی تھی یا اور کوئی ایسا رشتہ دار ہے جس کو زکوٰۃ دینا درست نہیں تو ان سب صورتوں میں زکوٰۃ ادا ہو گئی دوبارہ ادا کرنا واجب نہیں لیکن لینے والے کو اگر معلوم ہو جائے کہ یہ زکوٰۃ کا پیسہ ہے اور میں زکوٰۃ لنیے کا مستحق نہیں ہوں تو نہ لے اور پھرا دے۔ اور اگر دینے کے بعد معلوم ہوا کہ جس کو دیا ہے وہ کافر ہے تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی پھر ادا کرے۔
مسئلہ۔ اگر کسی پر شبہ ہو کہ معلوم نہیں مالدار ہے یا محتاج ہے تو جب تک تحقیق نہ ہو جائے اس کو زکوٰۃ نہ دے۔ اگر بے تحقیق کیے دے دیا تو دیکھو دل زیادہ کدھر جاتا ہے اگر دل یہ گواہی دیتا ہے کہ وہ فقیر ہے تو زکوٰۃ ادا ہو گئی اور اگر دل یہ کہے کہ وہ مالدار ہے تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی پھر سے دے۔ لیکن اگر دینے کے بعد معلوم ہو جائے کہ وہ غریب ہی ہے تو پھر زکوٰۃ ادا ہو گئی۔
مسئلہ۔ زکوٰۃ کے دینے میں اور زکوٰۃ کے سوا اور صدقہ خیرات میں سب سے زیادہ اپنے رشتہ ناتہ کے لوگوں کا خیال رکھو کہ پہلے ان ہی لوگوں کو دو لیکن ان کو یہ نہ بتاؤ کہ یہ زکوٰۃ یا صدقہ اور خیرات کی چیز ہے تاکہ وہ برا نہ مانیں۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ قرابت والوں کو خیرات دینے سے دہرا ثواب ملتا ہے۔ ایک تو خیرات کا دوسرا اپنے عزیزوں کے ساتھ سلوک و احسان کرنے کا پھر جو کچھ ان سے بچے وہ اور لوگوں کو دو۔
مسئلہ۔ ایک شہر کی زکوٰۃ دوسرے شہر میں بھیجنا مکروہ ہے ہاں اگر دوسرے شہر میں اس کے رشتہ دار رہتے ہوں ان کو بھیج دیا یا یہاں والوں کے اعتبار سے وہاں کے لوگ زیادہ محتاج ہیں یا وہ لوگ دین کے کام میں لگے ہیں ان کو بھیج دیا تو مکروہ نہیں کہ طالب علموں اور دیندار عالموں کو دینا بڑا ثواب ہے۔