حدیث میں ہے کہ فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ دار کا سونا عبادت ہے اور اس کا خاموش رہنا تسبیح ہے یعنی روزہ دار اگر خاموش رہے تو اسے تسبیح یعنی سبحان اللہ پڑھنے کا ثواب ملتا ہے اور اس کا عمل ثواب میں بڑھ جاتا ہے یعنی اس کے اعمال کا ثواب بہ نسبت اور دنوں کے ان مبارک دنوں میں زیادہ ہوتا ہے اور اس کی دعا مقبول ہے یعنی روزے کی حالت کو قبولیت دعا میں خاص دخل ہے اور اس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں یعنی گناہ صغیرہ معاف ہو جاتے ہیں حدیث میں ہے کہ روزہ ڈھال ہے اور مضبوط قلعہ ہے دوزخ سے بچانے کے لیے یعنی جس طرح ڈھال اور مضبوط قلعہ سے انسان پناہ لیتا ہے اور دشمن سے بچتا ہے اسی طرح روزے کے ذریعہ سے دوزخ سے نجات حاصل ہوتی ہے اس طرح کہ انسان کی قوت گناہوں کی کمزور ہو جاتی ہے اور نیکی کا مادہ بڑھتا ہے سو جب انسان باقاعدہ روزہ دار رہے گا اور اچھی طرح روزے کے آداب بجا لائے گا تو گناہ اس سے چھوٹ جائیں گے اور دوزخ سے نجات ملے گی۔ حدیث میں ہے کہ روزہ ڈھال ہے جب تک کہ نہ پھاڑے یعنی برباد نہ کرے روزہ دار اس کو جھوٹ غیبت سے یعنی روزہ ڈھال کا کام دیتا ہے جیساکہ اوپر بیان ہو چکا ہے مگر جبکہ اس کو گناہوں سے محفوظ رکھے اور اگر روزہ رکھا اور غیبت اور جھوٹ وغیرہ گناہوں سے باز نہ آئے تو گو فرض ادا ہو جائے گا مگر بہت بڑا گناہ ہو گا۔ اور روزے کی جو برکت حاصل ہوتی اس سے محرومی ہو گی۔
حدیث میں ہے روزہ ڈھال ہے دوزخ سے سو جو شخص صبح کرے اس حال میں کہ وہ روزہ دار ہو پس نہ جہالت کرے اس روز اور جبکہ کوئی آدمی اس سے جہالت سے پیش آئے تو اسے بدلہ میں برا نہ کہے اور اس سے بری گفتگو نہ کرے اور چاہیے کہ کہہ دے تحقیق میں روزہ دار ہوں اور قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے بے شک بدبو روزہ دار کے منہ کی زیادہ محبوب ہے خدا کے نزدیک مشک کی خوشبو سے یعنی قیامت کے روز اس بدبو کے عوض جو روزے کی حالت روزے دار کے منہ کے اندر دنیا میں پیدا ہوتی ہے وہ سبب ہے اس خوشبو کے حاصل ہونے کا جو قیامت کو میسر ہو گی۔ حدیث میں ہے کہ روزہ دار کو ہر افطار کے وقت ایک ایسی دعا کی اجازت ہوتی ہے جس کے قبول کرنے کا خاص وعدہ ہے۔ حدیث میں ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں سے فرمایا کہ تم روزہ رکھو اس لیے کہ روزہ ڈھال ہے دوزخ سے بچنے کے لیے اور زمانہ کی مصیبتوں سے بچنے کے لیے یعنی روزہ کی برکت سے دوزخ اور مصائب و تکالیف سے نجات ملتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ تین ایسے آدمی ہیں کہ ان سے کھانے کا حساب قیامت میں نہ ہو گا جو کچھ بھی کھائیں جبکہ وہ کھانا حلال ہو اور وہ روزہ دار ہے اور سحری کھانے والا اور محافظ خدا تعالی کے راستہ میں یعنی جو اسلام کی سرحد میں مقیم ہوا اور کافروں سے ملک اسلام کی حفاظت کرے یہاں سے بہت بڑی رعایت روزہ دار کی اور سحری کھانے والے کی ور محافظ اسلام کی ثابت ہوئی کہ ان سے کھانے کا حساب ہی معاف کر دیا گیا لیکن اس رعایت پر بہت سے لذیذ کھانوں میں مصروف نہ ہونا چاہیے۔ بہت سی لذتوں میں مصروف ہونے سے خدا کی یاد غفلت پیدا ہو جاتی ہے اور گناہ کی قوت کو ترقی ہوتی ہے خوب سمجھ لو بلکہ خدا کی اس نعمت کی بہت قدر ہونی چاہیے اور اس کا شکر اس طرح ادا کرنا چاہیے کہ حق تعالی کی خوب اطاعت کرے۔۔
حدیث میں ہے کہ جو روزہ دار کو روزہ افطار کرائے تو اس روزہ افطار کرانے والے کو اس روزہ رکھنے والے کے ثواب کے برابر ثواب ملے گا بغیر اس بات کے کہ روزہ دار کا کچھ ثواب کم ہو یعنی روزہ دار کا ثواب کچھ کم نہ ہو گا بلکہ حق تعالی اپنے فضل و کرم سے اپنی طرف سے روزہ افطار کرانے والے کو اس روزہ دار کی برابر ثواب مرحمت فرمائیں گے اگرچہ کسی معمولی ہی کھانے سے روزہ افطار کرا دے گو وہ پانی ہی ہو۔
حدیث میں ہے بے شک اللہ تعالی نے ثواب مقرر کیا ہے بنی دم کی نیکیوں کا دس گنے سے سات سو گنے تک۔ فرماتا ہے اللہ تعالی مگر روزہ یعنی روزہ میں سات سو کی حد نہیں ہے اور روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا اس سے روزہ کے ثواب کی عظمت کا اندازہ کرنا چاہیے کہ جس کا حساب ہی نہیں معلوم کہ وہ ثواب کس قدر ہے اور خود حق تعالی اس کو عطا فرمائیں گے اور اس کا بندوبست ملائکہ کے ذریعہ سے نہ ہو گا۔ سبحان اللہ کیا قدر دانی ہے حق تعالی کی تھوڑی سی محنت پر کس قدر عوض مرحمت فرماتے ہیں مگر یہ ضرور ہے کہ روزے کی یہ تمام فضیلتیں جب ہی اپنا اثر دکھلائیں گی جبکہ روزہ کا حق ادا کرے اور اس میں جھوٹ غیبت اور تمام گناہوں سے بچے۔ بعضے لوگ بالکل اور بعضے صبح کی نماز رمضان میں بے پروائی سے قضا کر دیتے ہیں ان کو اس قدر برکت اور ایسا ثواب میسر نہ ہو گا۔ اور اس حدیث سے یہ شبہ نہ ہو کہ روزہ نماز سے بھی افضل ہے اس لیے کہ نماز تمام عبادات میں افضل ہے۔ مراد اس مضمون سے یہ ہے کہ روزہ کا بہت بڑا ثواب ہے اور بس۔ یہ غرض نہیں ہے کہ تمام عبادتوں سے روزہ افضل ہے اور بے شک روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی جب ہوتی ہے جبکہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی قیامت کو ہو گی۔ خدا تعالی سے ملنے کے وقت جیسا کہ بعض احادیث میں تصریح بھی آئی ہے۔ حدیث میں ہے جبکہ رمضان مبارک کی پہلی رات ہوتی ہے کھول دئیے جاتے ہیں دروازے آسمان کے اور ان دروازوں میں سے کوئی دروازہ رمضان کی آخر رات تک بھی بند نہیں کیا جاتا۔ اور ایسا کوئی مسلمان نہیں ہے کہ نماز پڑھے کسی رات میں رمضان کی راتوں میں سے مگر یہ بات ہے کہ لکھے گا اللہ تعالی اس کے لیے ڈھائی ہزار نیکیاں عوض ہر رکعت کے یعنی ایک رکعت کے عوض ڈھائی ہزار نیکیوں کا ثواب لکھا جاتا ہے اور بنا دے گا حق تعالی اس کے لیے ایک مکان جنت میں سرخ یاقوت سے جس کے ساٹھ دروازے ہوں گے اور ہر دروازے کے لیے ایک سونے کا محل ہو گا جو راستہ ہو گا سرخ یاقوت سے پھر جب روزہ دار روزہ رکھتا ہے رمضان کے پہلے دن کا تو اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں جو رمضان گذشتہ کی اس تاریخ تک کے ہیں۔ پچھلے رمضان کی پہلی تاریخ تک یعنی گناہ صغیرہ اس سال کے جو گزر گیا معاف کر دیئے جاتے ہیں اور مغفرت طلب کرتے ہیں اس کے لیے روز مرہ ستر ہزار فرشتے صبح کی نماز سے آیت چھپنے تک اور ملے گا اس کو بدلے میں ہر رکعت کے جس کو پڑھتا ہے رمضان کے مہینہ میں رات میں یا دن میں ایک درخت جنت میں ایسا جس کے سایہ میں سوار پانچ سو برس چل سکتا ہے۔ کس قدر بڑی فضیلت ہے روزے کی مسلمانو کبھی قضا نہ ہونے دو بلکہ ہمت ہو تو نفل روزوں سے بھی مشرف ہو لیا کرو اور اللہ تعالی سے پورے طور پر محبت کرو جس نے اس قدر رحمت سے کام لیا کہ معمولی محنت میں اس قدر ثواب مرحمت فرمایا۔ کم سے کم اپنے مطلب ہی کے لیے کہ جنت میں بڑی بڑی نعمتیں ملیں خدا کو اپنا محبوب بنا لو۔ حدیث میں ہے کہ بے شک جنت سجائی جاتی ہے ابتدائے سال سے آخر سال تک رمضان کے مہینے کے لیے اور بے شک حوریں بڑی بڑی آنکھوں والی بناؤ سنگار کرتی ہیں ابتدائے سال سے آخر سال تک رمضان کے روزہ داروں کے لیے۔ پس جبکہ رمضان آتا ہے جنت کہتی ہے اے اللہ میرے اندر داخل کر دے اس مہینہ میں اپنے بندوں کو یعنی حکم فرما دیجئے کہ قیامت کو میرے اندر داخل ہوں اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں کہتی ہیں اے اللہ مقرر فرما دے ہمارے لیے اس مہینہ میں خاوند اپنے بندوں میں سے۔
سو جس شخص نے نہ لگائی اس مہینہ میں کسی مسلمان کو تہمت اور نہ پی اس مہینہ میں کوئی نشہ لانے والی چیز۔ مٹا دے گا اللہ تعالی اس کے گناہ۔ اور جس شخص نے تہمت لگائی اس ماہ میں کسی مسلمان کو یا پی اس مہینہ میں کوئی نشہ والی چیز مٹا دے گا حق تعالی اس کے سال بھر کے نیک اعمال یعنی بہت گناہ ہو گا۔ کیونکہ بزرگ زمانہ میں جس طرح نیکیوں کا ثواب زیادہ ملتا ہے اسی طرح گناہوں کا عذاب بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ان لفظوں میں کس قدر دھمکی ہے غور تو کرو۔ سو ڈرو رمضان کے مہینے سے اس لیے کہ تحقیق وہ مہینہ اللہ کا ہے جس میں بندوں کو حکم ہوتا ہے کہ اللہ کی عادت اختیار کریں کھانا پینا چھوڑ دیں جیسا کہ اللہ تعالی ہمیشہ کھانے پینے سے پاک رہتا ہے اسی واسطے یہ مہینہ خاص کیا گیا حق تعالی کے ساتھ۔
ورنہ سب مہینے اللہ تعالی ہی کے ہیں تمہارے لیے گیارہ مہینے خدائے تعالی نے مقرر کر دیئے ہیں جن میں تم کھانا کھاتے ہو اور پانی پیتے ہو اور لذت حاصل کرتے ہو اور اپنی ذات کے لیے ایک مہینہ مقرر کیا ہے جس میں کھانے پینے وغیرہ سے تم کو روکا گیا ہے پس ڈرو رمضان کے مہینے سے اس لیے کہ بے شک وہ مہینہ اللہ تبارک و تعالی کا ہے تو اچھی طرح اس میں اطاعت حق بجا لاؤ اور گناہ نہ کرو اگرچہ اطاعت ہمیشہ ضرور ہے لیکن خاص جگہ جیسے مکہ معظمہ و مدینہ منورہ اور خاص ایام مثلاً رمضان مبارک وغیرہ میں نیکیوں کے کرنے اور گناہوں سے بچنے کا خاص اہتمام کرنا چاہیے کہ بزرگ جگہ اور بزرگ دنوں میں نیکیوں کا ثواب زیادہ اور اسی طرح گناہوں کا عذاب بھی زیادہ ہوتا ہے۔حدیث۔میں ہے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے کھانا قریب کیا جائے اس حال میں کہ وہ روزہ دار ہو یعنی روزہ افطار کرنے کے لیے کوئی چیز اس کے پاس رکھی جائے تو چاہیے کہ کہے یعنی افطار سے پہلے یہ دعا پڑھے بسم اللہ والحمدللہ اللہم لک صمت وعلی رزک افطرت وعلیک توکلت سبحانک وبحمدک تقبل منی انک انت السمیع العلیم۔ حدیث میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو مناسب ہے کہ چھوہارے سے افطار کرے اس لیے کہ وہ برکت ہے۔ پھر اگر نہ پائے چھوہارہ تو مناسب ہے کہ افطار کرے پانی سے اس لیے کہ تحقیق وہ پاک کرنے والی چیز ہے۔ بعض احادیث میں پانی ملے ہوئے دودھ سے افطار کرنے کا بھی حکم وارد ہوا ہے۔۔
حدیث میں ہے کہ جس نے روزے رکھے چالیس دن اس حال میں کہ وہ نہیں طلب کرتا ہے اس روزہ رکھنے سے مگر خدا کی رضا مندی یعنی فقط رضائے الٰہی مطلوب ہو کوئی اور غرض ریا وغیرہ مطلوب نہ ہو تو نہ مانگے گا وہ اللہ سے کچھ مگر یہ بات ہے کہ دے گا اللہ اس کو وہ چیز یعنی چالیس دن محض حق تعالی کے راضی کرنے کے لیے روزے رکھنے سے دعاء قبول ہونے لگتی ہے اور ایسا شخص حق تعالی کا ایسا مقبول ہو جاتا ہے کہ اس کی ہر دعا جو اللہ کے نزدیک اس کے لیے بہتر ہو گی ضرور ہو گی۔ حضرات صوفیہ رضی اللہ عنہم نے چلہ نشینی تجویز فرمائی ہے یعنی چالیس روز تک تمام تعلقات دنیا کو چھوڑ کر کسی مسجد میں عبادت کرنا اور روزے سے رہنا اس سے بہت بڑا نفع ہوتا ہے دن کا۔ اور نیکیوں کی عمدہ قوت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کی برکت سے اللہ پاک کی طرف سے خاص خاص علوم عطا ہوتے ہیں اور فہم عمدہ ہو جاتا ہے رواہ الدیلمی عن واثلۃ ولفظہ من صام اربعین صیاما مایریدبہ الاوجہ اللہ تعالی لم یسال اللہ تعالی شیئا الا اعطاہ۔ حدیث میں ہے کہ جس نے روزہ رکھا ہر محترم مہینہ میں جمعرات اور جمعہ اور سینچر کو لکھے گا اللہ تعالی اس کے لیے سات سو برس کی عبادت یعنی سات سو برس کی عبادت کا ثواب اس کے لیے لکھا جاتا ہے اور محترم مہینے یعنی عزت کے مہینے چار ہیں۔ رجب ذیقعدہ عشرہ ذی الحجہ یعنی بقر عید کے مہینے کے اول کے دس دن اور محترم مگر دسویں گیارہویں بارہویں تیرہویں ذی الحجہ کو روزہ رکھنا منع ہے۔ روا ابن شاہین فی الترغیب وابن عساکر عن انس بسند ضعیف ولفظہ من صام فی کل شہر حرام الخمیس والجمعۃ والسبت کتب اللہ تعالی لہ عبادۃ سبع مائۃ سنۃ۔
حدیث میں ہے کہ جس نے روزہ رکھا تین دن کسی محترم مہینے میں جمعرات اور جمعہ اور سینچر کے دن لکھے گا حق تعالی اس کے لیے دو سال کی عبادت یعنی اللہ تعالی اس کو دو سال کی عبادت کا ثواب ان تین روزوں کے عوض قیامت کے دن مرحمت فرمائیں گے اور اس وقت یہ ثواب نامہ اعمال میں لکھ لیا جائے گا۔ رواہ الطبرانی فی الاوسط عن ابن عباس لفظ من صام ثلثۃ ایام من شہر حرام الخمیس والجمعۃ والسبت کتب اللہ تعالی لہ عبادۃ سنتین انتہی۔
نوٹ رسالہ فضائل رمضان مصنفہ حضرت مولانا محمد زکریا صاحب شیخ الحدیث سہارنپور میں پوری تفصیلات ملاحظہ فرمائیں