ضمیمہ ثانیہ اصلی بہشتی زیور حصہ سوم مسمی بہ تصحیح الاغلاط و تنقیح الاغلاط

اصل۔ اگر دو رمضان کے کچھ کچھ روزے الخ تحقیق۔ وجوب تعیین کا حکم مختلف فیہ ہے

اور بہشتی زیور میں احتیاط کو مد نظر رکھ کر قول وجوب کو اختیار کیا ہے۔ پس اگر کسی نے بلا تعیین بہت سے روزے رکھ لیے اور اعادہ دشوار ہے تو دفعا للحرج قول عدم وجوب کو اختیار کیا جائے گا۔ اس مسئلہ کے متعلق سوال و جواب امداد الفتاوی مبوب کی جلد دوم کے ص 82 میں درج ہے۔

اصل ص۔ اگر فلانا کام کروں الخ صفحہ خدا کے سوا الخ تحقیق۔ درمختار میں ہے۔ الاصل ان الایمان مبنیۃ عند الشافعی علی الحقیقۃ اللغویۃ وعند مالک علی الاستعمال الفر وعند احمد علی النیۃ وعندنا علی العرف مالم ینوما یحتملہ اللفظ فلاحنث فی لایہدم بیتاببیت العنکبوت الابالنیۃ فتح الایمان مبنیۃ علی الالفاظ لا علی الاغراض فلو اغتاظ علی غیرہ وحلف ان لا یشتری لا شئا بفلس فاشتری لہ بدر ہم او اکثر شیئا لم یحنث اھ شامی نے لکھا ہے ان قاعدۃ بناء الایمان علی العرف معناہا ان المعتبر ہو المعنی المقصود فی العرف من اللفظ المسمی وانکان فی اللغۃ اوالشرع اعم من المعنی المتعارف ولما کانت ہذا القاعدۃ موہمۃ اعتبار الغرض العرفی وان کان زائد اعلی اللفظ المسمی وخارجا عن مدلولہ کما فی المسئلۃ الاخرۃ وکما فی المسائل الاربعۃ التی ذکرہا المصر دفعوا ذلک الوہو بذکر القاعدۃ الثانیۃ وخارجا عن مدلولہ کما فی المسئلۃ الاخرۃ وکما فی المسائل الاربعۃ التی ذکرہا المص دفعوا ذلک الوہم بذکر القاعدۃ الثانیۃ وہی بناء الایمان علی الالفاظ لا علی الاغراض فقولہم لا علی الاغراض دفعوابہ توہم اعتبار الغرض الزائد علی اللفظا لمسمی وارادو بالالفاظ الالفاظ العرفیۃ لقرآنیۃ القاعدۃ الاولی ولولاہا لتوہم اعتبار الا لفاظ ولو لغویۃ اوشرعیۃ فلاتنافی بین القاعد تین کما یتوہم کثیر من الناس حتی الرش نبلالی فحمل الاولی علی الدیانۃ والثانیۃ علی القضاء ولا تناقض بین الفروع التی ذکروہا ثم اعلم ان ہذا کلہ حیث لم یجعل اللفظ فی العرف مجازا عن معنی اخرکما فی لااضع قآدمی فی دار فلان فانہ صار مجازا عن الدخول مطلقا کماسیاتی ففی ہذا لایعتبر اللفظ صلاحتی لووضع قد مہ ولم یدخل لا یحنث لان اللفظ ہجر وصار المرادبہ معنی اخرالخ

اس تفصیل سے چند باتیں معلوم ہوئیں الفاظ کے مقابلہ میں نیت کا کچھ اعتبار نہیں یعنی اگر کوئی ایسی نیت کرے جس کے الفاظ اصلا مساعدت نہ کرتے ہوں تو اس کا کچھ اعتبار نہ ہو گا اگر کسی نے ایسے معنی مراد لیے جو الفاظ سے زائد ہوں یعنی الفاظ جزئی ہوں اور معنی مراد کلی یا معنی مراد کل ہوں اور الفاظ جزو تویہ مراد لینا بیکار ہو گا۔ اور اگر ایسے معنی مراد لیے جو الفاظ کافرو یا جو ہیں تو وہ معنی معتبر ہو سکتے ہیں مجاز عرفی اگر ایسا ہو کہ حقیقت بالکل چھوٹ گئی ہو تو اس مجاز عرفی کا اعتبار ہو گا۔ اور حقیقت لغویہ کا اعتبار نہ ہو گا۔

لیکن میرے نزدیک یہ تینوں باتیں صحیح نہیں۔ امر اول اس لیے کہ ایمان کا تعلق قصد و ارادہ سے بھی ہے نہ کہ طلاق و عتاق وغیرہ کی طرح صرف الفاظ سے کما یدل علیہ قولہ تعالی ولکن یواکذ کم بما کسبت قلوبکم وقولہ لکن یواخذ کم بما عقدتم الایمان۔ پس اگر کسی نے کسی خاص نیت سے کوئی قسم کھائی اور ایسے الفاظ بولے جو اس نیت کے مطابق نہیں ہیں تو دیانتہ اس قسم کا اعتبار ہونا چاہیے گو قضاء نہ ہو۔ کیونکہ اس وقت یہ اس کی اصطلاح خاص ہو گی اور اصطلاح خاص کے مقرر کرنے کا اسے اختیار ہے۔ امر دوم اس لیے کہ اگر مجاز عرفی حقیقت لغویہ کے مبائن ہو تو اس وقت اس کا اعتبار تو ہو سکتا ہے لیکن اگر معنی مجازی عرفی معنی لغوی سے عام ہوں تو ان کا اعتبار نہیں ہو سکتا۔ دونوں صورتوں میں وجہ فرق معلوم نہیں ہوتی۔ کیونکہ دونوں صورتوں میں معنی حقیقی بالکل چھوٹ گئے ہیں مگر ایک صورت میں معنی حقیقی مجازی کافرد یا اس کا جزو ہیں۔ اور دوسری صورت میں اس کے مبائن۔ سو یہ فرق کوئی موثر فرق نہیں ہے۔ اسی سے امر سوم کا مخدوش ہونا بھی ظاہر ہو گیا پس جبکہ وہ محمل مخدوش ہو گئے جو ان قواعد کے لیے علامہ شامی وغیرہ نے تجویز کیے تھے تو اب کہا جائے گا کہ الایمان مبنیۃ علی العرف اور الایمان مبنیۃ علی الالفاظ لا علے الاغراض دونوں متعلق بہ قضا ہیں اور الایمان مبنیۃ علی الالفاظ لا علی الاغراض کے معنی یہ ہیں کہ امان قضاء الفاظ عرفیہ پر مبنی ہیں نہ ان اغراض پر جو کہ خلاف عرف ہوں۔ پس ان دونوں قاعدوں میں کوئی تناقض نہیں ہرلا یہ امر کہ بعض جزئیات ان محامل کی تائید نہیں کرتے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض اس وقت ہو سکتا ہے جبکہ دو امر ثابت ہو جائیں۔ اول یہ کہ وہ جزئیات انھیں فقہا نے نکالی ہیں جنہوں نے یہ قواعد بنائے ہیں یا جن فقہائ نے یہ قواعد قائم کیے ہیں ان کو ان سے اتفاق ہے۔

دوم یہ کہ اس وقت سے اب تک عرف نہیں بدلا اور جو اس وقت عرف تھا جس وقت وہ نکالی گئی ہیں وہی عرف اب بھی ہے لیکن ان باتوں کا ثابت ہونا مشکل ہے اس لیے مخالفت بعض جزئیات سے ہمارے محامل کی تردید نہیں کی جا سکتی خصوصاً اس حالت میں جبکہ وہ موید بالدلائل ہوں۔ اور جو محامل ان کے بیان کیے گے ہیں محض بے دلیل ہوں۔ ایسی حالت میں مسائل بہشتی زیور متعلق بایمان کو عرف زمانہ حال کا لحاظ رکھ کے اصول مذکورہ سے استخراج کی ضرورت ہے اس کی ضرورت اس سے ظاہر ہو سکتی ہے کہ فقہاء نے کہا ہے کہ اگر کسی نے قسم کھائی ان فعلہ فعلیہ غصب اللہ اوسخطہ او لعنۃ اوہوزان اوسارق اوشارب خمر اواکل ربالایکون قسما لعدم التعارف فلوتعورف ہل یکون یمینا ظاہر کلامہم نعم و ظاہر کلام الکمال لا وتمامہ فی النہر۔ درمختار اس پر شامی نے لکھا ہے قولہ ظاہر کلامہم نعم فیہ نظر لانہم لم یقتصر وا علی التعلیل بالعتارف بل عللوابما یقتضے عدم کونہ یمینا مطلقا وہوکون علیہ غضبہ دعائ علی نفسہ لان الدعائ لا یستلزم الاجابۃ فلایقتضے الامتناع عن الفعل فلا یکون یمینا وکون ہوزان یحتمل النسخ ای الاباحۃ فلایکون حرمتہ حرمۃ اسم اللہ فلا یلحق بہ ثم عللوا بعدم التعارف لانہ عند عدم التعارف لایکون یمینا وان کان ممایمکن الحلف بہ فی غیر الاسم فکیف اذا کان مما لایکمن اھ بزیادۃ العبارات المقوسۃ۔