مسئلہ1۔ جب کسی شوہر والی عورت کے اولاد ہو گی تو وہ اسی کے شوہر کی کہلائے گی کسی شبہ پر یہ کہنا کہ یہ لڑکا اس کے میاں کا نہیں ہے بلکہ فلانے کا ہے درست نہیں اور اس لڑکے کو حرامی کہنا بھی درست نہیں۔ اگر اسلام کی حکومت ہو تو ایسا کہنے والے کو کوڑے مارے جائیں۔

مسئلہ2۔ حمل کی مدت کم سے کم چھ مہینے ہیں اور زیادہ سے زیادہ دو برس یعنی کم سے کم چھ مہینے بچہ پیٹ میں رہتا ہے پھر پیدا ہوتا ہے۔ چھ مہینے سے پہلے نہیں پیدا ہوتا۔ اور زیادہ سے زیادہ دو برس پیٹ میں رہ سکتا ہے اس سے زیادہ پیٹ میں نہیں رہ سکتا۔

مسئلہ3۔ شریعت کا قاعدہ ہے کہ جب تک ہو سکے تب تک بچہ کو حرامی نہ کہیں گے جب بالکل مجبوری ہو جائے تب حرامی ہونے کا حکم لگائیں گے اور عورت کو گنہگار ٹھیرائیں گے۔

مسئلہ4۔ کسی نے اپنی بی بی کو طلاق رجعی دے دی۔ پھر دو برس سے کم میں اس کے کوئی بچہ پیدا ہوا تو لڑکا اسی شوہر کا ہے اس کو حرامی کہنا درست نہیں۔ شریعت سے اس کا نسب ٹھیک ہے۔ اگر دو برس سے ایک دن بھی کم ہو تب بھی یہی حکم ہے ایسا سمجھیں گے کہ طلاق سے پہلے کا پیٹ ہے اور دو برس تک بچہ پیٹ میں رہا اور اب بچہ ہونے کے بعد اس کی عدت ختم ہوئی اور نکاح سے الگ ہوئی۔ ہاں اگر وہ عورت اس جننے سے پہلے خود ہی اقرار کر چکی ہو کہ میری عدت ختم ہو گئی تو مجبوری ہے اب یہ بچہ حرامی ہے بلکہ ایسی عورت کے اگر دو برس کے بعد بچہ ہوا اور ابھی تک عورت نے اپنی عدت ختم ہونے کا اقرار نہیں کیا ہے تب بھی وہ بچہ اسی شوہر ہی کا ہے چاہے جس برس میں ہوا ہو۔ اور ایسا سمجھیں گے کہ طلاق دے دینے کے بعد عدت میں صحبت کی تھی اور طلاق سے باز آ گیا تھا اس لیے وہ عورت اب بچہ پیدا ہونے کے بعد اسی کی بی بی ہے اور نکاح دونوں کا نہیں ٹوٹا۔ اگر مرد کا بچہ نہ ہو تو وہ کہہ دے کہ میرا نہیں ہے اور جب انکار کرے گا تو لعان کا حکم ہو گا۔

مسئلہ5۔ اگر طلاق بائن دے دی تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر دو برس کے اندر اندر پیدا ہوا تب تو اسی مرد کا ہو گا اور اگر دو برس کے بعد ہو تو وہ حرامی ہے۔ ہاں اگر دو برس کے بعد پیدا ہونے پر بھی مرد دعوی کرے کہ یہ بچہ میرا ہے تو حرامی نہ ہو گا اور ایسا سمجھیں گے کہ عدت کے اندر دھوکے سے صحبت کر لی ہو گی اس سے پیٹ رہ گیا۔

مسئلہ6۔ اگر نابالغ لڑکی کو طلاق مل گئی جو ابھی جوان تو نہیں ہوئی لیکن جوانی کے قریب قریب ہو گئی ہے پھر طلاق کے بعد پورے نو مہینے میں بچہ پیدا ہوا تو وہ حرامی ہے اور اگر نو مہینے سے کم میں پیدا ہوا تو شوہر کا ہے۔ البتہ وہ لڑکی عدت کے اندر ہی یعنی تین مہینے سے پہلے اقرار کر لے کہ مجھ کو پیٹ ہے تو وہ بچہ حرامی نہ ہو گا۔ دو برس کے اندر اندر پیدا ہونے سے باپ کا کہلائے گا۔

مسئلہ7۔ کسی کا شوہر مر گیا تو مرنے کے وقت اسے اگر دو برس کے اندر بچہ پیدا ہوا تو وہ حرامی نہیں بلکہ شوہر کا بچہ ہے ہاں اگر وہ عورت اپنی عدت ختم ہو جانے کا اقرار کر چکی ہو تو مجبوری ہے۔ اب حرامی کہا جائے گا۔ اور اگر دو برس کے بعد پیدا ہوا تب بھی حرامی ہے۔

تنبیہ ان مسئلوں سے معلوم ہوا کہ جاہل لوگوں کی جو عادت ہے کہ کسی کے مرے پیچھے نو مہینہ سے ایک دو مہینہ بھی زیادہ گزر کر بچہ پیدا ہو تو اس عورت کو بدکار سمجھتے ہیں یہ بڑا گناہ ہے۔

مسئلہ8۔ نکاح کے بعد چھ مہینے سے کم میں بچہ پیدا ہوا تو وہ حرامی ہے اور اگر پورے چھ مہینے یا اس سے زیادہ مدت میں ہوا ہو تو وہ شوہر کا ہے اس پر بھی شبہ کرنا گناہ ہے۔ البتہ اگر شوہر انکار کرے اور کہے کہ میرا نہیں ہے تو لعان کا حکم ہو گا۔

مسئلہ9۔ نکاح تو ہو گیا لیکن ابھی (رواج کے موافق) رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ بچہ پیدا ہو گیا (اور شوہر انکار نہیں کرتا کہ میرا بچہ نہیں ہے) تو وہ بچہ شوہر ہی سے (کہا جائے گا) حرامی نہیں ( کہا جائے گا) اور( دوسروں کو) اس کا حرامی کہنا درست نہیں۔ اگر شوہر کا نہ ہو تو وہ انکار کرے اور انکار کرنے پر لعان کاحکم ہو گا۔

مسئلہ10۔ میاں پردیس میں ہے اور مدت ہو گئی برسیں گزر گئیں کہ گھر نہیں آ یا (اور یہاں لڑکا پیدا ہو گیا اور شوہر اس کو اپنا ہی بتاتا ہے) تب بھی وہ (از روئے قانون شرعی) حرامی نہیں اسی شوہر کا ہے۔ البتہ اگر شوہر پا کر انکار کرے گا تو لعان کا حکم ہو گا۔