نکاح کی فضیلت اور اس کے حقوق کا بیان

حدیث میں ہے کہ دنیا صرف ایک استعمال کی چیز ہے اور دنیا کی استعمالی چیزوں میں سے کوئی چیز نیک عورت سے افضل نہیں یعنی دنیا میں اگر نیک عورت میسر جائے تو بہت بڑی غنیمت اور حق تعالی کی رحمت ہے کہ خاوند کی راحت اور اس کی فلاح دارین کا سبب ہے دنیا میں بھی ایسی عورت سے راحت میسر ہوتی ہے اور آخرت کے کاموں میں بھی مدد ملتی ہے حدیث میں ہے کہ فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح میرا طریقہ اور میری سنت موکدہ ہے سو جو نہ عمل کرے میری سنت موکدہ پر تو وہ مجھ سے نہیں ہے یعنی مجھ سے اور اس سے کوئی علاقہ نہیں۔ یہ زجر اور ڈانٹ ہے ایسے شخص کو جو سنت پر عمل نہ کرے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی کا بیان ہے ایسے شخص پر سو اس سے بہت کچھ پرہیز لازم ہے اور مسلمان کو کیسے چین پڑسکتا ہے کہ ذرا دیر بھی جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ناراض رہیں اللہ اس دن سے پہلے موت دے دیں جس روز مسلمان کو اللہ و رسول کی ناراضی گوارا ہو اور حدیث میں ہے نکاح کرو اس لیے کہ میں فخر کروں گا قیامت میں تمہارے ذریعہ سے اور امتوں پر یعنی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بہت پسند ہے کہ آپ کی امت کثرت سے ہو اور دوسری امتوں سے زیادہ ہو تاکہ ان کی کثرت اعمال کی وجہ سے آپ کو بھی ثواب اور قرب الٰہی زیادہ میسر ہو۔ اس لیے کہ جو کوئی آپ کی امت میں جو کچھ بھی عمل کرتا ہے وہ آپ ہی کی تعلیم کے سبب کرتا ہے۔ پس جس قدر زیادہ عمل کرنے والے ہوں گے اسی قدر آپ کو ان کی تعلیم کرنے کا ثواب زیادہ ہو گا۔ یہاں سے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ جہاں تک بھی اور جس طرح بھی ہو سکے قرب الٰہی کے وسیلے اور اعمال کثرت سے اختیار کرے اور اس میں کوتاہی نہ کرے۔

اور حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن کل صفیں ایک سو بیس ہوں گی جن میں چالیس صفیں اور امتوں کے لوگوں کی ہوں گی اور اسی صفیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی ہوں گی۔ سبحان اللہ کیا دلداری منظور ہے حق تعالی کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور جو شخص صاحب وسعت ہو یعنی روزہ رکھے اس سے شہوت میں کمی ہو جائے گی پس بے شک روزہ اس کے لیے مثل رگ شہوت مل دینے کے ہے اگر عورت کی خواہش مرد کو بہت زیادہ نہ ہو بلکہ معتدل اور درمیانی درہ کی ہو اور عورت کے ضروری خرچ اٹھانے پر قادر ہو تو ایسے شخص کے لیے نکاح سنت موکدہ ہے۔ اور جس کو اعلی درجہ کا تقاضا ہو یعنی بہت خواہش ہو تو ایسے شخص کے لیے نکاح واجب اور ضروری ہے اس لیے کہ اندیشہ ہے خوانخواستہ زنا میں مبتلاہو گیا تو حرام کاری کا گناہ ہو گا۔ اور اگر باوجود سخت تقاضائے شہوت کے اس قدر طاقت نہیں کہ عورت کے ضروری حقوق ادا کر سکے گا تو یہ شخص کثرت سے روزے رکھے پھر جب اتنی گنجائش ہو جائے کہ عورت کے حقوق ادا کرنے پر قادر ہو تو نکاح کر لے حدیث میں ہے کہ اولاد جنت کا پھول ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جنت کے پھولوں سے جیسی مسرت اور فرحت حاصل ہو گی ویسی ہی راحت اور مسرت اولاد کو دیکھ کر حاصل ہتی ہے اور اولاد نکاح کے ذریعہ سے میسر تی ہے حدیث میں ہے کہ تحقیق آدمی کا درجہ جنت میں بلند کیا جاتا ہے سو وہ کہتا ہے کہاں سے ہے میرے لیے یہ یعنی وہ کہتا ہے کہ یہ رتبہ مجھے کیسا ملا میں نے تو ایسا عمل کوئی نہیں کیا جس کا یہ ثواب ہو پس کہا جاتا ہے اس آدمی سے یہ بسبب مغفرت طلب کرنے تیری اولاد کے ہے تیرے لیے یعنی تیری اولاد نے ہم سے تیرے لیے استغفار کی اس کی بدولت یہ درجہ تجھ کو عنایت ہوا حدیث 5۔

میں ہے تحقیق وہ بچہ جو حمل سے گر جاتا ہے یعنی بغیر دن پورے ہوئے پیدا ہو جاتا ہے اپنے پروردگار سے جھگڑے گا جبکہ اس کے ماں باپ جہنم میں داخل ہوں گے یعنی حق تعالی سے مبالغہ کے ساتھ سفارش کرے گا کہ میرے والدین کو دوزخ سے نکال دو اور حق تعالی اپنی عنایت کی وجہ سے اس کے اس جھگڑنے کو قبول فرمائیں گے اور اس کی ناز برداری کریں گے پس کہا جائے گا اے سقط جھگڑا کرنے والے اپنے رب سے داخل کر دے اپنے والدین کو جنت میں۔ پس کھینچ لے گا بچہ ان دونوں کو اپنے نار سے یہاں تک کہ داخل کرے گا ان دونوں کو جنت میں معلوم ہوا کہ آخرت میں ایسی اولاد بھی کام آئے گی جو نکاح کا نتیجہ ہے

حدیث  میں ہے کہ بے شک جس وقت دیکھتا ہے مرد اپنی عورت کی طرف اور عورت دیکھتی ہے مرد کی طرف تو دیکھتا ہے اللہ تعالی دونوں کی طرف رحمت کی نظر سے۔ رواہ میسرۃ بن علی فے مشیختہ والرافعی فی تاریخہ عن ابن سعید مرفوعہ بلفظ ان الرجل اذا نظرالی امراتہ ونظرت الیہ نظر اللہ تعالی الیہما نظرۃ رحمۃ الخ حدیث  میں ہے کہ حق تعالی پر حق ہے یعنی حق تعالی نے اپنی رحمت سے اپنے ذمہ یہ بات مقرر فرمائی ہے مدد کرنی اس شخص کی جو نکاح کرے پاکدامنی حاصل کرنے کو اس چیز سے جسے اللہ نے حرام کیا ہے۔ یعنی زنا سے محفوظ رہنے کے لیے جو شادی کرے اور نیت اطاعت حق کی ہو تو خرچ وغیرہ میں اللہ تعالی اس کی مدد فرمائیں گے حدیث  میں ہے کہ عیالدار شخص کی دو رکعتیں نماز کی بہتر ہیں مجرد شخص کی بیاسی رکعتوں سے اور دوسری حدیث میں بجائے بیاسی کے ستر کا عدد یا ہے سو مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ستر اس شخص کے حق میں ہے جو ضروری حق اہل و عیال کا ادا کرے اور بیاسی اس کے حق میں ہیں جو ضروری حقوق سے زیادہ ان کی خدمت کرے جان اور مال اور اچھی عادت سے والحدیث رواۃ تمامر فی فوائدہ والضیائ عن انس مرفوعابلفظ رکعتان من المتاہل خیر من اثنین و تمانین رکعۃ من العرب وسندہ صحیح حدیث میں ہے بے شک بہت بڑا گناہ خدا کے نزدیک ضائع کرنا اور ان کی ضروری خدمت میں کمی کرنا ہے مرد کا ان لوگوں کو جن کا خرچ اس کے ذمہ ہے۔ رواہ الطبرانی عن ابن عمرو مرفوعا بلفظ ان اکبر الاثم عنداللہ ان یضیح الرجل من یقوت کذافی کنزالعمال حدیث  میں ہے کہ میں نے نہیں چھوڑا اپنے بعد کوئی فتنہ جو زیادہ ضرر دینے والا ہو مردوں کو عورتوں کے فتنہ سے یعنی مردوں کے حق میں عورت کے فتنہ سے بڑھ کر کوئی فتنہ ضرر دینے والا نہیں کہ ان کی محبت میں بے حس ہو جاتے ہیں اور خدا اور رسول کے حکم کی پرواہ نہیں کرتے۔

لہذا چاہیے کہ ایسی محبت عورتوں سے کرے کہ جس میں شریعت کے خلاف کام کرنے پڑیں مثلاً وہ مرد کی حیثیت سے زیادہ کھانے پہننے کو مانگیں تو ہرگز ان کی خاطر کرنے کو رشوت وغیرہ نہ لے بلکہ مال حلال سے جو اللہ تعالی دے ان کی خدمت کر دے۔ اور عورتوں کو تعلیم و تادیب کرتا رہے اور بیباک و گستاخ نہ کر دے۔ عورتوں کی عقل ناقص ہوتی ہے ان کی اصلاح کا خاص طور پر انتظام لازم ہے۔ حدیث  میں ہے کہ پیغام نکاح کا کوئی تم میں سے نہ دے اپنے بھائی کے پیغام پر یہاں تک کہ وہ بھائی نکاح کر لے یا چھوڑ دے یعنی جب ایک شخص نے کہیں پیغام نکاح کا دیا ہو اور ان لوگوں کی کچھ مرضی بھی پائی جاتی ہو کہ وہ اس شخص سے نکاح کرنے کو کچھ راضی ہیں تو دوسرے شخص کو اس جگہ ہرگز پیغام نہ دینا چاہیے۔ ہاں اگر وہ لوگ خود اس پہلے شخص کو انکار کر دیں یا وہ خود ہی وہاں سے اپنا ارادہ منقطع کر دے یا ان لوگوں کی ابھی بالکل مرضی اس شخص کے ساتھ نکاح کرنے کی نہیں پائی جاتی تو اب دوسرے کو اس لڑکی کا پیغام دینا درست ہے۔ اور یہی حکم خرید و فروخت کے بھاؤ کرنے کا ہے کہ جب ایک شخص کسی سے خریدنے یا فروخت کرنے کا بھاؤ کر را ہے تو دوسرے کو جب تک اس کا معاملہ علیحدہ نہ ہو جائے اس کے بھاؤ پر بھاؤ کرنا نہیں چاہیے جبکہ باہم خریدو فروخت کی کچھ مرضی معلوم ہوتی ہو خوب سمجھ لو اور اس حکم میں کافر بھی داخل ہے۔ یعنی اگر کوئی کافر کسی سے لین دین کا بھاؤ کر را ہے اور دوسرے شخص کے معاملہ کرنے کی اس کے ساتھ کچھ مرضی بھی معلوم ہوتی ہے تو مسلمان کو زیبا نہیں کہ اس کافر کے بھاؤ پر اپنا بھاؤ پیش کرے۔

حدیث میں ہے کہ تحقیق عورت نکاح کی جاتی ہے اپنے دین کی وجہ سے اور اپنے مال کی وجہ سے اور اپنے حسن کی وجہ سے سو تو لازم پکڑ لے صاحب ن کو تیرے ہاتھ خاک میں ملیں یعنی کوئی مرد تو عورت دیندار پسند کرتا ہے اور کوئی مالدار اور کوئی خوبصورت تو جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بد شکل ہے کہ طبیعت کسی طرح اسے قبول نہیں کرتی اور اندیشہ ہے کہ اگر ایسی عورت سے نکاح کیا جائے تو باہم میاں بی بی میں موافقت نہ رہے گی اور عورت کے حق ادا کرنے میں کوتاہی ہو گی تو ایسے وقت ایسی عورت سے نکاح نہ کرے اور تیرے ہاتھ خاک مل جائیں یہ عربی محاورہ ہے اور مختلف موقعوں پر استعمال ہوتا ہے۔ یہاں پر اس سے دیندار عورت کی رغبت دلانا مراد ہے۔ حدیث   میں ہے بیبیوں میں بہتر وہ بی بی ہے جس کا مہر بہت آسان ہو یعنی مرد سہولت سے اس کو ادا کر سکے۔ آجکل زیادتی مہر کا دستور بہت ہو گیا ہے لوگوں کو اس رسم سے بچنا چاہیے۔ حدیث  میں ہے کہ اپنے نطفوں کے لیے عمدہ محل وجہ پسند کرو اس لیے کہ عورتیں بچے جنتی ہیں اپنے بھائیوں اور بہنوں کی مانند یعنی نیک بخت اور شریف خاندان کی عورت سے نکاح کرو اس لیے کہ اولاد میں ننھیال کی مشابہت ہوتی ہے اور گو باپ کا بھی اثر ہوتا ہے مگر اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کا اثر زیادہ ہوتا ہے تو اگر ماں ایسے لوگوں میں سے ہو گی جو بد اخلاق ہیں اور دیندار اور شریف نہیں ہیں تو اولاد بھی ان ہی لوگوں کی مثل پیدا ہو گی ورنہ اولاد اچھی اور نیک بخت ہو گی۔ رواہ ابن عدی و ابن عساکر عن عائشۃ مرفوعا بلفظ تخیر والنطفکم فان النساء یلدن اشباہ اخوانہن واخواتہن حدیث میں ہے کہ سب سے بڑا حق لوگوں میں خاوند کا ہے عورت پر اور مرد پر سب سے بڑا حق لوگوں میں اس کی ماں کا ہے یعنی بعد اللہ و رسول کے حقوق کے عورت کے ذمہ خاوند کا بہت بڑا حق ہے حتی کہ اس کے ماں باپ سے بھی خاوند کا زیادہ حق ہے اور مرد کے ذمہ سب سے زیادہ حق بعد اللہ و رسول کے حق کے ماں کا حق ہے اس سے معلوم ہوا کہ مرد کے ذمہ ماں کا حق باپ سے بڑھ کر ہے رواہ الحاکم عن عائشۃ مرفوعا بلفظ اعظم الناس حقا علی المراۃ زوجہا واعظم الناس حقا علی الرجلامہ وسندہ صحیح۔ حدیث 16۔ میں ہے اگر کوئی تم میں ارادہ کرے اپنی بیوی سے ہم بستری کا تو کہے بسم اللہ جنبا الشیطان وجنب الشیطان مارزقتنا تو اگر ان کی تقدیر میں کوئی بچہ مقدر ہو گا اس صحبت سے نہ ضرر دے گا اس کو شیطان کبھی۔ حدیث۔ ایک لانبی حدیث  میں ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف سے فرمایا اولم ولوبشاۃ یعنی ولیمہ کرو اگرچہ ایک ہی بکری ہو۔ مطلب یہ ہے گو تھوڑا ہی سامان ہو مگر دینا چاہیے۔ بہتر یہ ہے کہ عورت سے ہمبستری کرنے کے بعد ولیمہ کیا جائے گو بہت علماء نے صرف نکاح کے بعد بھی جائز فرمایا ہے اور ولیمہ مستحب ہے۔