حدیث میں ہے البغض الحلال الی اللہ الطلاق راہ الحاکم وابوداودو ابن ماجہ عن ابن عمر مرفوعا وسندہ صحیح یعنی زیاہ مبغوض اور زیادہ بری چیز حلال چیزوں میں خدا کے نزدیک طلاق ہے۔ مطلب یہ ہے کہ طلاق حاجت کے وقت جائز رکھی گئی ہے اور حلال ہے مگر بلا حاجت بہت بری بات ہے اس کے لیے کہ نکاح تو باہم الفت و محبت اور زوج وزوجہ کی راحت کے واسطے ہوتا ہے اور طلاق سے یہ سب باتیں جاتی رہتی ہیں اور حق تعالی کی نعمت کی ناشکری ہوتی ہے ایک دوسرے کو کلفت ہوتی ہے باہم عداوت ہوتی ہے نیز اس کی وجہ سے بیوی کے اور اہل قرابت سے بھی عداوت پڑتی ہے۔ جہاں تک ہو سکے ہرگز ایسا قصد نہ کرنا چاہیے۔ میاں بیوی کو معاملات میں باہم ایک دوسرے کی برداست چاہیے اور خوب محبت سے رہنا چاہیے۔ جب کوئی صورت نباہ کی نہ ہو تو مضائقہ نہیں خوب سمجھ لو۔ حدیث میں ہے کہ نکاح کرو اور طلاق نہ دو یعنی بلا وجہ اس لیے کہ بے شک اللہ تعالی نہیں دوست رکھتا ہے بہت مزہ چکھنے والے مردوں اور بہت مزہ چکھنے والی عورتوں کو یعنی اللہ پاک کو یہ بات پسند نہیں کہ طلاق ہو بلا ضرورت اور میاں دوسرا نکاح کرے اور بی بی دوسرا نکاح کرے ہاں اگر کوئی ضرورت ہو تو کوئی مضائقہ نہیں حدیث میں ہے کہ نہ طلاق دی جائیں عورتیں مگر بدچلنی سے۔ اس لیے کہ اللہ تعالی نہیں دوست رکھتا بہت مزہ چکھنے والے مردوں اور بہت مزہ چکھنے والی عورتوں کو اس سے معلوم ہوا کہ اگر اس کی پارسائی اور پاکدامنی کے باب میں کوئی خلل ہو جائے تو اس کی وجہ سے طلاق دے دینا درست ہے۔ اسی طرح اور بھی کوئی سبب ہو تو کچھ حرج نہیں حدیث میں ہے کہ نکاح کرو اور طلاق نہ دو اس لیے کہ طلاق دینے سے عرش ہلتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ شیطان اپنے تخت کو پانی پر رکھتا ہے پھر اپنے لشکروں کو بھیجتا ہے لوگوں کے بہکانے کو پس زیادہ قریب ان لشکروں کے لوگوں میں از روئے رتبہ کے وہ شخص ہوتا ہے جو ان میں سب سے بڑا ہو از روئے فتنہ کے یعنی بڑا محبوب شیطان کو وہ شخص ہوتا ہے جو بہت بڑا فتنہ برپا کرتا ہے اس کے پاس ایک ان میں کا پھر کہتا ہے میں نے یہ کیا اور یہ کیا یعنی یہ فتنہ برپا کیا اور یہ فتنہ برپا کیا سو کہتا ہے شیطان تو نے کچھ نہیں کیا یعنی تو نے کوئی برا کام نہیں کیا اور کہتا ہے ایک ان میں کا پس کہتا ہے نہیں چھوڑا میں نے فلاں شخص کو یہاں تک کہ جدائی کر دی میں نے اس شوہر کے اور اس کی بیوی کے درمیان سو قریب کر لیتا ہے اس شخص کو اپنی ذات سے یعنی اپنے گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں تو نے بہت بڑا کام کیا یعنی شیطان کی بہت بڑی خوشی یہ ہے کہ میاں بی بی میں جدائی کر دی جائے۔ لہذا جہاں تک ہو سکے مسلمان شیطان کو خوش نہ کرے حدیث میں ہے کہ جو عورت خود طلاق طلب کرے بغیر سخت مجبوری کے تو جنت کی خوشبو اس پر حرام ہے۔ یعنی سخت گناہ ہو گا۔ گو بشرط اسلام پر خاتمہ ہونے کے اپنے اعمال کا بدلہ بھگت کر آخر میں جنت میں داخل ہو جائے گی حدیث میں ہے کہ منتزعات اور مختلعات وہ منافعات ہیں (منتزعات وہ عورتیں جو اپنی ذات کو مرد کے قبضہ سے نکالیں شرارت کر کے یعنی ایسی حرکتیں کریں جس سے مرد ناراض ہو کر طلاق دے دے۔ اور مختلعات وہ عورتیں جو خاوندوں سے بلا مجبوری خلع طلب کریں۔ اور منافقات سے مراد یہ ہے کہ یہ خصلت منافقوں کی سی ہے کہ ظاہر کچھ باطن کچھ ظاہر تو نکاح ہمیشہ کے لیے ہوتا ہے اور یہ اس میں جدائی طلب کرتی ہیں اس لیے گنہگار ہوں گی گو کافر نہ ہوں گی)۔