حدیث میں ہے کہ جس وقت چاہے کوئی تم میں کا اپنے پروردگار سے گفتگو کرنا۔ سو چاہیے کہ قرآن پڑھے یعنی قرآن مجید کی تلاوت کرنا گویا حق تعالی سے بات چیت کرنا ہے زیادہ غنی لوگوں میں قرآن کے اٹھانے والے ہیں یعنی وہ لوگ کہ جن کے سینہ میں اللہ تعالی نے اس کو یعنی قرآن کو رکھا ہے مطلب یہ ہے کہ جس نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا اس سے بڑھ کر کوئی غنی نہیں۔ اس پر عمل کرنے کی برکت سے حق تعالی باطنی غنا مرحمت فرماتے ہیں اور ظاہری کشائش بھی میسر ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایات ہے کہ ایک مرد کثرت سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دروازے پر تا تھا دنیاوی حاجتوں کے لیے سو کہا حضرت عمر نے اس مرد سے کہ جا اور پڑھ خد اکی کتاب یعنی قرآن مجید سو چلا گیا وہ مرد پس نہ پایا اس کو حضرت عمر نے ۔ پھر آپ اس سے ملے اور آپ اس کے شاکی ہوئے یعنی اس وجہ سے کچھ شکایت فرمائی کہ تمہاری ہم کو تلاش تھی بلا اطلاع کہاں چلے گئے۔ جب کوئی کثرت سے آمد و رفت رکھتا ہو پھر دفعۃ نا چھوڑ دے تو انسان کو فکری ہو ہی جاتی ہے کہ نہ معلوم کہاں چلا گیا کس حال میں ہے سو اس نے جواب میں عرض کیا کہ میں نے اللہ کی کتاب میں وہ چیز پا لی جس نے مجھے عمر کے دروازے سے غنی اور بے پرواہکر دیا۔ یعنی قرآن مجید میں ایسی آیت مل گئی جس کی برکت سے میری نظر مخلوق سے ہٹ گئی اور خدا تعالی پر بھروسہ ہو گیا۔ تمہارے پاس دنیا کی حاجت کے لیے تا تھا اب کر کیا کروں۔ غالباً مراد اس سے اس قسم کے مضامین ہوں گے جو اس آیت میں مذکور ہیں وفی السماء رزقکم وما توعدون۔ یعنی تمہاری روزی آسمان ہی میں ہے اور جس چیز کا تم وعدہ کیے گئے ہو وہ بھی آسمان میں ہے یعنی تمہاری روزی وغیرہ سب کاموں کا بندوبست ہمارے ہی دربار سے ہوتا ہے پھر دوسری طرف متوجہ ہونے سے کیا نتیجہ۔ حدیث2،26۔
میں ہے کہ افضل عبادت قرآن کی قراۃ ہے یعنی بعد فرائض کے تمام نفل عبادت میں قرآن پڑھنا افضل ہے حدیث میں ہے کہ تعظیم کرو قرآن کے یاد رکھنے والوں کی جس نے ان کی تعظیم کی پس بے شک اس نے میری تعظیم کی اور آپ کی تعظیم کا واجب ہونا ظاہر ہے حدیث میں ہے تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جنھوں نے قرآن پڑھا اور قرآن پڑھایا۔ حدیث میں ہے جس نے قرآن پڑھایا اور عمل کیا اس چیز پر جو اس میں ہے یعنی اس کے احکام پر عمل کیا پہنائے جائیں گے اس والدین کو تاج قیامت کے دن جس کی روشنی زیادہ عمدہ ہو گی آیت کی روشنی سے دنیا کے مکانوں میں جبکہ وہ آیت تم میں ہو یعنی دنیا میں جبکہ تمہارے گھروں میں آیت روشن ہو جیسی اس کی روشنی ہوتی ہے اس سے بڑھ کر اس تاج کی روشنی ہو گی پس کیا گمان ہے تمہارا اس شخص کے ثواب کے بارے میں جس نے خود عمل کیا اس پر یعنی قرآن پر جس نے عمل کیا اس کا کیا کچھ بڑا درجہ ہو گا جبکہ اس کے طفیل سے اس کے والدین کو یہ رتبہ عنایت ہوا حدیث میں ہے جس نے قرآن پڑھا پھر خیال کیا اس نے کہ کوئی خدا کی مخلوق میں سے اس نعمت سے بڑھ کر نعمت دا گیا ہے جو جاننے والے کو تیزی کرنا اس شخص سے جو اس سے تیزی کرے اور نہ جہالت کرنا اس شخص سے جو اس سے جہالت کرے اور ایسا نہ کرے لیکن معاف کرے اور درگزر کرے بسبب عزت قرآن کے یعنی اہل علم اور قرآن کے جاننے والوں کو چاہیے کہ دنیا کی تمام نعمتوں سے قرآن کے علم کو اعلی اور افضل سمجھیں۔ اگر انہوں نے قرآن کو علم سے بڑھ کر کسی چیز کو سمجھا تو جس ویز کو خدا نے بڑا کیا تھا۔ اس کو حقیر کر دیا۔ اور حاکم جس چیز کو بڑا کرے اس کا حقیر کرنا کس قدر بڑا جرم ہے۔ اور اہل قرآن کو چاہیے کہ لوگوں سے جہالت اور بد اخلاقی سے پیش نہآئیں کہ قرآن کی عزت اور عظمت اسی بات کو چاہتی ہے اور اگر ان سے کوئی جہالت کرے تو اس کی جہالت کو معاف کریں۔ حدیث میں ہے کہ فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ قرآن زیادہ محبوب ہے اللہ تعالی کو سمانوں سے اور زمین سے اور ان لوگوں سے جو ان سمانوں اور زمین میں ہیں یعنی قرں مجید کا درجہ تمام مخلوق سے اعلی ہے اور قرآن مجید خدا تعالی کو سب سے زیادہ پیارا ہے رواہ ابو نعیم عن ابن عمر مرفوعا بلفظ القرآن احب الی اللہ من السموات والارض ومن فیہن
حدیث میں ہے جس نے سکھائی کسی اللہ کے بندے کو ایک آیت خدا کی کتاب کی۔ سو وہ یعنی سکھانے والا آقا ہو گیا اس پڑھنے والے کا نہیں لائق ہے اس طالب علم کو اس کی مدد نہ کرنا موقع پر اور نہ اس استاد پر کسی دوسرے کو ترجیح دینا جس کا رتبہ استاد سے بڑا نہ ہو پس اگر وہ یعنی طالب علم ایسا کرے تو اس نے توڑ دیا ایک حلقہ کو اسلام کے حلقوں میں سے یعنی ایسی حرکت کرنے سے اس نے اسلام میں بڑا فتنہ ڈالا اور بڑے عظیم الشان شریعت کے حکم کی تعمیل نہ کی جس کی بے برکتی اور سزا کا دارین میں سخت اندیشہ ہے حدیث میں ہے کہ تحقیق فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں ہے میری امت سے وہ شخص جس نے نہ بزرگی کی ہمارے بڑے کی اور نہ رحم کیا ہمارے چھوٹے پر اور نہ پہچانا ہمارے عالم کا حق اور عالم کے اندر قرآن کے پڑھنے پڑھانے والے بھی گئے اور مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص جس کی یہ حالت ہو ہماری جماعت سے خارج ہے اور اس کا ایمان ضعیف ہے لہذا بڑوں کی تعظیم اور چھوٹوں پر رحم کرنا اور علماء کے حق پہچاننا اور ان کی تعظیم و خدمت کرنا ضرور چاہیے۔ رواہ احمد والطبرانی فی الکبیر عن عبادۃ بن الصامت ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لیس من امتی من لم یبجل کبیرنا ویرحم صغیرنا و یعرف لعالمنا حقہ واسنادہ حسن حدیث میں ہے جس نے قرآن پڑھا اور اس کی تفسیر اور اس کے معنے سمجھے اور اس پر عمل نہ کیا تو دوزخ میں اپنا ٹھکانا بنایا یعنی قرآن پڑھ کر اس پر عمل نہ کرنا بہت بڑا سخت گناہ ہے مگر جاہل لوگ خوش نہ ہوں کہ ہم نے پڑھا ہی نہیں سو ہم اگر اس کے احکام پر عمل نہ کریں گے تو کچھ مضائقہ نہیں اس لیے کہ ایسے جاہل کو دو گناہ ہوں گے ایک علم حاصل نہ کرنے کا دوسرا عمل نہ کرنے کا حدیث میں ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ تحقیق فلاں شخص تمام رات قرآن پڑھتا ہے پھر جب صبح قریب ہوتی ہے تو چوری کرتا ہے۔
آپ نے فرمایا عنقریب اس کو روک دے گا اس کا قرآن پڑھنا یعنی قرآن کی تلاوت کی برکت سے یہ حرکت چھوٹ جائے گی۔ رواہ سعید بن منصور عن جابر بلفظ قیل یا رسول اللہ ان فلانا یقرا باللیل کلہ فاذا اصبح سی ق قال سنتہاہ قرامتہ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص قرآن شریف پڑھے اور اس کو حفظ کر لے اور اس کے حلال کو حلال سمجھے اور اس کے حرام کو حرام سمجھے داخل کرے گا اس کو اللہ تعالی جنت میں اور شفاعت قبول کرے گا اس کی دس آدمیوں کے حق میں اس کے خاندان والوں میں سے کہ ان میں سب کے سب ایسے ہوں گے کہ ان کے لیے دوزخ واجب ہو چکی ہو گی۔
حدیث میں ہے کہ جس نے سنا ایک حرف خدا کی کتاب سے با وضو لکھی جائیں گی اس کے لیے دس نیکیاں یعنی دس نیکیوں کا ثواب اور دور کر دیئے جائیں گے اس کے دن گناہ اور بلند کیے جائیں گے اس کے دس درجے اور جس نے پڑھا ایک حرف اللہ کی کتاب سے نماز میں بیٹھ کر یعنی جبکہ نماز بیٹھ کر پڑھے اور نماز نفل مراد ہے اس لیے کہ فرض نماز بغیر عذر بیٹھ کر جائز نہیں اور عذر کے ساتھ جائز ہے سو عذر کے ساتھ جب بیٹھ کر نماز پڑھے تو کھڑے ہونے کے برابر ثواب ملتا ہے ہاں نفل نماز بھی اگر کسی عذر سے بیٹھ کر پڑھے تو کھڑے ہونے کی برابر ثواب ملتا ہے تو لکھی جائیں گی اس کے لیے پچاس نیکیاں یعنی اس قدر نیکیوں کا ثواب اور دور کر دیئے جائیں گے اس کے پچاس گناہ اور بلند کیے جائیں گے اس کے لیے پچاس درجے اور جس نے پڑھا اللہ کی کتاب میں سے ایک حرف کھڑے ہو کر لکھی جائیں گی اس کے لیے سو نیکیاں اور دور کیے جائیں گے اس کے سو گناہ اور بلند کیے جائیں گے اس کے سو درجے اور جس نے قرآن پڑھا اور اس کو ختم کیا لکھے گا اللہ تعالی اپنے پاس اس کے لیے ایک دعا جو فی الحال مقبول ہو جائے یا بعد چندے مقبول ہو۔ حدیث میں ہے جس نے قرآن پڑھا اور پروردگار کی حمد کی اور درود بھجا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اور مغفرت مانگی اپنے پروردگار سے سو بے شک اس نے بھلائی کو مانگ لیا اس کے مقام سے مطلب یہ ہے کہ بھلائی کو اس کی جگہ سے طلب کر لیا۔ یعنی جو طریق دعا کے قبول ہونے کا تھا اس کو برتا جس سے دعا جلد قبول ہونے کی امید ہے۔ اور خدا کی تعریف میں خواہ الحمد للہ کہے یا کوئی اسی معنی کا کلمہ اور قرآن کی تلاوت کے بعد اس خاص طریقہ سے دعا مانگنا قبولیت میں خاص اثر رکھتا ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا
حدیث میں ہے کہ اپنی عورتوں کو سورہ واقعہ سکھلاؤ اس لیے کہ بے شک وہ سورۃ تونگری کی ہے یعنی اس کے پڑھنے سے تونگری میسر ہوتی ہے اور ضروری خرچ اچھی طرح میسر ہو جاتا ہے اور غنائے باطن بھی میسر ہوتا ہے جیسا کہ دوسری حدیث میں ہے کہ جو شخص سورہ واقعہ ہر شب کو پڑھے تو اس کو تنگی رزق کبھی نہ ہو گی اور عورتیں چونکہ ضعیف القلب ہوتی ہیں ذرا سی تنگی میں بہت پریشان ہو جاتی ہیں اس لیے ان کی خصوصیت فرمائی ورنہ اس کا پڑھنا غنا کے حاصل ہونے کے لیے سب کو مفید ہے خواہ مرد ہو یا عورت حدیث میں ہے کہ زیادہ اچھا لوگوں میں قرآن پڑھنے کے اعتبار سے وہ شخص ہے کہ جس وقت وہ قرآن پڑھے تو یہ سمجھے کہ وہ خدا سے ڈر رہا ہے یعنی تلاوت کرنے والے کو دیکھنے والا یہ سمجھے کہ وہ خدا سے ڈر رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس طرح اہتمام سے پڑھے جیسے کہ ڈرنے والا اہتمام سے کلام کرتا ہے کہ کوئی حرکت حاکم کے سامنے بے موقع نہ ہو جائے اور قرآن مجید کے پڑھنے کا عمدہ طریق یہ ہے کہ با وضو قبلہ کی طرف بیٹھ کر عاجزی سے تلاوت کرے اور سمجھے کہ اللہ تعالی سے باتیں کر رہا ہوں اور اگر معنے جانتا ہو تو معنی پر غور کرے اور جہاں رحمت کی آیت آئے وہاں رحمت کی دعا مانگے اور جہاں عذاب کا ذکر ہو وہاں دوزخ سے پناہ مانگے اور جب تمام کر چکے تو خدا کی حمد اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھ کے مغفرت طلب کرے اور جو چاہے دعا مانگے اور پھر درود شریف پڑھے اور حتی المقدور قرآن پڑھنے میں دوسرا خیال نہ آنے دے اگر کوئی خیال آئے تو ادھر توجہ نہ کرے وہ خیال خود جاتا رہے گا اور تلاوت کے وقت لباس بھی جہاں تک ہو سکے صاف پہنے ۔