ضمیمہ ثانیہ بہشتی زیور حصہ چہار مسماۃ بہ تصحیح الاغلاط

اصل صفحہ س۔ چاہے صاف لفظوں میں الخ۔ تحقیق۔ مطلب یہ ہے کہ جب طلاقیں تین پڑ جائیں گی خواہ صاف لفظوں سے پڑیں یا گول لفظوں سے حرمت مغلظہ ثابت ہو جائے گی اور یہ امر کو گول لفظوں کی تکرار سے کب تین طلاقیں ہوں گی کب نہ ہوں گی اس سے اس جگہ بحث نہیں پس اس پر وہ شبہ واقع نہیں ہوتا جو اس پر کیا گیا ہے اور نہ اس جواب کی ضرورت ہے جو دیا گیا ہے۔

اصل صفحہ س۔ کسی نے یوں کہا کہ تجھ کو رکھوں تو ماں کو رکھوں الخ تحقیق۔ عالمگیری میں ہے۔ لوقال ان وطئتک وطئت امی فلاشئی علیہ کذافی غایۃ السراجی اور مولوی احمد حسن صاحب نے اپنے حاشیہ میں لکھا ہے ان دونوں صورتوں کا یہ حکم کہ اس کہنے سے کچھ نہیں ہوا اس حالت میں ہے جبکہ کچھ نیت نہ ہو۔ اگر نیت طلاق کی ہو تو طلاق پڑ جائے گی اور جو نیت ظہار کی ہو تو ظہار ہو جائے گا انتہی۔ اور امداد الفتاوی مبوب کی جلد دوم کے ضمیمہ میں کتاب الطلاق میں مولانا نے عدم وقوع طلاق مطلقا ہی کو ترجیح دی ہے لیکن اس میں مراجعت الی العلمائ کا بھی مشورہ دیا ہے فلیتحقق۔

اس صورت میں اگر ایلاء کی نیت کی ہے تو ایلاء ہو جائے گا فی العالمگیریۃ اذا قال انت علی حرام کامی ونوی الطلاق اوالظہار اوالایلاء فہوعلی مانوی وان لم ینوشیئا یکون ظہار افی قول محمد وذکر الخصاف والصحیح من مذہب ابی حنیفۃ ماقال محمد کذا فی فتاوی قاضی خان۔ عالمگیریۃ۔

۔ نکاح ہو گیا لیکن ابھی رخصتی نہیں ہوئی میاں پردیس میں ہے الخ تحقیق۔ ان دونوں مسئلوں پر بعض عوام اعتراض کیا کرتے ہیں لہذا ضرورت ہے کہ ان کی ضرورت توضیح کر دی جائے۔

توضیح مسئلہ 1۔ نکاح ہو گیا لیکن ابھی رواہ کے موافق رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ لڑکا پیدا ہو گیا اور شوہر انکار نہیں کرتا کہ بچہ میرا نہیں ہے تو وہ لڑکا شوہر ہی سے ہے حرامی نہیں۔ کیونکہ ممکن ہے کہ کسی طریق سے خفیہ طور پر خاوند بیوی کے پاس پہنچ گیا ہو۔ اور گھر والوں کو یا غیروں کو اس کی خبر نہ ہوئی ہو اور اس کا حرامی کہنا درست نہیں کیونکہ یہ بلا حجت شرعی مرد کو جھٹلانا اور عورت پر زنا کی تہمت لگانا ہے ہاں اگر شوہر کا نہ ہو اور وہ جانتا ہو کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے اور میں اس عورت کے پاس نہیں گیا تو انکار کرے۔ انکار کرنے پر چونکہ وہ عورت پر زنا کا الزام لگاتا ہے اگر عورت اس الزام کو تسلیم نہ کرے اور لعان کی شرائط پائی جائیں تو لعان کا حکم ہو گا اور بعد تحقیقی لعان بچہ کا نسب شوہر سے منقطع کر دیا جائے گا اس توضیح کے بعد مطلب بہشی زیور بالکل صاف ہو گا اور اس پر کسی شبہ کی گنجائش نہ رہی۔

توضیح مسئلہ2۔ میاں پردیس میں ہے اور مدت ہو گئی برسیں گزر گئیں کہ گھر نہیں اور اس کے نے کی خبر کسی کو نہ ہوئی ہو۔ جیسے اشتہاری لوگ چھپ کر اپنے گھر جاتے ہیں اور لوگوں کو ان کے نے کی خبر نہیں ہوتی یا بذریعہ کسی عمل مثل تسخیر جن وغیرہ کے یا بذریعہ کرامت کسی بزرگ کے وہ اپنی بیوی کے پاس پہنچ گیا ہو۔ یا اپنی بیوی کو اپنے پاس بلا لیا ہو اور کسی کو اس کی خبر نہ ہوئی ہو پس جبکہ خاوند اس بچہ کے اپنا بیٹا ہونے سے انکار نہیں کرتا تو گویا وہ دعوی کرتا ہے کہ میں نے اپنی بیوی سے صحبت کی ہے اور یہ شبہ کہ وہ تو پردیس میں تھا کیسے صحبت کر سکتا ہے اس لیے صحیح نہیں ہے کہ بذریعہ کرامت یا بذریعہ جن وغیرہ کے ایسا ہونا ممکن ہے تو شوہر کو جھوٹا نہ کہا جائے گا اور بچہ کو حرامی نہ کہا جائے گا۔ البتہ چونکہ شوہر کو علم ہے کہ میں نے صحبت کی ہے یا نہیں اس لیے اس کو انکار کا حق حاصل ہے اس بنا پر اگر وہ خبر پا کر انکار کرے گا تو چونکہ اس انکار میں عورت پر زنا کا الزام ہے اس لیے اگر زوجہ زنا سے انکار کرے اور دیگر شرائط لعان پائی جاتی ہیں تو لعان کا حکم ہو گا اور بعد لعان کے بچہ کا نسب شوہر سے منقطع کر دیا جائے گا اس توضیح کے بعد وسرے مسئلہ پر بھی شبہ نہیں ہو سکتا۔ یہ مختصر توضیح تھی ان دونوں مسئلوں کو جو انشاء اللہ سمجھدار اور غیر متعصب حضرات کی تشفی کے لیے کافی ہے۔

اگر کسی کو زیادہ تفصیل دیکھنا ہو تو رسالہ رفع الارتیاب مصنفہ مکرمی مولوی عبداللہ صاحب منگا کر دیکھے اس میں زیادہ تفصیل ملے گی نیز ان مسائل پر شبہ اور اس کا جواب حضرت مولانا نور اللہ مرقدہ کی طرف سے تتمہ اولی امداد الفتاوی صفحہ میں مذکور ہے اس کو بھی دیکھ لیا جائے۔ آخر میں کہا جاتا ہے کہ روافض خذلہم اللہ بھی بہشتی زیور کے یہ مسائل جاہل لوگوں کو دکھلا کر ان کو مذہب اسلام سے نفرت دلانا چاہتے ہیں اور اس طرح دھوکہ دے کر ان کو مذہب رفض کا پابند کرنا چاہتے ہیں جو کہ منافق یہودیوں کا بنایا ہوا دین ہے اور جاہل چونکہ نہ اپنے مذہب سے واقف ہوتے ہیں نہ رافضیوں کے اس لیے وہ پریشان ہو جاتے ہیں اور ان کو جواب نہیں دینا پڑتا۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی رافضی ان مسائل میں گفتگو کرے تو ان کو چاہیے کہ وہ بہشتی زیور کا مطلب سمجھا کر ان کے اعتراض کو دفع کریں اور ان سے کہیں کہ تمہارے مذہب میں یہ تین مسئلے بہشتی زیور سے زیادہ قابل اعتراض ہیں ان کا جواب دو۔

سوال۔ بہشتی زیور حصہ چہارم کے بیان لڑکے کے حلالی ہونے کے آخری دو مسئلوں نکاح ہو گیا لیکن ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی الخ و میاں پردیس میں ہے اور مدت ہو گئی برسیں گزر گئیں الخ پر لوگ مختلف خیال والے اعتراض کر رہے ہیں۔ براہ عنایت ہر دو مسائل کا مشرح و مدلل حال تحریر فرمائیے تاکہ معترضین کو چپ کیا جائے۔

الجواب۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ اب تک جس نے اس بارہ میں زبانی یا تحریری دریافت کیا اعتراض کے رنگ میں دریافت کیا اس لیے خطاب کرنے کو جی نہ چاہا۔ آپ کے الفاظ سے چونکہ سمجھنے کا قصد معلوم ہوتا ہے اس لیے جواب لکھتا ہوں ذرا غور سے سمجھئے۔ بہشتی زیور کے ان مسئلوں کا یہ مطلب نہیں کہ بدون صحبت کے حمل رہ جاتا ہے اور وہ حمل اس شوہر کا ہو جاتا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان صورتوں میں اوپر کے دیکھنے والوں کو خود اسی کا یقین کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ ان میں صحبت نہیں ہوئی۔ پس ان کو شرعاً یہ اجازت نہیں کہ محض ظاہری دوری کو زن و شوہر میں دیکھ کر یہ کہہ دیں کہ جب ہمارے علم میں ان کے درمیان صحبت واقع نہیں ہوئی تو واقع میں بھی صحبت نہیں ہوئی اور یہ حمل حرام کا ہے اور یہ عورت حرام کار ہے اور یہ بچہ ولد الحرام۔ پس دیکھنے والوں کو یہ حکم لگانے کا حق نہیں۔ کیونکہ کسی کو حرام کار یا حرام زادہ کہنا بہت بڑی تہمت ہے۔ اور گناہ عظیم ہے اس کا منہ سے نکالنا بدون دلیل قطعی کے جائز نہیں۔ بلکہ جب تک بعید سے بعید احتمال بھی وقوع صحبت کا رہے گا یوں سمجھیں گے کہ شاید یہی بعید صورت صحبت کی واقع ہوئی ہو اور دوسروں کو اس کی اطلاع نہ ہوئی ہو اور وہ بعید احتمال یہاں دور ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ کسی بزرگ کی کرامت سے زن و شوہر ایک جگہ جمع ہو گئے ہوں اور ان میں صحبت واقع ہوئی ہو۔ دوسرے یہ کہ کسی جن نے دونوں کو ایک جگہ جمع کر دیا ہو اور صحبت ہو گئی ہو اور حمل رہ گیا ہو۔ اور بزرگوں کی کرامت اور جن کا تصرف اہل سنت و الجماعت کے نزدیک شرعاً و عقلاً وقوعاً ثابت ہے اور گو اس کا احتمال بعید ہی ہو مگر ہم مسلمان عورت کو تہمت سے بچانے کے لیے اور بچہ کو عار سے بچانے کے لیے اس احتمال کو ممکن مانیں گے اور یوں کہیں گے کہ شاید ایسی ہی صورت ہوئی ہو اور بعض صورتوں میں ممکن ہے۔

مسئلہ1۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاخانہ کے مقام میں صرف حشفہ داخل کر دے اور انزال ہو جائے اور اس عورت کے اس وقت چھ مہینے بعد انتہائی مدت حمل سے پہلے بچہ پیدا ہوا ہو تو وہ بچہ خاوند ہی کا ہے۔ ( بتلاؤ کہ پاخانہ کے مقام میں صحبت کرنے سے رحم میں نطفہ کیسے پہنچ گیا)

مسئلہ 2۔ اگر کوئی مرد اپنی عورت کے پاخانہ کے مقام میں حشفہ داخل کر دے اور انزال بھی نہ ہو تب بھی بچہ خاوند ہی کا ہو گا بشرطیکہ وہ چھ مہینے کے بعد اور انتہائی مدت حمل سے پہلے پیدا ہوا ہو بتلاؤ کہ پاخانہ کے مقام میں صحبت کرنے سے اور وہ بھی بغیر انزال ہوئے حمل کیسے قرار پا گیا۔

مسئلہ3۔ اگر کوئی مرد اپنی عورت سے آگے کی راہ سے صحبت کرے اور انزال نہ ہو تب بھی جو بچہ پیدا ہو گا وہ خاوند ہی کا ہو گا بشرطیکہ وہ چھ مہینے کے بعد اور انتہائی مدت حمل سے پہلے پیدا ہو۔ بتلاؤ کہ بدون انزال کے حمل کیسے رہ گیا۔ ان مسئلوں کا جواب ان سے کچھ نہ بن پڑے گا اور وہ فہت الذی کفر کا مصداق ہوں گے لیکن اگر وہ انکار کریں اور کہیں کہ ہمارے مذہب میں یہ مسئلے نہیں ہیں تو ان سے کہو کہ یہ تینوں مسئلے شرح و مشفیہ میں موجود ہیں اور عبارت اس کی یہ ہے

یلحق الولد بالزوج الدائم نکاحہ بالدخول بالزوجۃ ومضے ستت اشہر ہلالیۃ من حین الوطی والمرادبہ علی مایظہرمن اطلاقہم وصرح بہ المصنف فی قواعدہ غیبوبۃ الخشفۃ قبلا اودبراوان لم ینزل۔ ولا یخلو ذلک من اشکال ان لم یکن مجمعا علیہ علیہ للقطع بانتفائ التولد عادۃ فی کثیر من مواردہ ولم اقف علی شئی ینافی مانقلناہ و یعتمد علیہ وعدم تجاوز اقصے مدۃ الحمل وقد اختلف الاصحاب فی تحدیدہ فقیل تسعۃ اشہر وقیل عشرۃ وغایۃ ماقیل مافیہ عندنا سنۃ ومستند الکل مفہوم الروایات وعدل امص عن ترجیح قول لعدم دلیل قوی علی الترجیح ویمکن حمل الروایات علی اختلاف عادات النسائ فان بعضہن تلد لتسعۃ وبعضہن لعشرۃ وقدیتفق نادرابلوغ سنۃ واتفق الاصحاب علی انہ لایذید عن السنۃ مع انہم رووا ان النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم حملت بہ امہ ایام التشریق واتفقوا علی انہ ولدفی شہرربیع الاول فاقل مایکون لبث فی بطن امہ سنۃ وثلثۃ اشہر وما نقل احد من العلمائ انہ من خصائصہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اھ بلفظہ۔

اس عبارت میں یہ تینوں مسئلے موجود ہیں اور لطف یہ ہے کہ خود صاحب کتاب کا اقرار ہے کہ یہ مسائل ضرور قابل اعتراض ہیں ان صورتوں میں بچہ کا اس مرد سے پیدا ہونا عادتاً ناممکن ہے مگر کسی رافضی عالم کا قول مجھے ان کے مخالف نہیں ملا۔

ہذا ما عندنا واللہ یہدی من یشاء الی صراط مستقیم

کہ شوہر ایسی طرح خفیہ آیا ہو کہ کسی کو خبر نہ ہو جیسے بعض اشتہاری مجرم رات کو اپنے گھر جاتا ہے اور رات ہی کو چلا جاتا ہے اس لیے اس حمل کو اس شوہر کی طرف منسوب سمجھیں گے اور نسب کو ثابت مانیں گے البتہ خود شوہر کو اس کا علم قطعی ہو سکتا ہے کہ میں نے صحبت کی ہے یا نہیں۔ سو اس کو شرعاً مجبور نہیں کیا گیا کہ خواہ مخواہ تو اس بچہ کو اپنا ہی مان بلکہ اس کو اختیار دیا گیا ہے کہ اگر تو نے صحبت نہیں کی ہے تو اس نسب کو نفی کر سکتا ہے۔ مگر چونکہ حاکم شرع کو کسی دلیل قطعی سے خود شوہر کا راست گو ہونا یقینی طور پر معلوم نہیں ہو سکتا بلکہ احتمال ہے کہ کسی اور رنج و غصہ سے عورت کو بدنام کرتا ہو اس لیے اس کی نفی کرنے پر حاکم شرع سکوت نہ کرے گا بلکہ مقدمہ قائم کر کے لعان کا قانون نافذ کرے گا پھر لعان کے بعد دوسروں کو بھی شرعاً اجازت ہے کہ اس بچہ کو اس شوہر کا نہ کہیں گے کیونکہ قانون شرعی سے اس کا نسب قطع ہو چکا یعنی شرعاً جبر نہیں کہ اب بھی اسی کا مانو بلکہ قانوناً اس سے منقطع سمجھیں گے اور واقع کے اعتبار سے پھر بھی یوں کہیں گے کہ غیب کا علم خدا تعالی کو ہے اسی طرح عورت کی نسبت کہیں گے کہ خدا کو خبر ہے کہ مرد سچا ہے یا عورت۔

27شعبان 1328ھ