زیادہ کھانے کی حرص کی برائی اور اس کا علاج

بہت سے گناہ پیٹ کے زیادہ پالنے سے ہوتے ہیں۔ اس میں کئی باتوں کا خیال رکھو۔ مزیدار کھانے کی پابند نہ ہو حرام روزی سے بچو۔ حد سے زیادہ نہ بھرو بلکہ دو چار لقمے کی بھوک رکھ کر کھاؤ۔ اس میں بہت سے فائدے ہیں ایک تو دل صاف رہتا ہے جس سے خدائے تعالی کی نعمتوں کی پہچان ہوتی ہے اور اس سے خدائے تعالی کی محبت پیدا ہوتی ہے۔ دوسرے دل میں رقت اور نرمی رہتی ہے جس سے دعا اور ذکر میں لذت معلوم ہوتی ہے۔ تیسرے نفس میں بڑائی اور سرکشی نہیں ہونے پاتی۔ چوتھے نفس کو تھوڑی سی تکلیف پہنچی ہے اور تکلیف کو دیکھ کر خدا کا عذاب یاد آتا ہے اور اس وجہ سے نفس گناہوں سے بچتا ہے۔ پانچویں گناہ کی رغبت کم ہوتی ہے۔ چھٹے طبیعت ہلکی رہتی ہے۔ نیند کم آتی ہے تہجد اور دوسری عبادتوں میں سستی نہیں ہوتی۔ ساتویں بھوکوں اور عاجزوں پر رحم آتا ہے بلکہ ہر ایک کے ساتھ رحمدلی پیدا ہوتی ہے۔


زیادہ بولنے کی حرص کی برائی اور اس کا علاج

نفس کو زیادہ بولنے میں بھی مزہ آتا ہے اور اس سے صدہا گناہ میں پھنس جاتا ہے۔ جھوٹ غیبت اور کوسنا کسی کو طعنہ دینا اپنی بڑائی جتلانا خواہ مخواہ کسی سے بحثا بحثی لگانا۔ امیروں کی خوشامد کرنا۔ ایسی ہنسی کرنا جس سے کسی کا دل دکھے۔ ان سب آفتوں سے بچنا جب ہی ممکن ہے کہ زبان کو روکے۔ اور اس کے روکنے کا طریقہ یہی ہے کہ جو بات منہ سے نکالنا ہو جی میں آتے ہی نہ کہہ ڈالے بلکہ پہلے خوب سوچ سمجھ لے کہ اس بات میں کسی طرح کا گناہ ہے یا ثواب ہے یا یہ کہ نہ گناہ ہے نہ ثواب ہے۔ اگر وہ بات ایسی ہے جس میں تھوڑا یا بہت گناہ ہے تو بالکل اپنی زبان بند کر لو اگر اندر سے نفس تقاضا کرے تو اس کو یوں سمجھاؤ کہ اس وقت تھوڑا سا جی کو مار لینا آسان ہے اور دوزخ کا عذاب بہت سخت ہے۔ اور اگر وہ بات ثواب کی ہے تو کہہ ڈالو اور اگر نہ گناہ ہے نہ ثواب ہے تو بھی مت کہو۔ اور اگر بہت ہے دل چاہے تو تھوڑی سی کہہ کر چپ ہو جاؤ۔ ہر بات میں اسی طرح سوچا کرو تھوڑے دنوں میں بری بات کہنے سے خود نفرت ہو جائے گی۔ اور زبان کی حفاظت کی ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ بلا ضرورت کسی سے نہ ملو۔ جب تنہائی ہو گی خود ہی زبان خاموش رہے گی۔


غصے کی برائی اور اس کا علاج

غصے میں عقل ٹھکانے نہیں رہتی اور انجام سوچنے کا ہوش نہیں رہتا۔ اس لیے زبان سے بھی جا بیجا نکل جاتا ہے۔ اور ہاتھ سے بھی زیادتی ہو جاتی ہے اس لیے اس کو بہت روکنا چاہیے اور اس کو روکنے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے یہ کرے کہ جس پر غصہ آیا ہے اس کو اپنے روبرو سے فورا ہٹا دے اگر وہ نہ ہٹے تو خود اس جگہ سے ٹل جائے۔ پھر سوچے کہ جس قدر یہ شخص میرا قصور وار ہے اس سے زیادہ میں خدا تعالی کی قصور وار ہوں اور جیسا میں چاہتی ہوں کہ اللہ تعالی میری خطا معاف کر دیں ایسے ہی مجھ کو بھی چاہیے کہ میں اس کا قصور معاف کر دو اور زبان سے اعوذ باللہ کئی بار پڑھے اور پانی پی لے یا وضو کر لے اس سے غصہ جاتا رہے گا۔ پھر جب عقل ٹھکانے ہو جائے اس وقت بھی اگر اس قصور پر سزا دینی مناسب معلوم ہو مثلاً سزا دینے میں اسی قصور وار کی بھلائی ہے جیسے اپنی اولاد ہے کہ اس کو سدھارنا ضروری ہے اور یا سزا دینے میں دوسرے کی بھلائی ہے جیسے اس شخص نے کسی پر ظلم کیا تھا۔ اب مظلوم کی مدد کرنا اور اس کے واسطے بدلہ لینا ضروری ہے اس لیے سزا کی ضرورت ہے۔ تو اول خوب سمجھ لے کہ اتنی خطا کی کتنی سزا ہونی چاہیے جب اچھی طرح شرع کے موافق اس بات میں تسلی ہو جائے تو اسی قدر سزا دے دے۔ چند روز اس طرح غصہ روکنے سے پھر خود بخود قابو میں آ جائے گا تیزی نہ رہے گی اور کینہ بھی اسی غصے سے پیدا ہو جاتا ہے۔ جب غصہ کی اصلاح ہو جائے گی کینہ بھی دل سے نکل جائے گا۔


حسد کی برائی اور اس کا علاج

کسی کو کھاتا پیتا یا پھلتا پھولتا عزت آبرو سے رہتا ہوا دیکھ کر دل میں جلنا اور رنج کرنا اور اس کے زوال سے خوش ہونا اس کو حسد کہتے ہیں یہ بہت بری چیز ہے۔ اس میں گناہ بھی ہے ایسے شخص کی ساری زندگی تلخی میں گزرتی ہے۔ غرض اس کی دنیا اور دین دونوں بے حلاوت ہیں اس لیے اس آفت سے نکلنے کی بہت کوشش کرنی چاہیے۔ اور علاج اس کا یہ ہے کہ اول یہ سوچے کہ میرے حسد کرنے سے مجھی کو نقصان اور تکلیف ہے۔ اس کا کیا نقصان ہے۔ اور وہ میرا نقصان یہ ہے کہ میری نیکیاں برباد ہو رہی ہیں۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا لیتی ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ حسد کرنے والی گویا اللہ تعالی پر اعتراض کر رہی ہے کہ فلانا شخص اس نعمت کے لائق نہ تھا اس کو نعمت کیوں دی۔ تو یوں سمجھو کہ توبہ توبہ اللہ تعالی کا مقابلہ کرتی ہے تو کتنا بڑا گناہ ہو گا۔ اور تکلیف ظاہر ہے کہ ہمیشہ رنج و غم میں رہتی ہے اور جس پر حسد کیا ہے اس کا کوئی نقصان نہیں کیونکہ حسد سے وہ نعمت جاتی نہ رہے گی بلکہ اس کا یہ نفع ہے کہ اس حسد کرنے والی کی نیکیاں اس کے پاس چلی جائیں گی۔ جب ایسی ایسی باتیں سوچ چکو تو پھر یہ کرو کہ اپنے دل پر جبر کر کے جس شخص پر حسد پیدا ہوا ہے زبان سے دوسروں کے روبرو اس کی تعریف اور بھلائی کرو اور یوں کہو کہ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس کے پاس ایسی ایسی نعمتیں ہیں اللہ اس کو دونی دیں۔ اور اگر اس شخص سے ملنا ہو جائے تو اس کی تعظیم کرے اور اس کے ساتھ عاجزی سے پیش آئے۔ پہلے پہلے ایسے برتاؤ سے نفس کو بہت تکلیف ہو گی مگر رفتہ رفتہ آسانی ہو جائے گی اور حسد جاتا رہے گا۔


دنیا اور مال کی محبت کی برائی اور اس کا علاج

مال کی محبت ایسی بری چیز ہے کہ جب یہ دل میں آتی ہے تو حق تعالی کی یاد اور محبت اس میں نہیں سماتی۔ کیونکہ ایسے شخص کو تو ہر وقت یہی ادھیڑ بن رہے گی کہ روپیہ کس طرح آئے اور کیونکر جمع ہو۔ زیور کپڑا ایسا ہونا چاہیے اس کا سامان کس طرح کرنا چاہیے۔ اتنے برتن ہو جائیں۔ اتنی چیزیں ہو جائیں۔ ایسا گھر بنانا چاہیے۔ باغ لگانا چاہیے۔ جائداد خریدنا چاہیے۔ جب رات دن دل اسی میں رہا پھر خدائے تعالی کو یاد کرنے کی فرصت کہاں ملے گی۔ ایک برائی اس میں یہ ہے کہ جب دل میں اس کی محبت جم جاتی ہے تو مر کر خدا کے پاس جانا اس کو برا معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ خیال آتا ہے کہ مرتے ہی یہ سارا عیش جاتا رہے گا۔ اور کبھی خاص مرتے وقت دنیا کا چھوٹنا برا معلوم ہوتا ہے۔ اور جب اس کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالی نے دنیا سے چھڑایا ہے تو توبہ توبہ اللہ تعالی سے دشمنی ہو جاتی ہے اور خاتمہ کفر پر ہوتا ہے۔ ایک برائی اس میں یہ ہے کہ جب آدمی دنیا سمیٹنے کے پیچھے پڑ جاتا ہے پھر اس کو حرام حلال کا کچھ خیال نہیں رہتا۔ نہ اپنا اور پرایا حق سوجھتا ہے۔ نہ جھوٹ اور دغا کی پرواہ ہوتی ہے۔ بس یہی نیت رہتی ہے کہ کہیں سے آئے لے کر بھر لو۔ اسی واسطے حدیث میں آیا ہے کہ دنیا کی محبت سارے گناہوں کی جڑ ہے۔ جب یہ ایسی بری چیز ہے تو ہر مسلمان کو کوشش کرنا چاہیے کہ اس بلا سے بچے اور اپنے دل سے اس دنیا کی محبت باہر کرے۔ سو علاج اس کا ایک تو یہ ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کرے اور ہر وقت سوچے کہ یہ سب سامان ایک دن چھوڑنا ہے۔ پھر اس میں جی لگانا کیا فائدہ۔ بلکہ جس قدر زیادہ جی لگے گا اسی قدر چھوڑتے وقت حسرت ہو گی۔ دوسرے بہت سے علاقے نہ بڑھائے یعنی بہت سے آدمیوں سے میل جول لینا دینا نہ بڑھائے ضرورت سے زیادہ سامان چیز بست مکان جائداد جمع نہ کرے۔ کاروبار روزگار تجارت حد سے زیادہ نہ پھیلائے۔ ان چیزوں کو ضرورت اور آرام تک رکھے غرض سب سامان مختصر رکھے۔


تیسرے فضول خرچی نہ کرے۔ کیونکہ فضول خرچی کرنے سے آمدنی کی حرص بڑھتی ہے اور اس کی حرص سے سب خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ چوتھے موٹے کھانے کپڑے کی عادت رکھے۔ پانچویں غریبوں میں زیادہ بیٹھے امیروں سے کم ملے۔ کیونکہ امیروں سے ملنے میں ہر چیز کی ہوس پیدا ہوتی ہے۔ چھٹے جن بزرگوں نے دنیا چھوڑ دی ہے ان کے قصے حکایتیں دیکھا کرے۔ ساتویں جس چیز سے دل کو زیادہ لگاؤ ہو اس کو خیرات کر دے یا بیچ ڈالے۔ انشاء اللہ تعالی ان تدبیروں سے دنیا کی محبت دل سے نکل جائے گی اور دل میں جو دور دور کی امنگیں پیدا ہوتی ہیں کہ یوں جمع کریں۔ یوں سامان خریدیں۔ یوں اولاد کے لیے مکان اور گاؤں چھوڑ جائیں۔ جب دنیا کی محبت جاتی رہے گی یہ امنگیں خود دفع ہو جائیں گی۔


کنجوسی کی برائی اور اس کا علاج

بہت سے حق جن کا ادا کرنا فرض اور واجب ہے جیسے زکوٰۃ قربانی کسی محتاج کی مدد کرنا اپنے غریب رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنا کنجوسی میں یہ حق ادا نہیں ہوتے۔ اس کا گناہ ہوتا ہے یہ تو دین کا نقصان ہے۔ اور کنجوس آدمی سب کی نگاہوں میں ذلیل و بے قدر رہتا ہے یہ دنیا کا نقصان ہے اس سے زیادہ کیا برائی ہو گی۔ علاج اس کا ایک تو یہ ہے کہ مال اور دنیا کی محبت دل سے نکالے۔ جب اس کی محبت نہ رہے گی کنجوسی کسی طرح ہو ہی نہیں سکتی دوسرا علاج یہ ہے کہ جو چیز اپنی ضرورت سے زیادہ ہو اپنی طبیعت پر زور ڈال کر اس کو کسی کو دے ڈالا کرے۔ اگرچہ نفس کو تکلیف ہو مگر ہمت کر کے اس تکلیف کو سہار لے۔ جب تک کہ کنجوسی کا اثر بالکل دل سے نہ نکل جائے یوں ہی کیا جائے۔


نام اور تعریف چاہنے کی برائی اور اس کا علاج

جب آدمی کے دل میں اس کی خواہش ہوتی ہے تو دوسرے شخص کے نام اور تعریف سے جلتا ہے اور حسد کرتا ہے۔ اس کی برائی اوپر سن چکی ہو۔ اور دوسرے شخص کی برائی اور ذلت سن کر جی خوش ہوتا ہے۔ یہ بھی بڑے گناہ کی بات ہے کہ آدمی دوسرے کا برا چاہے۔ اور اس میں یہ بھی برائی ہے کہ کبھی ناجائز طریقوں سے نام پیدا کیا جاتا ہے مثلاً نام کے واسطے شادی وغیرہ خوب مال اڑایا۔ فضول خرچی کی۔ اور وہ مال کبھی رشوت سے جمع کیا کبھی سودی قرض کیا اور یہ سارے گناہ اس نام کی بدولت ہوئے اور دنیا کا نقصان اس میں یہ ہے کہ ایسے شخص کے دشمن اور حاسد بہت ہوتے ہیں اور ہمیشہ اس کو ذلیل اور بدنام کرنے اور اس کو نقصان اور تکلیف پہنچانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں علاج اس کا ایک تو یہ ہے کہ یوں سوچے کہ جن لوگوں کی نگاہ میں ناموری اور تعریف ہو گی نہ وہ رہیں گے نہ میں رہوں گی تھوڑے دنوں کے بعد کوئی پوچھے گا بھی نہیں پھر ایسی بے بنیاد چیز پر خوش ہونا نادانی کی بات ہے۔ دوسرا علاج یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کرے جو شرع کے تو خلاف نہ ہو مگر یہ لوگوں کی نظر میں ذلیل اور بدنام ہو جائے۔ مثلاً گھر کی بچی ہوئی باسی روٹیاں غریبوں کے ہاتھ سستی بیچنے لگے اس سے خوب رسوائی ہو گی۔


غرور اور شیخی کی برائی اور اس کا علاج

غرور اور شیخی اس کو کہتے ہیں کہ آدمی اپنے کو علم میں یا عبادت میں دیانتداری میں یا حسب و نسب میں یا مال اور سامان میں یا عزت آبرو میں یا عقل میں یا اور کسی بات میں اوروں سے بڑا سمجھے اور دوسروں کو اپنے سے کم اور حقیر جانے یہ بڑا گناہ ہے۔ حدیث میں ہے کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو گا وہ جنت میں نہ جائے گا اور دنیا میں بھی ایسے لوگ آدمی سے دل میں بہت نفرت کرتے ہیں اور اس کے دشمن ہوتے ہیں اگرچہ ڈر کے مارے ظاہر میں آؤ بھگت کرتے ہیں اور اس میں یہ بھی برائی ہے کہ ایسا شخص کسی کی نصیحت کو نہیں مانتا حق بات کو کسی کے کہنے سے قبول نہیں کرتا بلکہ برا مانتا ہے اور اس نصیحت کرنے والے کو تکلیف پہنچانا چاہتا ہے۔ علاج اس کا یہ ہے کہ اپنی حقیقت میں غور کرے کہ میں مٹی اور ناپاک پانی کی پیدائش ہوں۔ ساری خوبیاں اللہ تعالی کی دی ہوئی ہیں اگر وہ چاہیں ابھی سب لے لیں۔ پھر شیخی کس بات پر کروں اور اللہ تعالی کی بڑائی کو یاد کرے۔ اس وقت اپنی بڑائی نگاہ میں نہ آئے گی اور جس کو اس نے حقیر سمجھا ہے اس کے سامنے عاجزی سے پیش آئے اور اس کی تعظیم کیا کرے شیخی دل سے نکل جائے گی اگر اور زیادہ ہمت نہ ہو تو اپنے ذمے اتنی ہی پابندی کر لے کہ جب کوئی چھوٹے درجے کا آدمی ملے اس کو پہلے خود سلام کر لیا کرے۔ انشاء اللہ تعالی اس سے بھی نفس میں بہت عاجزی جائے گی۔


اترانے اور اپنے آپ کو اچھا سمجھنے کی برائی اور اس کا علاج

اگر کوئی اپنے آپ کو اچھا سمجھی یا کپڑا زیور پہن کر اترائی اگرچہ دوسروں کو بھی برا اور کم نہ سجھی یہ بات بھی بری ہے حدیث میں آیا ہے کہ یہ خصلت دین کو برباد کرتی ہے اور یہ بھی بات ہے کہ ایسا آدمی اپنے سنوارنے کی فکر نہیں کرتا کیونکہ جب وہ اپنے آپ کو اچھا سمجھتا ہے تو اس کو اپنی برائیاں کبھی نظر نہ آئیں گی۔ علاج اس کا یہ ہے کہ اپنے عیبوں کو سوچا اور دیکھا کرے اور یہ سجھے کہ جو باتیں میرے اندر اچھی ہیں یہ خدائے تعالی کی نعمت ہے میرا کوئی کمال نہیں۔ اور یہ سوچ کر اللہ تعالی کا شکر کیا کرے اور دعا کیا کرے کہ اے اللہ اس نعمت کا زوال نہ ہو


نیک کام دکھلاوے کے لیے کرنے کی برائی اور اس کا علاج

یہ دکھلاوا کئی طرح کا ہوتا ہے کبھی صاف زبان سے ہوتا ہے کہ ہم نے اتنا قرآن پڑھا۔ ہم رات کو اٹھے تھے کبھی اور باتوں میں ملا ہوتا ہے۔ مثلاً کہیں بدوؤں کا ذکر ہو رہا تھا۔ کسی نے کہا کہ نہیں صاحب یہ سب باتیں غلط ہیں ہمارے ساتھ ایسا ایسا برتاؤ ہوا۔ تو اب بات تو ہوئی اور کچھ لیکن اسی میں یہ بھی سب نے جان لیا کہ انہوں نے حج کیا ہے کبھی کام کرنے سے ہوتا ہے جیسے دکھلاوے کی نیت سے سب کی روبرو تسبیح لے کر بیٹھ گئی یا کبھی کام کے سنوارنے سے ہوتا ہے جیسے کسی کی عادت ہے کہ ہمیشہ قرآن پڑھی ہے مگر چار عورتوں کے سامنے ذرا سنوار سنوار کر پڑھنا شروع کر دیا۔ کبھی صورت شکل سے ہوتا ہے جیسے آنکھیں بند کر کے گردن جھکا کر بیٹھ گئی۔ جس میں دیکھنے والے سمجھیں کہ بڑی اللہ والی ہیں۔ ہر وقت اسی دھیان میں ڈوبی رہتی ہیں۔ رات کو بہت جاگی ہیں۔ نیند سے آنکھیں بند ہوئی جاتی ہیں۔ اسی طرح یہ دکھلاوا اور ابھی کئی طور پر ہوتا ہے اور جس طرح بھی ہو بہت برا ہے۔ قیامت میں ایسے نیک کاموں پر جو دکھلاوے کے لیے ہوں ثواب کے بدلے اور الٹا عذاب دوزخ کا ہو گا۔ علاج اس کا وہی ہے جو کہ نام اور تعریف چاہنے کا علاج ہے جس کو ہم اوپر لکھ چکے ہیں۔ کیونکہ دکھلاوا اسی واسطے ہوتا ہے کہ میر انام ہو اور میری تعریف ہو۔


ضروری بتلانے کے قابل بات

ان بری باتوں کے جو علاج بتلائے گئے ہیں ان کو دو چار بار برت لینے سے کام نہیں چلتا۔ اور یہ برائیاں نہیں دور ہوتیں مثلاً غصے کو دو چار بار روک لیا تو اس سے بیماری کی جڑ نہیں گئی یا ایک آدھ بار غصہ نہ یا تو اس دھوکے میں نہ آئے کہ میرا نفس سنور گیا ہے بلکہ بہت دنوں تک ان علاجوں کو برتے۔ اور جب غفلت ہو جائے افسوس اور رنج کرے اور آگے کو خیال رکھے۔ مدتوں کے بعد انشاء اللہ تعالی ان برائیوں کی جڑ جاتی رہے گی۔


ایک اور ضروری کام کی بات

نفس کے اندر کی جتنی برائیاں ہیں اور ہاتھ پاؤں سے جتنے گناہ ہوتے ہیں ان کے علاج کا ایک آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ جب نفس سے کوئی شرارت اور برائی یا گناہ کا کام ہو جائے اس کو کچھ سزا دیا کرے۔ اور دو سزائیں آسان ہیں کہ ہر شخص کر سکتا ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ اپنے ذمہ کچھ آنہ دو آنے روپیہ دو روپے جیسی حیثتآ ہو جرمانے کے طور پر ٹھہرا لے۔ جب کبھی کوئی بری بات ہو جایا کرے وہ جرمانہ غریبوں کو بانٹ دیا کرے اگر پھر ہو۔ پھر اسی طرح کرے۔ دوسری سزا یہ ہے کہ ایک دو وقت کھانا نہ کھایا کرے۔ اللہ تعالی سے امید ہے کہ اگر کوئی ان سزاؤں کو نباہ کر برتے انشاء اللہ تعالی سب برائیاں چھوٹ جائیں گی اچھی باتوں کا بیان ہے جن سے دل سنورتا ہے۔


توبہ اور اس کا طریقہ

توبہ ایسی اچھی چیز ہے کہ اس سے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور جو آدمی اپنی حالت میں غور کرے گا۔ کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی بات گناہ کی ہو جاتی ہے ضرور توبہ کو ہر وقت ضروری سمجھے گا۔ طریقہ اس کے حاصل کرنے کا یہ ہے کہ قرآن اور حدیث میں جو جو عذاب کے ڈراوے گناہوں پر آئے ہیں ان کو یاد کرے اور سوچے اس سے گناہ پر دل دکھے گا۔ اس وقت چاہیے کہ زبان سے بھی توبہ کرے اور جو نماز روزہ وغیرہ قضا ہوا ہو اس کو قضا بھی کرے۔ اگر بندوں کے حقوق ضائع ہوئے ہیں ان سے معاف بھی کرا لے یا ادا کرے اور جو ویسے ہی گناہ ہوں ان پر خوب کڑھے اور رونے کی شکل بنا کر خدائے تعالی سے خوب معافی مانگے۔


خدائے تعالی سے ڈرنا اور اس کا طریقہ

اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ مجھ سے ڈرو۔ اور خوف ایسی اچھی چیز ہے کہ آدمی اس کی بدولت گناہوں سے بچتا ہے۔ طریقہ اس کا وہی ہے جو طریقہ توبہ کا ہے کہ خدائے تعالی کے عذاب کو سچا کرے اور یاد کیا کرے۔


اللہ تعالی سے امید رکھنا اور اس کا طریقہ

اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ تم حق تعالی کی رحمت سے نا امید ہو۔ اور امید ایسی اچھی چیز ہے کہ اس سے نیک کاموں کے لیے دل بڑھتا ہے اور توبہ کرنے کی ہمت ہوتی ہے۔ طریقہ اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت کو یاد کیا کرے اور سوچا کرے۔


صبر اور اس کا طریقہ

نفس کو دین کی بات پر پابند رکھنا اور دین کے خلاف اس سے کوئی کام نہ ہونے دینا اس کو صبر کہتے ہیں۔ اور اس کے کئی موقعے ہیں۔ ایک موقع یہ ہے کہ آدمی چین امن کی حالت میں ہو۔ خدائے تعالی نے صحت دی ہو۔ مال دولت عزت برو نوکر چاکر مال اولاد گھر بار سازو سامان دیا ہو۔ ایسے وقت کا صبر یہ ہے کہ دماغ خراب نہ ہو۔ خدائے تعالی کو نہ بھول جائے۔ غریبوں کو حقیر نہ سمجھے ان کے ساتھ نرمی اور احسان کرتا رہے دوسرا موقع عبادت کا وقت ہے کہ اس وقت نفس سستی کرتا ہے جیسے نماز کے لیے اٹھنے میں یا نفس کنجوسی کرتا ہے جیسے زکوٰۃ خیرات دینے میں ایسے موقع میں تین طرح کا صبر درکار ہے۔ ایک عبادت سے پہلے کہ نیت درست رکھے۔ اللہ ہی کے واسطے وہ کام کرے نفس کی کوئی غرض نہ ہو۔ دوسرے عبادت کے وقت کہ کم ہمتی نہ ہو جس طرح اس عبادت کا حق ہے اسی طرح ادا کرے۔ تیسرے عبادت کے بعد کہ اس کو کسی کے روبرو ذکر نہ کرے۔ تیسرا موقع گناہ کا وقت ہے۔ اس وقت کا صبر یہ ہے کہ نفس کو گناہ سے روکے۔ چوتھا موقع وہ وقت ہے کہ اس شخص کو کوئی مخلوق تکلیف پہنچائے برا بھلا کہے اس وقت کا صبر یہ ہے کہ بدلہ نہ لے خاموش ہو جائے۔ پانچواں موقع مصیبت اور بیماری اور مال کے نقصان یا کسی عزیز و قریب کے مر جانے کا ہے۔ اس وقت کا صبر یہ ہے کہ زبان سے خلاف شرع کلمہ نہ کہے بیان کر کے نہ روئے۔ طریقہ سب قسم کے صبروں کا یہ ہے کہ ان سب موقعوں کے ثواب کو یاد کرے اور سمجھے کہ یہ سب باتیں میرے فائدے کے واسطے ہیں۔ اور سوچے کہ بے صبری کرنے سے تقدیر تو ٹلتی نہیں۔ ناحق ثواب بھی کیوں کھویا جائے۔


شکر اور اس کا طریقہ

خدائے تعالی کی نعمتوں سے خوش ہو کر خدائے تعالی کی محبت دل میں پیدا ہونا اور اس محبت سے یہ شوق ہونا کہ جب وہ ہم کو ایسی ایسی نعمتیں دیتے ہیں تو ان کی خوب عبادت کرو۔ اور ایسی نعمت دینے والے کی نافرمانی بڑے شرم کی بات ہے۔ یہ خلاصہ ہے سکر کا۔ یہ ظاہر ہے کہ بندے پر ہر وقت اللہ تعالی کی ہزاروں نعمتیں ہیں۔ اگر کوئی مصیبت بھی ہے تو اس میں بھی بندے کا فائدہ ہے تو وہ بھی نعمت ہے۔ جب ہر وقت نعمت ہے تو ہر وقت دل میں یہ خوشی اور محبت رہنا چاہیے کہ کبھی خدائے تعالی کے حکم کے بجا لانے میں کمی نہ کرنی چاہیے۔ طریقہ اس کا یہ ہے کہ خدائے تعالی کی نعمتوں کو یاد کیا کرے اور سوچا کرے۔


خدائے تعالی پر بھروسہ رکھنا اور اس کا طریقہ

یہ ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ بدون خدائے تعالی کے ارادے کے نہ کوئی نفع حاصل ہو سکتا ہے۔ نہ نقصان پہنچ سکتا ہے اس واسطے ضرور ہوا کہ جو کام کرے اپنی تدبیر پر بھروسہ نہ کرے۔ نظر خدائے تعالی پر رکھے اور اسی مخلوق سے زیادہ امید نہ رکھے نہ کسی سے زیادہ ڈرے یہ سمجھ لے بدون خدا کے چاہے کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ اس کو بھروسہ اور توکل کہتے ہیں طریقہ اس کا یہی ہے کہ اللہ تعالی کی قدرت اور حکمت کو اور مخلوق کے ناچیز ہونے کو خوب سوچا اور یاد کیا کرے۔


خدائے تعالی سے محبت کرنا اور اس کا طریقہ

اللہ تعالی کی طرف دل کا کھینچنا اور اللہ تعالی کی باتوں کو سن کر اور ان کے کاموں کو دیکھ کر دل کو مزہ نا یہ محبت ہے طریقہ اس کا یہ ہے کہ اللہ کا نام بہت کثرت سے پڑھا کرے اور ان کی خوبیوں کو یاد کیا کرے اور ان کو جو بندے کے ساتھ محبت ہے اس کو سوچا کرے۔


خدائے تعالی کے حکم پر راضی رہنا اور اس کا طریقہ

جب مسلمان کو یہ معلوم ہے کہ خدائے تعالی کی طرف سے جو کچھ ہوتا ہے سب میں بندے کا فائدہ اور ثواب ہے تو ہر بات پر راضی رہنا چاہیے۔ نہ گھبرائے نہ شکایت حکایت کرے۔ طریقہ اس کا اسی بات کا سوچنا ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے سب بہتر ہے۔


صدق یعنی سچی نیت اور اس کا طریقہ

دین کا جو کوئی کام کرے اس میں کوئی دنیا کا مطلب نہ ہو نہ تو دکھلاوا ہو نہ ایسا کوئی مطلب ہو جیسے کسی کے پیٹ میں گرانی ہے اس نے کہا لاؤ روزہ رکھ لیں۔ روزے کا روزہ ہو جائے گا اور پیٹ ہلکا ہو جائے گا یا نماز کے وقت پہلے سے وضو ہو مگر گرمی بھی ہے اس لیے وضو تازہ کر لیا کہ وضو بھی تازہ ہو جائے گا اور ہاتھ پاؤں بھی ٹھنڈے ہو جائیں گے۔ یا کسی سائل کو دیا کہ اس کے تقاضے سے جان بچی اور یہ بلا ٹلی۔ یہ سب باتیں سچی نیت کے خلاف ہیں۔ طریقہ اس کا یہ ہے کہ کام کرنے سے پہلے خوب سوچ لیا کرے اگر کسی ایسی بات کا اس میں میل پائے اس سے دل کو صاف کر لے۔


مراقبہ یعنی دل سے خدا کا دھیان رکھنا اور اس کا بیان

دل سے ہر وقت دھیان رکھے کہ اللہ تعالی کو میرے سب حالوں کی خبر ہے ظاہر کی بھی اور دل کی بھی اگر برا کام ہو گا یا برا خیال لایا جائے گا شاید اللہ تعالی دین میں یا آخرت میں سزا دیں دوسرے عبادت کے وقت یہ دھیان جما لے کہ وہ میری عبادت کو دیکھ رہے ہیں اچھی طرح بجا لانا چاہیے۔ طریقہ اس کا یہی ہے کہ کثرت سے ہر وقت یہ سوچا کرے تھوڑے دنوں میں اس کا دھیان بندھ جائے گا پھر انشاء اللہ تعالی اس سے کوئی بات اللہ تعالی کی مرضی کے خلاف نہ ہو گی۔


قرآن مجید پڑھنے میں دل لگانے کا طریقہ

قاعدہ ہے کہ اگر کوئی کسی سے کہے کہ ہم کو تھوڑا سا قرآن سناؤ دیکھیں کیسا پڑھتی ہو تو اس وقت جہاں تک ہو سکتا ہے خوب بنا کر سنوار کر سنبھال کر پڑھتی ہو اب یوں کیا کرو کہ جب قرآن پڑھنے کا ارادہ کرو پہلے دل میں یہ سوچ لیا کرو کہ گویا اللہ تعالی نے ہم سے فرمائش کی ہے کہ ہم کو سناؤ کیسا پڑھتی ہو اور یوں سمجھو کہ اللہ تعالی خوب سن رہے ہیں اور یوں خیال کرو کہ جب آدمی کے کہنے سے بناسنوار کر پڑھتے ہیں تو اللہ تعالی کے فرمانے سے جو پڑھتے ہیں اس کو تو خوب ہی سنبھال سنبھال کر پڑھنا چاہیے۔ یہ سب باتیں سوچ کر اب پڑھنا شروع کرو۔ اور جب تک پڑھتی رہو یہی باتیں خیال میں رکھو۔ اور جب پڑھنے میں بگاڑ ہونے لگے یا دل ادھر ادھر بٹنے لگے تو تھوڑی دیر کے لیے پڑھنا موقوف کر کے ان باتوں کے سوچنے کو پھر تازہ کر لو انشاء اللہ تعالی اس طریقے سے صحیح اور صاف بھی پڑھا جائے گا اور دل بھی ادھر متوجہ رہے گا۔ اگر ایک مدت تک اسی طرح پڑھو گی تو پھر آسانی سے دل لگنے لگے گا۔


نماز میں دل لگانے کا طریقہ

اتنی بات یاد رکھو کہ نماز میں کوئی کام پڑھنا بے ارادہ نہ ہو بلکہ ہر بات ارادے اور سوچ سے ہو مثلاً اللہ اکبر کہہ کر جب کھڑی ہو تو ہر لفظ پر یوں سوچو کہ میں اب سبحانک اللہم پڑھ رہی ہوں پھر سوچو کہ اب وبحمد کل کہہ رہی ہوں۔ پھر دھیان کرو کہ اب و تبارک اسمک منہ سے نکل رہا ہے۔ اسی طرح ہر لفظ الگ الگ دھیان اور ارادہ کرو پھر الحمد اور سورت میں یوں ہی کرو پھر رکوع میں اسی طرح ہر دفع سبحان ربی العظیم کو سوچ سوچ کر کہو۔ غرض منہ سے جو نکالو دھیان بھی ادھر رکھو۔ ساری نماز میں یہی طریقہ رکھو انشاء اللہ تعالی اس طرح کرنے سے نماز میں کسی طرف نہ بٹے گا۔ پھر تھوڑے دنوں میں آسانی سے جی لگنے لگے کا اور نماز میں مزہ آئے گا۔


پیری مریدی کا بیان

مرید بننے میں کئی فائدے ہیں۔ ایک فائدہ یہ کہ دل کے سنوارنے کے طریقے جو اوپر بیان کیے گئے ہیں ان کے برتاؤ کرنے میں کبھی کم سمجھی سے غلطی ہو جاتی ہے پیر اس کا ٹھیک راستہ بتلا دتا ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ کتاب میں پڑھنے سے بعضی دفعہ اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا کہ پیر کے بتلانے سے ہوتا ہے ایک تو اس کی برکت ہوتی ہے پھر یہ بھی خوف ہوتا ہے کہ اگر کوئی نیک کام میں کمی کی یا کوئی بری بات کی پیر سے شرمندگی ہو گی۔ تیسرا فائدہ یہ کہ پیر سے اعتقاد اور محبت ہو جاتی ہے اور یوں جی چاہتا ہے کہ اس کا طریقہ ہے ہم بھی اس کے موافق چلیں چوتھا فائدہ یہ ہے کہ پیر اگر نصیحت کرنے میں سختی یا غصہ کرتا ہے تو ناگوار نہیں ہوتا۔ پھر اس نصیحت پر عمل کرنے کی زیادہ کوشش ہو جاتی ہے۔ اور بھی بعضے فائدے ہیں جن پر اللہ تعالی کا فضل ہوتا ہے ان کو حاصل ہوتے ہیں اور حاصل ہونے ہی سے معلوم ہوتے ہیں۔ اگر مرید ہونے کا ارادہ ہو تو اول پیر میں یہ باتیں دیکھ لو۔ جس میں یہ باتیں نہ ہوں ان سے مرید نہ ہوں۔ ایک یہ کہ وہ پیر دین کے مسئلے جانتا ہو۔ شرع سے ناواقف نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ اس میں کوئی بات خلاف شرع نہ ہو۔ جو عقیدے تم نے اس کتاب کے پہلے حصہ میں پڑھے ہیں ویسے اس کے عقیدے ہوں جو جو مسئلے اور دل کے سنوارنے کے طریقے تم نے اس کتاب میں پڑھے ہیں کوئی بات اس میں ان کے خلاف نہ ہو۔ تیسرے کمانے کھانے کے لیے پیری مریدی نہ کرتا ہو۔ چوتھے کسی ایسے بزرگ کا مرید ہو جس کو اکثر اچھے لوگ بزرگ سمجھتے ہوں۔ پانچویں اس پیر کو بھی اچھے لوگ اچھا کہتے ہوں۔ چھٹے اس کی تعلیم میں یہ اثر ہو کہ دین کی محبت اور شوق پیدا ہو جائے یہ بات اس کے اور مریدوں کا حال دیکھنے سے معلوم ہو جائے گی۔ اگر دس مریدوں میں پانچ چھ مرید بھی اچھے ہوں تو سمجھو کہ یہ پیر تاثیر والا ہے۔ اور ایک آدھ مرید کے برے ہونے سے شبہ مت کرو۔

اور تم نے جو سنا ہو گا کہ بزرگوں میں تاثیر ہوتی ہے وہ تاثیر یہی ہے۔ اور دوسری تاثیروں کو مت دیکھنا کہ وہ جو کہہ دیتے ہیں اسی طرح ہوتا ہے وہ ایک چھو کر دیتے ہیں تو بیماری جاتی رہتی ہے۔ وہ جس کام کے لیے تعویذ دیتے ہیں وہ کام مرضی کے موافق ہو جاتا ہے۔ وہ اسی توجہ دیتے ہیں کہ آدمی لوٹ پوٹ ہو جاتا ہے۔ ان تاثیروں سے کبھی دھوکا مت کھانا۔ ساتویں اس پیر میں یہ بات ہو کہ دین کی نصیحت کرنے میں مریدوں کا لحاظ ملاحظہ کرتا ہو۔ بیجا بات سے روک دیتا ہو۔ جب کوئی ایسا پیر مل جائے تو اگر تم کنواری ہو تو ماں باپ سے پوچھ کر اور اگر تمہاری شادی ہو گئی ہے تو شوہر سے پوچھ کر اچھی نیت سے یعنی خالص دین کے درست کرنے کی نیت سے مرید ہو جاؤ۔ اور اگر یہ لوگ کسی مصلحت سے اجازت نہ دیں تو مرید ہونا فرض تو ہے نہیں مرید مت بنو۔ البتہ دین کی راہ پر چلنا فرض ہے بدون مرید ہوئے بھی اس راہ پر چلتی رہو۔


اب پیری مریدی کے متعلق بعضی باتوں کی تعلیم کی جاتی ہے

تعلیم پیر کا خوب ادب رکھے۔ اللہ کے نام لینے کا طریقہ وہ جس طرح بتلائے اس کو نباہ کر کرے۔ اس کی نسبت یوں اعتقاد رکھے کہ مجھ کو جتنا فائدہ دل کے درست ہونے کا اس سے پہنچ سکتا ہے اتنا اس زمانے کے کسی بزرگ سے نہیں پہنچ سکتا۔ تعلیم اگر مریدوں کا دل ابھی اچھی طرح نہیں سنوارا تھا کہ پیر کا انتقال ہو گیا تو دوسرے کامل پیر سے جس میں اوپر کی سب باتیں ہوں مرید ہو جائے۔ تعلیم کسی کتاب میں کوئی وظیفہ یا کوئی فقیری کی بات دیکھ کر اپنی عقل سے کچھ نہ کرے پیر سے پوچھ لے۔ اور جو کوئی نئی بات بھلی یا بری دل میں آئے یا کسی بات کا ارادہ پیدا ہو پیر سے دریافت کر لے۔ تعلیم پیر سے بے پردہ نہ ہو اور مرید ہونے کے وقت اس کے ہاتھ میں ہاتھ نہ دے رومال یا کسی اور کپڑے سے یا خالی زبان سے مریدی درست ہے۔ تعلیم اگر غلطی سے کسی خلاف شرع پیر سے مرید ہو جائے یا پہلے وہ شخص اچھا تھا اب بگڑ گیا تو مریدی توڑ ڈالے اور کسی اچھے بزرگ سے مرید ہو جائے لیکن اگر کوئی ہلکی سی بات کبھی کبھار پیر سے ہو جائے تو یوں سمجھے کہ آخر یہ بھی آدمی ہے فرشتہ تو ہے نہیں۔ اس سے غلطی ہو گئی جو توبہ سے معاف ہو سکتی ہے۔ ذرا ذرا سی بات میں اعتقاد خراب نہ کرے۔ البتہ اگر وہ اس بیجا بات پر جم جائے تو پھر مریدی توڑ دے۔ تعلیم پیر کو یوں سمجھنا گناہ ہے کہ اس کو ہر وقت ہمارا سب حال معلوم ہے۔ تعلیم فقیری کی جو ایسی کتابیں ہیں کہ ان کا ظاہری مطلب خلاف شرع ہے ایسی کتابیں کبھی نہ دیکھے۔ اسی طرح جو شعر اشعار خلاف شرع ہیں ان کو کبھی زبان سے نہ پڑھے۔ تعلیم بعضے فقیر کہا کرتے ہیں کہ شرع کا راستہ اور ہے اور فقیری کا راستہ اور ہے۔ یہ فقیر گمراہ ہیں۔ ان کو جھوٹا سمجھنا فرض ہے۔ تعلیم اگر پیر کوئی بات خلاف شرع بتلائے اس پر عمل درست نہیں۔ اگر وہ اس پر ہٹ کرے تو اس سے مریدی توڑ دے۔


تعلیم اگر اللہ تعالی کا نام لینے کی برکت سے دل میں کوئی اچھی حالت پیدا ہو یا اچھے خواب نظر آئیں یا جاگتے میں کوئی آواز یا روشنی معلوم ہو تو بجز اپنے پیر کے کسی سے ذکر نہ کرے نہ کبھی اپنے وظیفوں اور عبادت کا کسی سے اظہار کرے کیونکہ ظاہر کرنے سے وہ دولت جاتی رہتی ہے۔ تعلیم اگر پیر نے کوئی وظیفہ یا ذکر بتلایا اور کچھ مدت تک اس کا اثر یا مزہ دل پر کچھ معلوم نہ ہوا تو اس سے تنگ دل یا پیر سے بد اعتقاد نہ ہو بلکہ یوں سمجھے کہ بڑا اثر یہی ہے کہ اللہ کا نام لینے کا دل میں ارادہ پیدا ہوتا ہے اور اس نیک کام کی توفیق ہوتی ہے اور ایسے اثر کا کبھی دل میں خیال نہ لائے کہ مجھ کو خواب میں بزرگوں کی زیارت ہوا کرے مجھ کو ہونے والی باتیں معلوم ہو جایا کریں۔ مجھ کو خوب رونا آیا کرے۔ مجھ کو عبادت میں ایسی بیہوشی ہو جائے کہ دوسری چیزوں کی خبر ہی نہ رہے کبھی کبھی یہ باتیں بھی ہو جاتی ہیں اور کبھی نہیں ہوتیں اگر ہو جائیں تو خدائے تعالی کا شکر بجا لائے۔ اور اگر وہ ہوں یا ہو کر کم ہو جائیں یا جاتی رہیں تو غم نہ کرے۔ البتہ خدا نہ کرے اگر شرع کی پابندی میں کمی ہونے لگے یا گناہ ہونے لگیں۔ یہ بات البتہ غم کی ہے۔ جلدی ہمت کر کے اپنی حالت درست کرے اور پیر کو اطلاع دے اور وہ جو بتلائیں اس پر عمل کرے۔ تعلیم دوسرے بزرگوں کی یا دوسرے خاندان کی ان میں گستاخی نہ کرے اور نہ جگہ کے مریدوں سے یوں کہے کہ ہمارے پیر تمہارے پیر سے یا ہمارا خاندان تمہارے خاندان سے بڑھ کر ہے ان فضول باتوں سے دل میں اندھیرا پیدا ہوتا ہے۔ تعلیم اگر اپنی کسی پیر بہن پر پیر کی مہربانی زیادہ ہو یا اس کو وظیفہ و ذکر سے زیادہ فائدہ ہو تو اس پر حسد نہ کرے۔


مرید کو بلکہ ہر مسلمان کو اس طرح رات دن رہنا چاہیے

ضرورت کے موافق دین کا علم حاصل کرے خواہ کتاب پڑھ کر یا عالموں سے پوچھ پاچھ کر۔ سب گناہوں سے بچے۔ اگر کوئی گناہ ہو جائے فورا توبہ کرے۔ کسی کا حق نہ رکھے۔ کسی کو زبان سے یا ہاتھ سے تکلیف نہ دے۔ کسی کی برائی نہ کرے۔ مال کی محبت اور نام کی خواہش نہ رکھے نہ بہت اچھے کھانے کپڑے کی فکر میں رہے۔ اگر اس کی خطا پر کوئی ٹوکے تو اپنی بات نہ بنائے فورا اقرار اور توبہ کر لے۔ بدون سخت ضرورت کے سفر نہ کرے۔ سفر میں بہت سی باتیں بے احتیاطی کی ہوتی ہیں۔ بہت سے نیک کام چھوٹ جاتے ہیں۔ وظیفوں میں خلل پڑ جاتا ہے وقت پر کوئی کام نہیں ہوتا۔ بہت نہ ہنسے بہت نہ بولے۔ خاص کر نا محرم سے بے تکلیفی کی باتیں نہ کرے۔ کسی سے جھگڑا تکرار نہ کرے۔ شرع کا ہر وقت خیال رکھے۔ عبادت میں سستی نہ کرے۔ زیادہ وقت تنہائی میں رہے۔ اگر اوروں سے ملنا جلنا پڑے تو سب سے عاجز ہو کر رہے۔ سب کی خدمت کرے برائی نہ جتلائے۔ اور امیروں سے تو بہت ہی کم ملے۔ بد دین آدمی سے دور بھاگے۔ دوسروں کا عیب نہ ڈھونڈے۔ کسی پر بدگمانی نہ کرے اپنے عیبوں کو دیکھا کرے اور ان کی درستی کیا کرے۔ نماز کو اچھی طرح اچھے وقت دل سے پابندی کے ساتھ ادا کرنے کا بہت خیال رکھے۔ دل یا زبان سے ہر وقت اللہ کی یاد میں رہے کسی وقت غافل نہ ہو۔ اگر اللہ کا نام لینے سے مزہ آئے دل خوش ہو تو اللہ تعالی کا شکر بجا لائے۔ بات نرمی سے کرے۔ سب کاموں کے لیے وقت مقرر کر لے اور پابندی سے اس کو نباہے۔ جو کچھ رنج و غم نقصان پیش آئے اللہ تعالی کی طرف سے جانے پریشان نہ ہو اور یوں سمجھے کہ اس میں مجھ کو ثواب ملے گا۔ ہر وقت دل میں دنیا کا حساب کتاب اور دنیا کے کاموں کا ذکر مذکور نہ رکھے بلکہ خیال بھی اللہ ہی کا رکھے۔ جہاں تک ہو سکے دوسروں کو فائدہ پہنچائے خواہ دنیا کا یا دین کا۔ کھانے پینے میں نہ اتنی کمی کرے کہ کمزور یا بیمار ہو جائے نہ اتنی زیادتی کرے کہ عبادت میں سستی ہونے لگے۔


خدائے تعالی کے سوا کسی سے طمع نہ کرے نہ کسی کی طرف خیال دوڑائے کہ فلانی جگہ سے ہم کو یہ فائدہ ہو جائے۔ خدائے تعالی کی تلاش میں بے چین رہے۔ نعمت تھوڑی ہو یا بہت اس پر شکر بجا لائے اور فقر و فاقہ سے تنگ دل نہ ہو۔ جو اس کی حکومت میں ہیں ان کی خطا و قصور سے درگزر کرے۔ کسی کا عیب معلوم ہو جائے تو اس کو چھپائے۔ البتہ اگر کوئی کسی کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے اور تم کو معلوم ہو جائے تو اس شخص سے کہہ دو۔ مہمانوں اور مسافروں اور غریبوں اور عالموں اور درویشوں کی خدمت کرے۔ نیک صحبت اختیار کرے۔ ہر وقت خدائے تعالی سے ڈرا کرے۔ موت کو یاد رکھے۔ کسی وقت بیٹھ کر روز کے روزے اپنے دن بھر کے کاموں کو سچا کرے جو نیکی یاد آئے اس پر شکر کرے گناہ پر توبہ کرے۔ جھوٹ ہرگز نہ بولے۔ جو محفل خلاف شرع ہو وہاں ہرگز نہ جائے۔ شرم و حیا اور بردباری سے رہے۔ ان باتوں پر مغرور نہ ہو کہ میرے اندر ایسی خوبیاں ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا کیا کرے کہ نیک راہ پر قائم رکھیں۔