قیامت کی چھوٹی چھوٹی نشانیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی حدیث میں یہ آئی ہیں۔ لوگ خدائی مال کو اپنی ملک سمجھنے لگیں اور زکوٰۃ کو ڈانڈ کی طرح بھاری سمجھیں اور امانت کو اپنا مال سمجھیں۔ اور مرد بیوی کی تابعداری کرے اور ماں کی نافرمانی کرے اور باپ کو غیر سمجھیں اور دوست کو اپنا سمجھیں۔ اور دین کا علم دنیا کمانے کو حاصل کریں اور سرداری اور حکومت ایسوں کو ملے جو سب میں نکمے ہوں یعنی بد ذات اور لالچی اور بدخلق اور جو جس کام کے لائق نہ ہو وہ کام اس کے سپرد ہو۔ اور لوگ ظالموں کی تعظیم اور خاطر اس خوف سے کریں کہ یہ ہم کو تکلیف نہ پہنچائیں۔ اور شراب کھلم کھلا پی جانے لگے اور ناچنے گانے والی عورتوں کا رواہ ہو جائے اور ڈھولک سارنگی طبلہ اور ایسی چیزیں کثرت سے ہو جائیں اور پچھلے لوگ امت کے پہلے بزرگوں کو برا بھلا کہنے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایسے وقت میں ایسے ایسے عذابوں کے منتظر رہو کہ سرخ آندھی آئے اور بعضے لوگ زمین میں دھنس جائیں اور آسمان سے پتھر برسیں اور صورتیں بدل جائیں یعنی آدمی سور کتے ہو جائیں۔ اور بہت سی آفتیں آگے پیچھے جلدی جلدی اس طرح آنے لگیں جیسے بہت سے دانے کسی تاگے میں پرو رکھے ہوں اور وہ تاگا ٹوٹ جائے اور سب دانے اوپر تلے جھٹ جھٹ گرنے لگیں اور یہ نشانیاں بھی آئی ہیں کہ دین کا علم کم ہو جائے اور جھوٹ بولنا ہنر سمجھا جائے۔ اور امانت کا خیال دلوں میں سے جاتا رہے اور حیا شرم جاتی رہے اور سب طرف کافروں کا رد ہو جائے اور جھوٹے جھوٹے طریقے نکلنے لگیں۔ جب یہ ساری نشانیاں ہو چکیں اس وقت سب ملکوں میں نصاریٰ لوگوں عیسائیوں کی عملداری ہو جائے اور اسی زمانے میں شام کے ملک میں ایک شخص ابو سفیان کی اولاد سے ایسا پیدا ہو کہ بہت سیدوں کا خون کرے اور شام اور مصر میں اس کے حکم احکام چلنے لگیں۔
اسی عرصہ میں روم کے مسلمان بادشاہ کی نصاریٰ کی ایک جماعت سے لڑائی ہو اور نصاریٰ کی ایک جماعت سے صلح ہو جائے دشمن جماعت شہر قسطنطنیہ پر چڑھائی کر کے اپنا عمل دخل کر لیں وہ بادشاہ اپنا ملک چھوڑ کر شام کے ملک میں چلا جائے اور نصاریٰ کی جس جماعت سے صلح اور میل ہو اس جماعت کو اپنے ساتھ شامل کر کے اس دشمن جماعت سے بڑی بھاری لڑائی ہو۔ اور اسلام کے لشکر کو فتح ہو۔ ایک دن بیٹھے بٹھلائے جو نصاریٰ موافق تھے ان میں سے ایک شخص ایک مسلمان کے سامنے کہنے لگے کہ ہماری صلیب کی برکت سے فتح ہوئی مسلمان اس کے جواب میں کہے کہ اسلام کی برکت سے فتح ہوئی۔ اسی میں بات بڑھ جائے یہاں تک کہ دونوں آدمی اپنے اپنے مذہب والوں کو پکار کر جمع کر لیں اور آپس میں لڑائی ہونے لگے۔ اس میں اسلام کا بادشاہ شہید ہو جائے اور شام کے ملک میں بھی نصاریٰ کا عمل دخل ہو جائے۔ اور یہ نصاریٰ اسی دشمن جماعت سے صلح کر لیں۔ اور بچے کھچے مسلمان مدینہ کو چلے جائیں اور خیبر کے پاس تک نصاریٰ کی عملداری ہو جائے اس وقت مسلمانوں کو فکر ہو کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کو تلاش کرنا چاہیے تاکہ ان مصیبتوں سے جان چھوٹے۔ اس وقت حضرت امام مہدی علیہ السلام مدینہ منورہ میں ہوں گے اور اس ڈر سے کہ کہیں حکومت کے لیے میرے سر نہ ہوں مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کو چلے جائیں گے۔ اور اس مانے کے ولی جو ابدال کا درجہ رکھتے ہیں سب حضرت امام کی تلاش میں ہوں گے اور بعضے لوگ جھوٹ موٹ بھی دعوی مہدی ہونے کا کرنا شروع کر دیں گے۔ غرض امام خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوں گے اور حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان میں ہوں گے اور بعضے نیک لوگ ان کو پہچان لیں گے اور ان کو زبردستی گھیر گھار کر ان سے حاکم بنانے کی بیعت کر لیں گے اور اسی بیعت میں ایک آواز آسمان سے آئے گی جس کو سب لوگ جتنے وہاں موجود ہوں گے سنیں گے۔
وہ آواز یہ ہو گی کہ یہ اللہ تعالی کے خلیفہ یعنی حاکم بنائے ہوئے امام مہدی ہیں اور حضرت امام کے ظہور سے بڑی نشانیاں قیامت کی شروع ہوتی ہیں غرض جب آپ کی بیعت کا قصہ مشہور ہو گا تو مدینہ منورہ میں جو فوجیں مسلمانوں کی ہوں گی وہ مکہ چلی آئیں گی۔ اور ملک شام اور عراق اور یمن کے ابدال اور اولیاء سب آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور بھی عرب کی بہت فوجیں اکٹھی ہو جائیں گی۔ جب یہ خبر مسلمانوں میں مشہور ہو گی۔
ایک شخص خراسان سے حضرت امام کی مدد کے واسطے ایک بڑی فوج لے کر چلے گا۔ جس کے لشکر کے آگے چلنے والے حصے کے سردار کا نام منصور ہو گا۔ اور راہ میں بہت سے بد دینوں کی صفائی کرتا جائے گا۔ اور جس شخص کا اوپر ذکر آیا ہے کہ ابو سفیان کی اولاد میں ہو گا۔ اور سیدوں کا دشمن ہو گا۔ چونکہ حضرت امام بھی سید ہوں گے وہ شخص حضرت امام کے لڑنے کو ایک فوج بھیجے گا جب یہ فوج مکہ مدینہ کے درمیان کے جنگل میں پہنچے گی اور ایک پہاڑ کے تلے ٹھیرے گی تو یہ سب کے سب زمین میں دھنس جائیں گے۔ صرف دو آدمی بچ جائیں گے جن میں سے ایک تو حضرت امام کو جا کر خبر دے گا۔ اور دوسرا اس سفیانی کو خبر پہنچائے گا اور نصاریٰ سب طرف سے فوجیں جمع کریں گے اور مسلمانوں سے لڑنے کی تیاری کریں گے۔ اس لشکر میں اس روز اسی جھنڈے میں ہوں گے اور ہر جھنڈے کے ساتھ بارہ ہزار آدمی ہوں گے تو کل آدمی نو لاکھ ساٹھ ہزار ہوئے۔ حضرت امام مکہ سے چل کر مدینہ تشریف لائیں گے اور وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار شریف کی زیارت کر کے شام کے ملک کو روانہ ہوں گے اور شہر دمشق تک پہنچنے پائیں گے کہ دوسری طرف سے نصاریٰ کی فوج مقابلہ میں آ جائے گی۔ حضرت امام کی فوج تین حصے ہو جائے گی۔ ایک حصہ تو بھاگ جائے گا۔ ایک حصہ شہید ہو جائے گا۔ اور ایک حصہ کو فتح ہو گی اور اس شہادت اور فتح کا قصہ یہ ہو گا کہ حضرت امام نصاریٰ سے لڑنے کو لشکر تیار کریں گے۔ اور بہت سے مسلمان آپس میں قسم کھائیں گے کہ بے فتح کیے ہوئے نہ ہٹیں گے پس سارے آدمی شہید ہو جائیں گے۔ صرف تھوڑے سے آدمی بچیں گے جن کو لے کر حضرت امام اپنے لشکر میں چلے آئیں گے۔ اگلے دن پھر اسی طرح کا قصہ ہو گا کہ قسم کھا کر جائیں گے اور تھوڑے سے بچ کر آئیں گے۔ اور تیسرے دن بھی ایسا ہی ہو گا۔ آخر چوتھے روز یہ تھوڑے سے آدمی مقابلہ کریں گے اور اللہ تعالی فتح دیں گے۔ اور پھر کافروں کے دماغ میں حوصلہ حکومت کا نہ رہے گا۔
اب حضرت امام ملک کا بندوبست شروع کریں گے اور سب طرف فوجیں روانہ کریں گے اور خود ان سارے کاموں سے نمٹ کر قسطنطنیہ فتح کرنے کو چلیں گے جب دریائے روم کے کنارے پر پہنچیں گے بنو اسحاق کے ستر ہزار آدمیوں کو کشتیوں پر سوار کر کے اس شہر کے فتح کرنے کے واسطے تجویز کریں گے جب یہ لوگ شہر کی فصیل کے مقابل پہنچیں گے اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر بآوز بلند کہیں گے اس نام کی برکت سے شہر پناہ کے سامنے کے دیوار گر پڑے گی اور مسلمان حملہ کر کے شہر کے اندر گھس پڑیں گے اور کفار کو قتل کریں گے اور خوب انصاف اور قاعدے سے ملک کا بندوبست کریں گے۔ اور حضرت امام سے جب بتح ہوئی تھی اس وقت سے اس فتح تک چھ سال یا سات سال کی مدت گزرے گی۔ حضرت امام یہاں کے بندوبست میں لگے ہوں گے کہ ایک جھوٹی خبر مشہور ہو گی کہ یہاں کیا بیٹھے ہو وہاں شام میں دجال گیا۔ اور تمہارے خاندان میں فتنہ و فساد کر رہا ہے اس خبر پر حضرت امام شام کی طرف سفر کریں گے اور تحقیق حال کے واسطے نو یا پانچ سواروں کو آگے بھیج دیں گے۔ ان میں سے ایک شخص کر خبر دے گا کہ وہ خبر محض غلط تھی ابھی دجال نہیں نکلا حضرت امام کو اطمینان ہو جائے گا۔ اور پھر سفر میں جلدی نہ کریں گے اطمینان کے ساتھ درمیان کے ملکوں کا بندوبست دیکھتے بھالتے شام میں پہنچیں گے وہاں پہنچ کر تھوڑے ہی دن گزریں گے کہ دجال بھی نکل پڑے گا۔ اور دجال یہودیوں کی قوم میں سے ہو گا۔ اول شام اور عراق کے درمیان میں سے نکلے گا اور دعوی نبوت کا کرے گا۔ پھر اصفہان میں پہنچے گا۔ اور وہاں کے ستر ہزار یہودی اس کے ساتھ ہو جائیں گے اور خدائی کا دعوی شروع کر دے گا۔ اسی طرح بہت سے ملکوں پر گزرتا ہوا یمن کی سرحد تک پہنچے گا۔ اور ہر جگہ سے بہت سے بددین ساتھ ہوتے جائیں گے یہاں تک کہ مکہ معظمہ کے قریب آ کر ٹھہرے گا۔ لیکن فرشتوں کی حفاظت کی وجہ سے شہر کے اندر نہ جانے پائے گا۔
پھر وہاں سے مدینہ کا ارادہ کرے گا اور وہاں بھی فرشتوں کا پہرہ ہو گا جس سے اندر نہ جانے پائے گا۔ مگر مدینہ کو تین بار ہالن آئے گا۔ ا ور جتنے آدمی دین میں سست اور کمزور ہوں گے سب زلزلہ سے ڈر کر مدینہ سے باہر نکل کھڑے ہوں گے اور دجال کے پھندے میں پھنس جائیں گے اس وقت مدینہ میں کوئی بزرگ ہوں گے جو دجال سے خوب بحث کریں گے دجال جھنجلا کر ان کو اس وقت قتل کر دے گا اور پھر زندہ کر کے پوچھے گا اب تو میرے خدا ہونے کے قائل ہوتے ہو وہ فرمائیں گے کہ اب تو اور بھی یقین ہو گیا کہ تو دجال ہے پھر وہ ان کو مارنا چاہے گا مگر اس کا کچھ بس نہ چلے گا۔ اور ان پر کوئی چیز اثر نہ کرے کی وہاں سے دجال ملک شام کو روانہ ہو گا۔
جب دمشق کے قریب پہنچے گا اور حضرت امام وہاں پہلے سے پہنچ چکے ہوں گے اور لڑائی کے سامان میں مشغول ہوں گے کہ عصر کا وقت آ جائے گا اور مؤذن اذان کہے گا اور لوگ نماز کی تیاری میں ہوں گے کہ اچانک حضرت عیسی علیہ السلام دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے آسمان سے اترتے نظر آئیں گے اور جامع مسجد کی مشرق کی طرف کے منارے پر آ کر ٹھیریں گے اور وہاں سے زینہ لگا کر نیچے تشریف لائیں گے۔ حضرت امام سب لڑائی کا سامان ان کے سپرد کرنا چاہیں گے۔ وہ فرمائیں گے لڑائی کا انتظام آپ ہی رکھیں میں خاص دجال کے قتل کرنے کو آیا ہوں۔ غرض جب رات گزر کر صبح ہو گی حضرت امام لشکر کو آراستہ فرمائیں گے اور حضرت عیسی علیہ السلام ایک گھوڑا ایک نیزہ منگا کر دجال کی طرف بڑھیں گے اور اہل اسلام دجال کے لشکر پر حملہ کریں گے اور بہت سخت لڑائی ہو گی اور اس وقت حضرت عیسی علیہ السلام کے سانس میں یہ تاثیر ہو گی کہ جہاں تک نگاہ جائے وہاں تک سانس پہنچ سکے اور جس کافر کو سانس کی ہوا لگا دیں وہ فورا ہلاک ہو جائے دجال حضرت عیسی علیہ السلام کو دیکھ کر بھاگے گا۔ آپ اس کا پیچھا کریں گے۔ یہاں تک کہ باب لد ایک مقام ہے وہاں پہنچ کر نیزے سے اس کا کام تمام کریں گے اور مسلمان دجال کے لشکر کو قتل کرنا شروع کریں گے۔ پھر حضرت عیسی علیہ السلام شہروں شہروں تشریف لے جا کر جتنے لوگوں کو دجال نے ستایا تھا سب کی تسلی کریں گے اور خدائے تعالی کے فضل سے اس وقت کوئی کافر نہ رہے گا۔ پھر حضرت امام کا انتقال ہو جائے گا۔ اور سب بندوبست حضرت عیسی علیہ السلام کے ہاتھ میں آ جائے گا۔ پھر یاجوج ماجوج نکلیں گے ان کے رہنے کی جگہ شمال کی طرف آبادی ختم ہوئی ہے اس سے بھی آگے سات ولایت سے باہر ہے اور ادھر کا سمندر زیادہ سردی کی وجہ سے ایسا جما ہوا ہے کہ اس میں جہاز بھی نہیں چل سکتا۔
حضرت عیسی علیہ السلام مسلمانوں کو خدائے تعالی کے حکم کے موافق طور پہاڑ پر لے جائیں گے اور یاجوج ماجوج بڑا ادھم مچائیں گے۔ آخر کو اللہ تعالی ان کو ہلاک کریں گے اور عیسی علیہ السلام پہاڑ سے اتر آئیں گے اور چالیس برس کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام وفات فرمائیں گے اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ میں دفن ہوں گے اور آپ کی گدی پر ایک شخص ملک یمن کے رہنے والے بیٹھیں گے جن کا نام جہجاج ہو گا اور قحطان کے قبیلے سے ہوں گے اور بہت دیندار اور انصاف کے ساتھ حکومت کریں گے۔ ان کے بعد آگے پیچھے اور کئی بادشاہ ہوں گے پھر رفتہ رفتہ نیک باتیں کم ہونا شروع ہوں گی اور بری باتیں بڑھنے لگیں گی اس وقت آسمان پر ایک دھواں سا چھا جائے گا اور زمین پر برسے گا۔ جس سے مسلمانوں کو زکام اور کافروں کو بیہوشی ہو گی۔ چالیس روز کے بعد آسمان صاف ہو جائے گا اور اسی زمانہ کے قریب بقر عید کا مہینہ ہو گا۔ دسویں تاریخ کے بعد دفعتہ ایک رات اتنی لمبی ہو گی کہ مسافروں کا دل گھبرا جائے گا اور بچے سوتے سوتے اکتا جائیں گے اور چوپائے جنگل میں جانے کے لیے چلانے لگیں گے اور کسی طرح صبح نہ ہو گی۔ یہاں تک کہ تمام آدمی ہیبت اور گھبراہٹ سے بیقرار ہو جائیں گے۔ جب تین راتوں کی برابر وہ رات ہو چکے گی اس وقت سورج تھوڑی روشنی لیے ہوئے جیسے گہن لگنے کے وقت ہوتا ہے مغرب کی طرف سے نکلے گا اس وقت کسی کا ایمان یا توبہ قبول نہیں ہو گی۔ جب سورج اتنا اونچا ہو جائے گا جتنا دوپہر سے پہلے ہوتا ہے پھر خدائے تعالی کے حکم سے مغرب ہی کی طرف لوٹے گا اور دستور کے موافق غروب ہو گا۔
پھر ہمیشہ اپنے قدیم قاعدے کے موافق روشن اور رونق دار نکلتا رہے گا اس کے تھوڑے ہی دن کے بعد صفا پہاڑ جو مکہ میں ہے زلزلہ آ کر پھٹ جائے گا اور اس جگہ سے ایک جانور بہت عجیب شکل و صورت کا نکل کر لوگوں سے باتیں کرے گا اور بڑی تیزی سے ساری زمین میں پھر جائے گا اور ایمان والوں کی پیشانی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا سے نورانی لکیر کھینچ دے گا جس سے سارا چہرہ اس کا روشن ہو جائے گا اور بے ایمانوں کی ناک یا گردن پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی سے سیاہ مہر کر دے گا جس سے اس کا چہرہ میلا ہو جائے گا اور یہ کام کر کے وہ غائب ہو جائے گا۔ اس کے بعد جنوب کی طرف سے ایک ہوا نہایت فرحت دینے والی چلے گی اس سے سب ایمان والوں کی بغل میں کچھ نکل آئے گا جس سے وہ مر جائیں گے۔ جب سب مسلمان مر جائیں گے اس وقت کافر حبشیوں کا ساری دنیا میں عمل دخل ہو جائے گا اور وہ لوگ خانہ کعبہ کو شہید کریں گے اور حج بند ہو جائے گا اور قرآن شریف دلوں سے اور کاغذوں سے اٹھ جائے گا اور خدا کا خوف اور خلقت کی شرم سب اٹھ جائے گی اور کوئی اللہ اللہ کہنے والا نہ رہے گا۔ اس وقت ملک شام میں بہت ارزانی ہو گی لوگ اونٹوں پر سواریوں پر پیدل ادھر جھک پڑیں گے اور جو رہ جائیں گے ایک آگ پیدا ہو گی اور سب کو ہانکتی ہوئی شام میں پہنچائے گی۔ اور حکمت اس میں یہ ہے کہ قیامت کے روز سب مخلوق اسی ملک میں جمع ہو گی پھر وہ آگ غائب ہو جائے گی اور اس وقت دنیا کو بڑی ترقی ہو گی۔ تین چار سال اسی حال سے گزریں گے کہ دفعۃ جمعہ کے دن محرم کی دسویں تاریخ صبح کے وقت سب لوگ اپنے اپنے کام میں لگے ہوں گے کہ صور پھونکا دیا جائے گا۔ اول ہلکی ہلکی آواز ہو گی پھر اس قدر بڑھے گی کہ اس کی ہیبت سے سب مر جائیں گے۔ زمین و آسمان پھٹ جائیں گے اور دنیا فنا ہو جائے گی۔ اور جب آیت مغرب سے نکلا تھا اس وقت سے صور کے پھونکنے تک ایک سو بیس برس کا زمانہ ہو گا۔
اب یہاں سے قیامت کا دن شروع ہو گیا۔