عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اللہ لا ینظر الی اجسامکم ولا الی صورکم ولکن ینظر الی قلوبکم۔ رواہ مسلم ترجمہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شبہ حق تعالی نہیں دیکھتے یعنی توجہ نہیں فرماتے فقط تمہارے جسموں کی طرف اور نہیں دیکھتے فقط تمہاری صورتوں کی طرف۔ اور یہ خیال نہ کرو کہ جب ظاہری اعمال جو فقط ظاہری اعضاء سے ادا کیے جائیں اور ان میں قلب کو توجہ نہ ہو مقبول نہیں تو اعمال قلبیہ بھی مقبول نہ ہوں گے۔ ا ور نیز ظاہری اعمال مقبول ہونے کی کوئی صورت ہی نہیں اس لیے کہ فرماتے ہیں لیکن دیکھتے ہیں تمہارے دلوں کی طرف مطلب یہ ہے کہ حق تعالی ایسے اعمال کو قبول نہیں کرتے جو فقط ظاہر ہی میں اچھے معلوم ہوتے ہوں اور اخلاص اور توجہ قلبی سے خالی ہوں مثلاً کوئی عبادت کرے اور بظاہر تو عبادت میں مشغول ہے مگر دل میں غفلت چھا رہی ہے اور دل میں تمیز نہیں ہوتی کہ خدا کے سامنے کھڑا ہے یا کوئی اور کام کر رہا ہے تو ایسے اعمال مقبول نہیں ہوتے اور یہ غرض نہیں ہے کہ ظاہری اعمال کا بالکل اعتبار ہی نہیں بلکہ اعتبار ہے لیکن اس شرط سے کہ توجہ اور اخلاص قلبی بھی اس کے ساتھ ہو جیسا کہ حدیث و قرآن اعمال کا بالکل اعتبار ہی نہیں بلکہ اعتبار ہے لیکن اس شرط سے کہ توجہ اور اخلاص قلبی بھی اس کے ساتھ ہو جیسا کہ حدیث و قرآن سے ثابت ہے کیونکہ قلب خاص محل نظر الٰہی ہے اور جس طرح اس کو ظاہری طبی تشریح میں سلطان البدن ہونے کا شرف حاصل ہے اسی طرح روحانی اور باطنی تشریح میں بھی ملک الجوارح ہونے کا فخر میسر ہے جب تک اس کی حالت درست نہ ہو گی کوئی صورت فلاح اور نجات کی حاصل نہیں ہو سکتی۔

مثلاً کوئی ظاہر میں مسلمان ہو دل سے نہ ہو تو اس کو اسلام کا خداوند کریم کے نزدیک کچھ بھی اعتبار نہیں اور علی ہذا القیاس کوئی محض دکھانے یا ایسی ہی اور کسی غرض فاسد کے لیے نماز صدقہ وغیرہ عبادت کرے تو وہ کسی درجہ میں بھی شمار نہیں۔ پس معلوم ہوا کہ فلاحیت دارین اور مقبولیت عنداللہ تعالی کا مدار اصلاح قلب پر ہے۔ لوگوں نے آجکل اس میں بہت بڑی کوتاہی کر رکھی ہے۔ فقط ظاہری اعمال تو تھوڑے بہت کرتے بھی ہیں اور ان کا علم بھی حاصل کرتے ہیں مگر باطنی اصلاح اور قلب کی درستی و اصلاح کی کچھ بھی فکر نہیں گویا کہ یوں خیال کرتے ہیں کہ اصلاح باطن اور ریا و کینہ و حسد وغیرہ کا علاج اور اس سے محفوظ ہونا کچھ ضروری نہیں فقط ظاہری اعمال کو واجب سمجھتے ہیں اور ان کو نجات کے لیے کافی خیال کرتے ہیں حالانکہ اصلی مقصود اصلاح قلب ہے جیسا کہ اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے اور اعمال ظاہری ذریعہ ہیں قلب کے درست ہونے کا۔ اور ظاہر اور باطن میں کچھ ایسا قدرتی علاقہ ہے کہ بغیر ظاہری حالت درست کیے ہوئے باطنی حالت درست نہیں ہوتی۔ اور جب تک ظاہری اعمال پر دوام ہمیشگی اور پابندی نہ ہو اصلاح باطنی دائم نہیں رہتی۔

اور جب باطنی حالت درست ہو جاتی ہے تو ظاہری اعمال خوب اچھی طرح ادا ہوتے ہیں اور یہاں سے کوئی بے عقل یہ شبہ نہ کرے کہ ظاہری اعمال کی فقط اس وقت تک حاجت ہے جب تک کہ قلب کی حالت درست نہیں ہوتی اور جب قلب درست ہو گیا تو پھر ظاہری اعمال کی کچھ حاجت نہیں خواہ کریں یا نہ کریں اس لیے کہ یہ عقیدہ کفر ہے اور وجہ اس کے باطل ہونے کی یہ ہے کہ جب قلب درست ہو گا تو وہ حتی المقدور ہر وقت طاعت الٰہی میں مصروف رہے گا اور یہی علامت ہے اس کے درست ہونے کی کیونکہ مقصود اصلاح قلب ہے یہی ہے کہ طاعت الٰہی ہو اور اس کا شکر کیا جائے اور پروردگار کی نافرمانی اور ناشکری نہ ہو اور نماز روزہ وغیرہ کا اطاعت الٰہی میں داخل ہونا بہت ظاہر ہے تو جب یہ طاعات چھوڑ دی گئیں تو پھر قلب کہاں درست رہا اگر درست رہتا تو شب و روز مثل اولیاء کرام اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے طاعت الٰہی میں ضرور مصروف رہتا کیا نعوذ باللہ کسی بے عقل اور احمق کو یہ وسوسہ ہو سکتا ہے کہ کسی کا قلب جناب سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک سے بھی زیادہ صاف اور صالح ہے جو اس کو عبادت ظاہری کی حاجت نہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو باوجود اکمل الکاملین اور افضل المرسلین ہونے کے اس قدر ظاہری اعمال میں مصروف ہوتے تھے جس سے دیکھنے والوں کو بھی رحم آتا تھا اور تا حیات یہی حالت رہی اور آپ کی یہ کیفیت حدیث کی کتابوں میں خوب اچھی طرح مذکور اور مشہور ہے خوب سمجھ لو لہذا مسلمانوں خوب سمجھ لو کہ جس طرح اعمال ظاہریہ مثل صوم و صلوۃ وغیرہ کا ادا کرنا اور ان کے ادا کرنے کا طریقہ جاننا واجب ہے اسی طرح اعمال باطنیہ جیسے صوم و صلوۃ وغیرہ کا ریاء نمود وغیرہ سے محفوظ رکھنا یا کینہ و حسد اور غضب وغیرہ سے قلب کو صاف رکھنا اور ان اعمال کے ادا کرنے کا جاننا بھی واجب ہے جن میں بعض اعمال تو محض قلب سے تعلق رکھتے ہیں جیسے گناہ کا قصد کرنا کینہ یا حسد کرنا اور اخلاص پیدا کرنا اور بعض میں قلب اور دیگر اعضاء بھی شریک ہیں جیسے صلوۃ و صوم و حج و صدقہ وغیرہ صرح بہ الامام الغزالی واقرہ علیہ العلامۃ ابن عابدین اور حدیث میں ہے۔ رکعتان من رجل ورع ای متوقی الشبہات افضل من الف رکعۃ من مخلط ای لایتقی الشبہات والظاہر ان المراد بالالف التکثیر لا التحدید فرعن انس قال الشخ  حدیث حسن لغیرۃ کذافی العزیزی شرح الجامع الصغیر یعنی دو رکعت نماز ایسے پرہیزگار کی جو شبہ کی چیزوں سے بھی بچتا ہو اس شخص کی ہزار رکعت نماز سے افضل ہے جو شبہ کی چیزوں سے نہ بچے۔ آہ ظاہر ہے کہ یہ فضیلت بغیر صفائی قلب اور اصلاح باطن کے میسر نہیں ہو سکتی جو امراض باطنی سے تندرست نہیں وہ تو واجبات بھی ٹھیک طور سے نہیں ادا کر سکتا۔ اور جو حرام چیزوں سے بچنے پر بھی پورا قادر نہیں پھر مشتبہات چیزوں سے کیسے بچ سکتا ہے جو اس کو یہ فضیلت میسر ہو۔ تقوی اور صفائی باطن کے ساتھ جو کچھ بھی عبادت ہوتی ہے وہ باقاعدہ اور مقبول ہوتی ہے اگرچہ وہ تھوڑی ہی کیوں نہ ہو۔

لہذا مسلمان کو لازم ہے کہ ظاہر و باطن کی کامل طور سے اصلاح کرے کہ یہی ذریعہ نجات کا ہے اور فقط ظاہری اعمال کو بغیر درستی باطن کے نجات کے لیے کافی نہ سمجھے۔ دیکھو اگر کوئی شخص بہت سی نمازیں پڑھے اور نیت یہ ہو کہ لوگ ہم کو بزرگ سمجھیں اور ہماری تعریف کریں تو کیا وہ عذاب سے بچ جائے گا حالانکہ نماز تو ایسی چیز ہے کہ اگر کوئی اس کو باقاعدہ اور اخلاص سے محض اللہ تعالی کے لیے ادا کرے تو اس عذاب سے بھی بچ جائے جو ترک نماز پر ہوتا ہے اور ثواب بھی حاصل ہو۔ مگر افسوس کہ اس شخص نے بوجہ مرض ریاء دکھلاوا اور حب ثناء تعریف چاہنے کے اس نماز کو برباد کر دیا۔ پس اس کو چاہیے کہ اپنے ان امراض کا علاج کرے ورنہ عنقریب سخت ہلاکی میں مبتلا ہو جائے گا کیونکہ جب مرض بڑھتا رہے گا اور علاج ہو گا نہیں ظاہر ہے کہ انجام ہلاکت ہو گا۔ بھائیو جب تم بیمار ہو اور تمہارا جسم مریض ہو تو کیا یہ گوارا کرو گے کہ مرض میں مبتلا رہو اور باوجود قدرت کے علاج نہ کرو۔ یہاں تک کہ وہ مرض تم کو ہلا کر دے ہرگز نہیں گوارا کر سکتے حالانکہ اس مرض سے جو تکلیف ہو گی وہ جسمانی تکلیف اور پھر وہ بھی چند روزہ دنیا ہی میں ہے۔ پس جب یہ گوارا نہیں تو روحانی امراض میں مبتلا رہنا جس کی وجہ سے ایسی جگہ تکلیف ہو جہاں ہمیشہ رہنا ہے گوارا کرنا عقل سلیم کے بالکل خلاف ہے۔ لہذا ہر انسان کو لازم ہے کہ جسم و قلب و ظاہر و باطن کی خوب اصلاح کرے اور عقل سلیم سے کام لے کر فلاحیت دارین کو اپنا قبلہ مقصود سمجھنے خوب کہا ہے۔

کیا وہ دنیا جس میں ہو کوشش نہ دیں کے واسطے

واسطے واں کے بھی کچھ یا سب یہیں کے واسطے

حدیث میں ہے عن النعمان بن بشیر مرفوعا فی حدیچ طویل الاوان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ الا وہی القلب متفق علیہ یعنی فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسل نے خبردار ہو اس بات سے کہ بدن میں ایک جزو اور وہ ایک بوٹی ہے۔ جب وہ درست ہوتا ہے تو تمام بدن درست ہوتا ہے اور جب وہ جزو فاسد ہو جاتا ہے تو تمام بدن فاسد اور خراب ہو جاتا ہے اور آگاہ رہو کہ وہ جزو دل ہے۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے مطلب اس حدیث کا یہ ہے کہ اعضاء کی درستی اور اطاعت خداوندی بجا لانا موقوف ہے قلب کی درستی پر کیونکہ قلب سلطان البدن ہے اور رعیت کی اصلاح موقوف ہوتی ہے سلطان کے صالح ہونے پر سوا اعضاء نیک کام جب ہی کریں گے جب کہ قلب صالح ہو۔ لہذا اصلاح قلب میں کوشش کرنا واجب اقرار پایا اس طور کہ اطاعت خداوندی واجب ہے خواہ وہ اطاعت فقط قلب سے تعلق رکھتی ہو یا اس میں قلب کے ساتھ اعضا و جوارح کا بھی دخل ہو اور اطاعت کا صحیح اور مقبول ہونا موقوف ہے صلاحیت قلب پر نتیجہ یہ نکلا کہ اصلاح قلب واجب ہے خوب سمجھ لو۔ دیکھئے شریعت نے ایسی حالت میں جبکہ انسان کو بھوک کی خواہش ہو اور اس حالت میں نماز پڑھنے سے طبیعت پریشان ہو تو یہ حکم دیا ہے کہ ایسی حالت میں نماز پڑھنا مکروہ ہے بلکہ پہلے کھانا کھا لو پھر نماز پڑھو بشرطیکہ نماز کا وقت فوت نہ ہو جائے تو اس میں حکمت یہ ہے کہ مقصود عبادت سے حق تعالی کے سامنے حاضری اور اظہار عبدیت ہے اس طرح کہ ظاہری و باطن اس کے کام میں مشغول ہوں اور غیر اللہ کی طرف حتی الامکان توجہ نہ رہے اور جب بھوک لگ گی ہو تو گو ظاہر بدن نماز میں مشغول ہو گا لیکن قلب پریشان ہو گا اور یہی دل چاہے گا کہ جلدی سے نماز سے فارغ ہو جائیں تاکہ جلد کھانا مل جائے پس حق تعالی کے سامنے جس طرح حاضری چاہیے تھی اس میں بہت بڑا خلل واقع ہو گا۔

اس واسطے اسی حالت میں نماز کو مکروہ کہا گیا جس سے یہ معلوم ہو گیا کہ اصل محل نظر خداوندی قلب ہے اور شریعت مقدسہ نے اس کی اصلاح کا بہت بڑا انتظام کیا ہے بزرگان دین نے اصلاح قلب کے لئے برسوں مجاہدے اور ریاضتیں کی ہیں۔ اس مختصر رسالے میں بوجہ خوف طوالت زیادہ مضمون نہیں لکھا گیا ورنہ کتابیں کی کتابیں اس فن کی موجود ہیں۔ اگر ان کتابوں کا خلاصہ بھی لکھا جائے تو ایک بڑی ضخامت کی کتاب ہو جائے۔ اس حدیث سے قلب کی اصلاح کی بہت بڑی تاکید ثابت ہوتی ہے کہ مدار اصلاح طاعت قلب ہی پر رکھا گیا ہے۔ حدیث میں ہے عن ابن عباس مرفوعا قال رکعتان مقتصدتان خیر من قیام لیلۃ والقلب ساہ روا ابن ابی الدنیا فی التفکر کذا فی کنز العمال۔ یعنی فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ دو رکعت نماز درمیانی طور پر پڑھنا بہتر ہے رات بھر نماز پڑھنے سے ایسی حالت میں کہ قلب غافل ہو۔ اس حدیث کو ابن ابی الدنیا نے تفکر میں روایت کیا ہے مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص دو۔ رکعت نماز پڑھے اور درمیانی طور پر ادا کرے اس طرح کہ اس کے فرائض و واجبات اور سنن کو حضور قلب کے ساتھ ادا کرے گو طویل قرأت وغیرہ نہ ہو ایسی دو رکعتیں نہایت عمدہ اور مقبول ہیں۔ رات بھر غفلت قلب کے ساتھ نماز پڑھنے سے اس حدیث سے اہتمام قلب کی کس قدر تاکید معلوم ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ فی الحقیقت فعل کی کیفیت دیکھی جاتی ہے کہ کیسا کام کیا۔ اور کمیت مطلوب نہیں ہے کہ کتنا کام کیا۔ اگرچہ تھوڑا ہی کام ہو مگر باقاعدہ اور عمدہ ہو تو وہ حق تعالی کے یہاں محبوب اور مقبول ہے۔ اور اگر بہت سا کام ہو لیکن بے قاعدہ اور بے ضابطہ غفلت سے ہو وہ ناپسند ہے خوب سمجھ لو

مانصیحت بجائے خود کردیم

روزگارے دریں بسر بردیم

گرنیاید بگوش رغبت کس

بررسولاں بلاغ باشدو بس