جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ والصلوۃ والسلام کے پیارے اور پاکیزہ شمائل اور آپ کی عادتوں کا بیان

بیہقی نے حضرت براء بن عازب سے روایت کی ہے کہ آپ سب سے زیادہ حسین تھے اور سب سے زیادہ خوش خلق تھے اور نہ بہت لمبے تھے نہ پستہ قد تھے۔ ابن سعد نے اسمعیل بن عیاش سے بطریق صحیح مرسل روایت کیا ہے کہ آپ سب سے زیادہ لوگوں کی ایذا پر صبر فرماتے تھے ترمذی نے ہند بن ابی ہالہ سے ایک بڑی حدیث بسند حسن آپ کے شمائل میں روایت کی ہے جس میں یہ بھی ہے کہ آپ جب چلنے کے لیے پاؤں اٹھاتے تو قوت سے پاؤں اکھڑتا تھا اور قدم اس طرح رکھتے کہ آگے کو جھک پڑتا اور تواضع کے ساتھ قدم بڑھا کر چلتے چلنے میں گویا کسی بلندی سے پستی میں اتر رہے ہیں جب کسی کروٹ کی طرف کی چیز کو دیکھنا چاہتے تو پورے پھر کر دیکھتے یعنی کن انکھیوں سے دیکھنے کی عادت نہ تھی نگاہ نیچی رکھتے زمین کی طرف آپ کی نظر بہت زیادہ رہتی تھی بہ نسبت آسمان کے اور صحابہ کے پیچھے آپ چلا کرتے تھے عموماً عادت آپ کی کن انکھیوں سے دیکھنے کی تھی مطلب یہ ہے غایت حیا سے پورا سرا ٹھا کر نگاہ بھر کر نہ دیکھتے تھے جو آپ کو ملتا تھا پہلے آپ ہی اس کو سلام کرتے تھے ابوداود نے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ آپ کے کلام میں ترتیل ہوتی تھی یعنی آپ ٹھیر ٹھیر کر بات چیت فرماتے تھے تاکہ مخاطب اچھی طرح سمجھ لے لیکن نہ اس قدر ٹھیر ٹھیر کر جس سے مخاطب گھبرا جائے اور ایک حدیث میں آیا ہے کہ آپ ایک بات کو تین بار فرمایا کرتے تھے غرض یہ ہے کہ آپ کلام کو نہایت عمدہ طریق سے ادا فرماتے تھے جیسا موقع ہوتا تھا اس کا لحاظ فرماتے تھے بعضے مخاطب خوش فہم اور جلدی سمجھنے والے ہوتے ہیں وہاں پر ایک بات کو چند بار لوٹانا نا مناسب ہے اور بعضے مخاطب دیر میں بات کو سمجھتے ہیں ان کو کئی بار سنانا مناسب ہے اور جہاں ہر قسم کے لوگ ہوں وہاں تین بار بات کو لوٹانا مناسب ہے اس لیے کہ بعضے اعلی درجہ کے فہیم ہوتے ہیں اور اول ہی دفعہ سمجھ لیں گے اور بعض اوسط درجہ کی سمجھ رکھتے ہیں وہ دو بار میں سمجھ لیں۔


گے اور بعضے غبی ہوتے ہیں وہ تین بار میں بخوبی سمجھ لیں گے اور اگر کہیں اس مقدار سے بھی زیادہ حاجت ہو تو خوش اخلاقی کی بات یہ ہے کہ اس سے بھی دریغ نہ کرے خوب سمجھ لو اصل تو یہ ہے کہ خوش اخلاقی اور قواعد کی پابندی کا اعلی مرتبہ جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوا تھا نہ کسی کو پہلے میسر ہوا اور نہ آئندہ میسر ہو گا اور باوجود قواعد انتظامیہ کی پابندی کے خوش اخلاقی کا برتاؤ بہت بڑا کمال ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت مبارک تھی کہ آپ اس کام میں جس کو خود انجام دیتے تھے۔ خوب اچھی طرح قواعد کی پابندی فرماتے تھے اور دوسروں سے جو ان امور میں غلطی اور کوتاہی ہوتی تھی تو زجر نہ فرماتے ہاں ان کی اصلاح کی غرض سے باقاعدہ اور نرمی سے نصیحت فرما دیتے تھے یہی طریقہ متبعین سنت کو اختیار کرنا چاہیے کہ قواعد انتظامیہ کی پابندی اور خوش اخلاقی کی عادت اختیار کریں اور دوسروں کو بھی رغبت دلا دیں مگر محض اپنے نفس و غضب کی شفاء کے لیے دوسروں کی کوتاہی کی گرفت نہ کریں ہاں ان کی اصلاح کی غرض سے اگر ضرورت ہو تو سختی بھی محمود ہے خوب سمجھ لو


ابوداود نے حضرت عائشہ سے بسند صحیح روایت کی ہے کہ جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام جدا جدا ہوتا تھا جو شخص ا سکو سنتا سمجھ لیتا بیہقی نے حضرت عائشہ سے بسند حسن روایت کی ہے کہ جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام بری عادتوں سے زیادہ جھوٹ ناگوار ہوتا تھا بیہقی اور ابوداؤد اور نسائی نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ آپ کو سب کپڑوں میں بہت محبوب یمنی چادر تھی جس میں کئی رنگ ہوتے ہیں اور عزیزی نے ابن رسلان سے اس کپڑے کے پسندیدہ ہونے میں یہ حکمت نقل کی ہے کہ وہ بہت زینت کا کپڑا نہیں ہے یعنی سادہ ہوتا ہے اور وہ میلا بھی کم ہوتا ہے۔ سبحان اللہ کیا شان مبارک تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آپ اپنی ذات مقدسہ کو دنیا میں مسافر سمجھتے تھے نہ دنیا کی رونق سے تعلق تھا نہ اس کر مزخرفات کی طرف توجہ تھی مسلمانو تم کو بھی یہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ بقدر ضرورت ایسے کپڑے پہن لیا کرو جس سے ستر ڈھک جائے اور جو سادے ہوں اور میلے کم ہوں تاکہ ان کی زینت خدائے تعالی کی طرف توجہ رکھنے سے مانع ہو اور جلدی صاف کرنے کی حاجت نہ ہو کہ اس میں وقت زیادہ صرف ہوتا ہے اور بعضی روایتوں میں سفید کپڑوں کی بھی تعریف آتی ہے بخاری اور ابن ماجہ نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ عبادت زادہ محبوب تھی جو ہمیشہ ادا ہو سکے یعنی نوافل وغیرہ اس قدر پڑھنے چاہئیں جن کو نباہ سکے یہ نہیں کہ ایک دن تو سب کچھ کر لیا اور دوسرے دن کچھ بھی نہیں تھوڑی عبادت جو ہمیشہ ہو سکے وہ اس سے بہتر ہے کہ بہت عبادت کی جائے مگر کبھی ہو اور کبھی ناغہ ہو جائے جیسا کہ بسند صحیح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہوا ہے (السنی) وغیرہ نے مرسلا بسند حسن لغیرہ مجاہد سے روایت کی ہے کہ آپ کو بکری کے گوشت میں اس کا اگلا حصہ زیادہ پسند تھا۔


حاکم وغیرہ نے بسند حسن لغیرہ حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ پینے کی چیزوں میں آپ کو ٹھنڈا اور میٹھا پانی زیادہ محبوب تھا ابو نعیم نے حضرت ابن عباس سے بسند حسن لغیرہ روایت کی ہے کہ آپ کو پینے کی چیزوں میں دودھ بہت زیادہ پسند تھا ابن السنی اور ابو نعیم نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ آپ کو شہد کا شربت پینے کی چیزوں میں بہت زیادہ محبوب تھا۔ ابو نعیم نے حضرت ابن عباس سے بسند حسن لغیرہ روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو تمام سالن سے زیادہ سرکہ محبوب تھا مسلم نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ آپ کو پسینہ زیادہ آتا تھا اور عزیزی میں ہے کہ حضرت ام سلیم جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ کو اکٹھا کر لیتی تھیں اور دوسری خوشبو میں ملا لیتی تھیں کیونکہ وہ خوشبو دار ہوتا تھا اور یہ روایت مسلم میں ہے حضرت جابر سے مسلم نے روایت کی ہے کہ آپ کی ڈاڑھی مبارک کے بال زیادہ تھے۔ ابن عدی وغیرہ نے حضرت عائشہ اور حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ میوہ جات میں آپ کو خرمائے تر اور خرپزہ زیادہ محبوب تھا۔


ابو نعیم نے حضرت ابن عباس سے روایت کی کہ آپ کو شانہ کا گوشت اور جگہ کے گوشت سے زیادہ محبوب تھا امام احمد اور نسائی نے بسند صحیح حضرت ابو واقد سے روایت کی ہے کہ جب آپ امام ہوتے تھے تو نماز بہت مختصر پڑھتے تھے اور جب تنہا نماز پڑھتے تھے تو بہت طویل پڑھتے تھے آپ مقتدیوں کے ساتھ اس لیے مختصر نماز پڑھتے تھے کہ ان کو تکلیف نہ ہو اور تنہا اس لیے تطویل فرماتے تھے کہ نماز آپ کی آنکھ کی ٹھنڈک تھی اس میں آپ کو چین ہوتا تھا اور اس سے بڑھ کر کیا چین ہو گا کہ محبوب حقیقی کے سامنے عاجزانہ کھڑا ہو کر اس سے التجا کرے اور اس اختصار اور تطویل کی مقدار اور حدیثوں میں بہ تفصیل وارد ہوئی ہے امام احمد اور ابوداود نے بسند حسن حضرت عبداللہ بن بسر سے روایت کی ہے کہ جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے دروازے پر تشریف لے جاتے تو دروازے کے سامنے نہ کھڑے ہوتے بلکہ اس کے داہنے ستون کے سامنے کھڑے ہوتے یا بائیں ستون کے سامنے کھڑے ہوتے اور فرماتے السلام علیکم یہ طریقہ سنت ہے کہ کہیں جائے تو دروازے کے مقابل نہ کھڑا ہو داہنے یا بائیں جانب کھڑا ہو اس لیے کہ اس طرح کھڑے ہونے میں کسی کی بے پردگی کا اندیشہ نہیں ہے ہاں اگر دروازہ بند ہو تو دروازے کے سامنے کھڑا ہونا بھی مضائقہ نہیں اور گھر والے کو اپنے آنے کی اطلاع اس طرح سے کہے کہ السلام علیکم کہے اگر وہ پہلی بار نہ سنے تو دوبارہ پھر یہی کہے خوب سمجھ لو۔


ابن سعد نے طبقات میں حضرت عکرمہ سے مرسلا روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت تھی کہ جب آپ کے پاس کوئی شخص آتا اور آپ اس کے چہرے پر بحالی اور خوشی دیکھتے تو اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتے غرض یہ تھی کہ اس کو آپ کے ساتھ انسیت حاصل ہو ابن مندہ نے عتبہ سے روایت کی ہے کہ جب آنحضرت کے پاس کوئی شخص آتا تھا اور اس کا نام ایسا ہوتا تھا جو آپ کو محبوب نہ ہوتا تو اس نام کو بدل دیتے تھے۔ امام احمد وغیرہ نے روایت کی ہے کہ جب آپ کے پاس کوئی اپنے مال کی زکوٰۃ لاتا تھا تاکہ آپ اس کو موقع پر صرف کر دیں تو آپ فرماتے تھے اے اللہ فلاں شخص پر رحمت فرما ہم کو بھی یہ طریقہ برتنا چاہیے کہ جب کوئی ہمارے ذریعہ سے صدقات تقسیم کرائے یا کسی چندہ میں روپیہ دلائے تو ہم اس کو یہی دعا دیں حاکم نے حضرت عائشہ سے بسند حسن روایت کی ہے کہ جب آنحضرت کو کوئی خوشی پیش آتی تھی تو فرماتے تھے الحمد للہ الذی بنعمۃ تتم الصالحات اور جب ناگواری پیش آتی تو فرماتے الحمدللہ علی کل حال۔ امام احمد اور ابن ماجہ نے حضرت ابن مسعود سے بسند صحیح روایت کی ہے کہ جب لونڈی غلام جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں جہاد میں آتے تھے تو آپ سب گھر والوں کو بانٹ دیتے تاکہ ان گھر والوں میں باہم تفریق نہ ہو جائے یعنی اگر کسی کو ملے اور کسی کو نہ ملے تو اندیشہ ہے کہ ان لوگوں میں باہم رنجش پیدا ہو جائے یہی طریق ہم لوگوں کو اختیار کرنا چاہیے کہ جب کوئی چیز تقسیم کریں تو ہر موقع پر اس کا خیال رکھیں کہ ایسا طریق اختیار نہ کریں جس سے باہم لوگوں میں رنجش پیدا ہو اور کوئی مفسدہ پیدا ہو خواہ برادری میں تقسیم کی جائے یا اہل و عیال میں یا شاگردوں و مریدوں میں۔


خطیب نے حضرت عائشہ سے بسند ضعیف روایت کی ہے کہ جب آنحضرت کے پاس کھانا لایا جاتا تھا اور دوسرے لوگ بھی آپ کے ساتھ کھاتے تو آپ اپنے آگے سے کھاتے تھے اور جب آپ کے پاس چھوارے لائے جاتے تو ہر طرف سے تناول فرماتے تھے۔ ابن السنی وغیرہ نے بسند صحیح حضرت انس سے روایت کی ہے کہ جب آپ کے پاس پھل لایا جاتا تو ایسے وقت کہ جب وہ اول ہی کھانے کے قابل ہوتا ہے تو آپ اس کو دونوں آنکھوں سے لگاتے پھر دونوں ہونٹوں سے لگاتے اور فرماتے اللہم کما اریتنا اولہ فارنا اخرہ پھر بچوں کو دے دیتے تھے جو آپ کے پاس اس وقت بیٹھے ہوتے تھے ابن عساکر نے حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر اور حضرت قاسم بن محمد سے بطریق مرسل صحیح روایت کی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ برتن لایا جاتا تھا جس میں خوشبو دار تیل وغیرہ ہوتا تو آپ اس تیل سے انگلیاں تر فرما لیتے پھر اس کو جہاں لگانا ہوتا ان انگلیوں سے استعمال فرماتے تھے۔ طبرانی نے حضرت ام المومنین حفصہ سے روایت کی ہے کہ آپ جب سونے کو لیٹتے تھے تو اپنے داہنے ہاتھ کو داہنے رخسارہ کے نیچے رکھ لیتے تھے۔


شیرازی نے القاب میں حضرت عائشہ سے بسند حسن لغیرہ روایت کی ہے کہ آپ جب سر میں تیل لگانے کا قصد فرماتے تھے تو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی میں اس کو رکھتے پھر بھوؤں سے لگانا شروع کرتے یعنی بھوؤں کو اول لگاتے پھر دونوں آنکھوں ر لگاتے پھر سر پر لگاتے اور عزیزی میں ہے کہ منادی نے فرمایا ہے کہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ڈاڑھی میں تیل لگانے کے قصد فرماتے تھے تو پہلے دونوں آنکھوں پر لگاتے تھے پھر ڈاڑھی میں لگاتے تھے احقر کہتا ہے کہ یہ روایت میری نظر سے نہیں گزری ابوداود اور ترمذی اور طیالسی نے حضرت انس اور حضرت جابر سے بسند صحیح روایت کی ہے کہ آپ جب پیشاب یا پائخانہ کے لیے بیٹھنے کا قصد فرماتے تھے تو اپنے کپڑے کو نہ اٹھاتے تھے جب تک کہ زمین کی اس جگہ سے جہاں فراغت فرماتے سے قریب نہ ہو جاتے تاکہ بغیر ضرورت ستر نہ کھلے کیونکہ ستر کھولنے کی ضرورت تو اسی وقت ہوتی ہے جب قضائے حاجت کے لیے آدمی بیٹھ جائے سو پہلے سے ستر کھولنے کی کیا حاجت ہے اس لیے آپ عین ضرورت کے وقت ستر کھولتے تھے۔ ابوداود و نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت عائشہ سے بسند صحیح روایت کی ہے کہ جب آپ جنب ہونے کی حالت میں بغیر غسل کیے سونے کا قصد فرماتے تھے تو وضو فرما لیتے تھے پھر سوتے تھے اور جب ایسی حالت مذکورہ میں کھانے یا پینے کا قصد فرماتے تھے تو فقط دونوں ہاتھ گٹوں تک دھو لیتے تھے پھر کھاتے پیتے تھے حیض اور نفاس والی عورت جب پاک ہو تو اس کے لیے بھی یہی سنت ہے۔


حاکم و ابوداود نے بسند صحیح حضرت عبداللہ بن یزید سے روایت کی ہے کہ جب جناب رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم لشکر کو رخصت فرماتے تھے تو یہ دعا پڑھتے استودع اللہ دینکم امانتکم وخواتیم اعمالکم مناسب ہے کہ جب کسی کو رخصت کرو تو یہ دعا پڑھ لیا کرو یہ اس شخص کی دین و دنیا کی فلاح کے لیے دعا ہے جس کو رخصت کیا جاتا ہے خطیب نے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے بسند ضعیف روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسواک کر چکتے تھے تو جو بڑا شخص ہوتا اس کو عنایت فرما دیتے تھے اور جب کچھ پانی وغیرہ پیتے تو بچا ہوا اس شخص کو عنایت فرماتے جو آپ کی داہنی جانب ہوتا یہ دونوں چیزیں آپ بوجہ سخاوت اور لوگوں کو برکت پہنچانے کے عطا فرماتے تھے


ابن السنی اور طبرانی نے بسند حسن حضرت عثمان بن ابی العاص سے روایت کی ہے کہ جب باد شمالی چلتی تھی تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے تھے۔ اللہم انی اعوذبک من شر ما ارسلت فیہا۔ وجہ اس دعا کے پڑھنے کی یہ تھی کہ ایسی ہوا کبھی کسی قوم پر بطریق عذاب بھیجی جاتی ہے کذا فی العزیزی تو آپ دعا فرماتے تھے کہ یا اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس چیز کے شر سے جس کو آپ نے اس ہوا میں بھیجا ہے اور یہی ترجمہ ہے اس دعا کا امام احمد اور حاکم نے بسند صحیح حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اہل بیت میں سے کسی کی نسبت یہ اطلاع ہوتی کہ اس نے ایک دفعہ بھر جھوٹ بولا ہے تو آپ برابر اس سے رنجیدہ اور ناراض رہتے یہاں تک کہ وہ شخص توبہ کر لیتا اور جب توبہ کر لیتا اور جب توبہ کر لیتا تو آپ بدستور اس سے راضی ہو جاتے وجہ یہ تھی کہ جھوٹ چونکہ اسلام میں ایک بہت بڑا گناہ ہے اور گنہگار سے بغض رکھنا لازم ہے اس لیے آپ ایسے شخص سے اعراض فرماتے تھے اور سب گنہگاروں سے آپ کا یہی برتاؤ تھا۔ شیرازی نے القاب میں بسند حسن لغیرہ حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غمگین ہوتے تھے تو ڈاڑھی مبارک ہاتھ میں لے لیتے تھے اور اس کو دیکھتے تھے۔ اور ابن السنی اور نعیم نے حضرت عائشہ سے اور ابونعیم نے نیز حضرت ابوہریرہ سے بھی بسند حسن یہ مضمون نقل کیا ہے کہ آپ جب غمگین ہوتے تھے تو بکثرت ڈاڑھی مبارک کو مس فرماتے تھے۔ امام احمد نے بسند صحیح حضرت عقبہ بن عامر سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سرمہ لگاتے تھے تو بعدد طاق سلائی آنکھوں میں پھیرتے تھے دوسرے حدیث میں جس کو ترمذی وغیرہ نے روایت کیا ہے یہ مضمون ہے کہ ہر آنکھ میں تین تین سلائی سرمہ لگاتے تھے۔


مسلم اور امام احمد وغیرہ نے حضرت انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ جب آپ کھانا کھاتے تھے تو اپنی تین انگلیوں کو جن سے کہ آپ کھایا کرتے تھے کما فی روایۃ الحاکم چاٹ لیا کرتے تھے تاکہ حق تعالی کی نعمت یعنی رزق ضائع نہ ہو۔ ترمذی نے حضرت ابویرہرہ سے روایت کی ہے کہ جب آپ کو کوئی دشواری پیش آتی تھی تو سر مبارک کو آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اور سبحان اللہ العظیم پڑھتے تھے۔ ابوداؤد اور ابن ماجہ نے بسند صحیح حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے میں کسی کو کسی کام کے لیے بھیجتے تھے تو فرما دیتے تھے کہ خوشخبری سناؤ لوگوں کو یعنی ان سے خوش کن باتیں کرو دینی اور دنیاوی امور میں اور ان کو نفرت نہ دلاؤ تاکہ وہ تم سے نفرت نہ کریں مگر حد شرعی کو ہر جگہ ملحوظ رکھنا چاہیے اییر بشارتیں اور خوش کن باتیں نہ کرے جو دین کے خلاف ہوں اور آسانی کرو لوگوں پر سختی نہ کرو۔ ابو داؤد اور ترمذی نے حضرت صخر بن داعہ سے بسند حسن روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب لشکر کو روانہ کرنے کا قصد فرماتے تھے تو اول روز میں اس کو روانہ فرماتے تھے کیونکہ وہ برکت کا وقت ہے حاجت روائی کی ایسے وقت جانے سے زیادہ امید ہے۔


ابو داؤد نے حضرت عائشہ سے بسند صحیح روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت تھی کہ جب آپ کسی شخص کو کوئی بری بات معلوم ہوتی تھی تو آپ نصیحت کے وقت یہ نہیں فرماتے تھے کہ فلاں شخص کا کیا حال ہے کہ وہ ایسا کام کرتا ہے یا ایسی بات کہتا ہے لیکن یہ فرماتے تھے لوگوں کا کیا حال ہے کہ ایسی ایسی باتیں یعنی بری باتیں کہتے ہیں اور ایسے ایسےیعنی برے کام کرتے ہیں سبحان اللہ کیا حسن اخلاق تھا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور کیا دانائی تھی کہ نصیحت بھی اس طرح فرماتے تھے جس سے مقصود بھی حاصل ہو جائے اور وہ مجرم رسوا بھی نہ ہو اور اس کو ندامت بھی نہ ہو بلکہ نصیحت کی قدر کرے اور اس پر عمل کرے۔ ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں حضرت ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کو کھانا کھا لیتے تھے تو شام کو نہ کھاتے تھے اور جب شام کو کھا لیتے تھے تو صبح کو نہ کھاتے تھے۔ فائدہ مقصود یہ ہے کہ آپ دن میں ایک وقت کھانا کھاتے تھے کبھی صبح کو کبھی شام کو ابن ماجہ نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو فرماتے تھے تو دو رکعت نماز نفل جس کا نام لوگوں نے تحیۃ الوضو رکھ لیا ہے پڑھ لیتے تھے جبکہ وقت مکروہ نہ ہوتا پھر نماز فرض پڑھنے مسجد میں تشریف لے جاتے تھے


خطیب اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس نے بسند حسن لغیرہ روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب جاڑے کا موسم آتا تو آپ جمعہ کی رات کو مکان کے اندر سونا شروع فرماتے تھے اور جب گرمی کا موسم آتا تو جمعہ کی رات کو باہر سونا شروع فرماتے اور جب نیا کپڑا پہنتے تھے اللہ تعالی کی حمد فرماتے تھے یعنی الحمد للہ یا مثل اس کے کوئی اور لفظ شکریہ میں فرماتے اور دو رکعت نماز نفل شکریہ میں پڑھتے اور پرانا کپڑا کسی محتاج کو عطا فرما دیتے بیہقی اور خطیب نے بسند حسن حضرت حسن بن محمد بن علی سے مرسلا روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب مال آتا تھا سو اگر صبح کے وقت آتا تھا تو دوپہر تک نہ رکھتے تھے اور اگر شام کے وقت آتا تو رات تک نہ رکھتے تھے۔ فائدہ مقصود یہ ہے کہ آپ دین میں ایک وقت کھانا کھاتے تھے کبھی صبح کو شام کو ابن ماجہ نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم جب وضو فرماتے تھے تو دو رکعت نماز نفل جس کا نام لوگوں نے تحیۃ الوضو رکھ لیا ہے پڑھ لیتے تھے جبکہ وقت مکروہ نہ ہوتا پھر نماز فرض پڑھنے مسجد میں تشریف لے جاتے تھے خطیب اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس سے بسند حسن لغیرہ روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب جاڑے کا موسم تا تو آپ جمعہ کی رات کو مکان کے اندر سونا شروع فرماتے تھے اور جب گرمی کا موسم تا تو جمعہ کی رات کو باہر سونا شروع فرماتے اور جب نیا کپڑا پہنتے تھے اللہ تعالی کی حمد فرماتے تھی۔


یعنی الحمد للہ یا مثل اس کے کوئی اور لفظ شکریہ میں فرماتے اور دو رکعت نماز نفل شکریہ میں پڑھتے اور پرانا کپڑا کسی محتاج کو عطا فرما دیتے بیہقی اور خطیب نے بسند حسن حضرت حسن بن محمد بن علی سے مرسلا روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے پاس جب مال آتا تھا سو اگر صبح کے وقت آتا تھا تو دوپہر نہ رکھتے تھے اور اگر شام کے وقت آتا تو رات تک نہ رکھتے تھے۔ فائدہ یعنی فورا خرچ فرما دیتے تھے۔ محدث بغوی نے حضرت والد مرہ سے بسند ضعیف روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب زیادہ ہنسی آتی تھی تو منہ پر ہاتھ رکھ لیتے تھے۔ فائدہ اور ایسا اتفاق کبھی ہو جاتا تھا کہ آپ کو زیادہ ہنسی آئے ورنہ آپ تو صرف مسکرایا کرتے تھے کماورد بسند صحیح ابن السنی نے حضرت ابو امامہ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مجلس میں بیٹھتے تھے اور بات چیت فرماتے تھے اور پھر وہاں سے اٹھنے کا قصد فرماتے تھے تو استغفار پڑھتے تھے دس سے لے کر پندہ بار تک فائدہ دوسری حدیث میں آیا ہے کہ وہ استغفار یہ تھی استغفراللہ العظمس الذی لا الہ الا ہوالحی القیوم واتوب الیہ کافی العززی لکم لم اقف علی سندہ۔ ابوداود نے حضرت عبداللہ بن سلام سے بسند حسن روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیٹھتے تھے اور باتیں کرتے تھے تو کثرت سے آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتے تھے۔ امام احمد اور ابو داود نے حضرت حذیفہ سے بسند صحیح روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی دشواری پیش آتی تھی تو نماز نفل پڑھتے تھے اس عمل سے ظاہری و باطنی دنیوی و اخروی نفع ہوتا ہے اور پریشانی دور ہوتی ہے۔ ابن السنی نے حضرت سعید بن حکیم سے بسند حسن لغیرہ روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی چیز عمدہ معلوم ہوتی تھی اور اس چیز کو اپنی نظر لگ جانے کا اندیشہ فرماتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔


اللہم بارک فیہ ولا تضرہ فائدہ آپ کی نظر سے بجز بھلائی کسی کو برائی نہیں پہنچ سکتی تھی مگر باوجود اس کے آپ اس عمل کو امت کی تعلیم کے لیے فرماتے تھے تاکہ امت کے لوگ ایسا کیا کریں کذا فی العزیزی ابن سعد نے مجاہد سے بطریق حسن مرسل روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی عورت کو اپنے نکاح کا پیغام دیتے تھے اور وہ پیغام منظور نہ ہوتا تو دوبارہ اس کا ذکر نہ فرماتے تھے یعنی اصرار نہ کرتے اگر پیغام منظور ہو جاتا نکاح فرما لیتے ورنہ خاموش رہتے اور اصرار کر کے ذلت اختیار نہ فرماتے تھے اور کسی پر دباؤ نہ ڈالتے تھے اور آپ نے ایک عورت کو پیغام نکاح دیا اس نے انکار کیا پھر خود اس عورت ہی نے آپ سے نکاح کرنا چاہا آپ نے فرمایا کہ ہم نے دوسری عورت سے نکاح کر لیا ہے۔ اب ہم کو حاجت نہیں رہی ابن سعد اور ابن عساکر نے حضرت عائشہ سے بسند حسن لغیرہ روایت کی ہے۔ کہ جب آپ ازواج مطہرات سے خلوت فرماتے تھے تو بہت نرمی اور خوب خاطر داری اور بہت اچھی طرح ہنسنے بولنے سے پیش آتے تھے۔ ابن سعد نے حبیب بن صالح سے مرسلا روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پائخانہ میں تشریف لے جاتے تھے تو جوتہ پہن کر جاتے تھے اور سر کو ڈھک لیتے تھے۔ بخاری نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کی عیادت فرماتے تھے۔ تو اس سے آپ یہ کہتے تھے لاباس طہور انشاء اللہ تعالی طبرانی نے بسند حسن ابوایوب انصاری  سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا فرماتے تھے تو پہلے اپنے واسطے دعا فرماتے تھے۔ پھر اوروں کے لیے دعا کرتے تھے


نسائی نے بسند حسن حضرت ثوبان سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی خوف پیش آتا تھا تو یہ دعا پڑھتے تھے اللہ اللہ ربی لا شریک لہ۔ ابن مندہ نے حضرت سہیل سے رویت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی بات یا کسی کام سے راضی ہوتے تھے تو سکوت فرماتے تھے۔ ابو نعیم نے حضرت ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ جب ازواج مطہرات میں سے کسی کی آنکھ دکھتی تو آپ ان سے ہم بستری چھوڑ دیتے تھے آنکھ کے آرام ہونے تک ابن المبارک و ابن سعد نے مرسلا روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی جنازہ پر تشریف لے جاتے تھے تو بہت خاموشی فرماتے تھے اور اپنے دل میں موت کے متعلق گفتگو فرماتے تھے کیونکہ جنازہ عبرت کا مقام ہے اس کو دیکھ کر اپنی موت کو یاد کرنا چاہیے اور اس بے کسی کا خیال کرنا چاہیے جو بعد موت پیش آئے گی اور عذاب سے ڈرنا چاہیے۔ حاکم اور ابو داود اور ترمذی نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب چھینکتے تھے تو اپنا ہاتھ یا کپڑا منہ پر رکھ لیتے تھے اور آواز کو پست فرما لیتے تھے۔ مسلم اور ابوداود نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نیک کام شروع فرماتے تھے تو پھر اس کو ہمیشہ کیا کرتے تھے۔ ابن ابی الدنیا نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آتا تھا اس حال میں کہ آپ کھڑے ہوتے تھے تو آپ بیٹھ جاتے تھے۔


اور جب ایسے حال میں غصہ آتا تھا کہ آپ بیٹھے ہوتے تھے تو آپ لیٹ جاتے تھے حالت بدل دینا علاج ہے غصہ فرو ہو جانے کا یعنی غصہ جاتے رہنے کا ابوداود نے حضرت عثمان سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مردہ کے دفن سے فارغ ہوتے تو قبر پر کچھ دیر ٹھیرتے تھے اور آپ کے ہمراہی بھی ٹھیر جاتے تھے اور آپ فرماتے تھے کہ اپنے مردہ بھائی کے لیے اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرو اور اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو اس لیے کہ اس وقت اس سے سوال کیا جاتا ہے یعنی منکر و نکیر کے سوال کا وقت ہے اس لیے اس کے جواب میں ثابت قدم رہنے کی اور جواب باقاعدہ دینے کی دعا کرو تاکہ مردے کو پریشانی نہ ہو ترمذی نے حضرت ابوہریرہ سے بسند صحیح روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کرتہ پہنتے تھے تو داہنی طرف سے سے شروع فرماتے تھے۔


یعنی اول داہنا ہاتھ اس میں داخل فرماتے تھے کذا فی العزیزی ابن سعد نے حضرت انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت مبارک تھی کہ آپ کے صحابہ میں سے کوئی آپ سے ملتا اور وہ ٹھیر جاتا آپ کے ساتھ تو آپ بھی ٹھیر جاتے اور جب تک وہ شخص چلا نہ جاتا آپ برابر ٹھیرے رہتے اور جب آپ کے صحابہ میں سے کوئی آپ سے ملاقات کرتا اور آپ بھی ٹھیر جاتے اور جب تک وہ شخص چلا نہ جاتا آپ برابر ٹھیرے رہتے اور جب آپ کے صحابہ میں سے کوئی آپ سے ملاقات کرتا اور آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا تو آپ اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیتے اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں سے نہ نکالتے تھے جب تک کہ وہ خود نہ چھوڑ دیتا اور ابن المبارک کی روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ اپنا چہرہ اس کے سامنے سے نہ پھیرتے تھے جب تک کہ وہ اپنا چہرہ آپ کے سامنے سے نہ پھیر لیتاتھا اور آپ جب صحابہ میں سے کسی سے ملاقات فرماتے تھے اور وہ صحابی آپ کے کان کے قریب ہونا چاہتے سرگوشی کے لیے تو آپ ان کے قریب اپنا کان کر دیتے اور اپنے کان کو نہ ہٹاتے جب تک کہ وہ شخص فارغ ہو کر خود نہ ہٹ جاتے نسائی نے حضرت حذیفہ سے بسند حسن روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے صحابہ میں سے کوئی ملتا تھا آپ مصافحہ فرماتے تھے اور ان کے لیے دعا فرماتے تھے۔


طبرانی نے حضرت جندب سے روایت کی ہے کہ جب آپ صحابہ سے ملتے تو مصافحہ نہیں فرماتے تھے یہاں تک کہ سلام کر لیتے یعنی پہلے سلام کرتے پھر مصافحہ فرماتے تھے ابن السنی نے روایت کی ہے کہ ایک انصاری  کی کنیزہ سے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی شخص کو پکارنا چاہتے تھے اور اس کا نام یاد نہ آتا تھا تو ابن عبداللہ کہہ کر پکارتے تھے یعنی اے خدا کے بندہ کے بیٹے حاکم نے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ جب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے تھے تو ادھر ادھر نہیں دیکھتے تھے ابوداود نے بعض آل ام سلمہ سے بسند حسن روایت کی ہے کہ آپ کا بچھونا کفن کی مثل ہوتا تھا یعنی جیسے کپڑے کا کفن دیا جاتا ہے اسی کی قسم سے بچھونا بھی تھا قیمتی اور تکلف کا نہ تھا اور آپ کی مسجد آپ کے سرہانے تھی یعنی جب آپ سوتے تھے تو آپ کا سر مسجد کی جانب ہوتا تھا کذا فی العزیزی اور دوسری حدیث میں جس کو ترمذی نے بسند حسن حضرت حفصہ سے روایت کیا ہے یہ وارد ہوا ہے کہ آپ کا بچھونا ٹاٹ کا تھا۔ حاکم نے بسند صحیح حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کرتہ ٹخنوں سے اوپر ہوتا تھا یعنی نصف پنڈلیوں تک جیساکہ دوسری روایت میں آیا ہے کذا فی العزیزی بغیر ذکر سند الروایۃ۔ اور آپ کے کرتہ کی آستین انگلیوں کے برابر ہوتی تھیں اور دوسری حدیث میں جس کو ابوداود اور ترمذی نے بسند حسن روایت کیا ہے آستین کی لمبائی ہاتھوں کے گٹوں تک وارد ہوئی ہے غرض دونوں طرح آپ کا پہننا ثابت ہو گیا۔ پس آپ کا کرتہ کبھی گٹوں تک ہوتا تھا اور کبھی انگلیوں کی برابر۔


امام احمد اور ترمذی اور ابن ماجہ نے بسند حسن حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تکیہ چمڑے کا تھا جس میں خرما کے درخت کی چھال بھری تھی طبرانی نے نعمان بن بشیر سے بسند صحیح روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت معمولی درجہ کے چھوہارے بھی اس قدر میسر نہ آتے تھے جس سے آپ شکم سیری فرما لیتے روئے زمین کے خزانے آپ کے پیروں میں آ لگے تھے مگر زہد اختیار کیا تھا اور لذت دنیا کو حقیر اور ذلیل سمجھ کر آپ نے ایسے فقر کی حالت اختیار کی تھی اور جو آمدنی ہوتی تھی اس کو کثرت سے آپ خیرات کرتے تھے اور چھوہارے اہل عرب کی معمولی غذا ہیں کیونکہ وہاں بہ کثرت پیدا ہوتے ہیں ترمذی نے بسند صحیح حضرت انس سے روایت کی ہے کہ آپ اپنے لیے کل آئندہ کے واسطے کچھ جمع نہیں رکھتے تھے طبرانی نے حضرت ابن عباس سے بسند حسن روایت کی ہے کہ جب آپ چلتے تھے تو لوگوں کو آپ کے آگے سے نہ ہٹایا جاتا تھا اور نہ مارا جاتا تھا جیسا کہ متکبرین کی عادت ہوتی ہے کہ خادم سٹرک پر سے لوگوں کو ہٹاتا ہے جھڑکتا ہے تاکہ ان کے لیے سڑک خالی ہو جائے۔ ابن سعد نے بسند حسن حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ آپ تین دن سے کم میں قرآن شریف ختم نہیں کرتے تھے۔ ابن سعد نے محمد بن الحنفیہ سے مرسلا روایت کی ہے کہ آپ کی یہ عادت تھی کہ آپ کسی کام کے کرنے کو جو شرع میں جائز ہوتا تھا منع نہیں فرماتے تھے پس جب آپ سے کوئی سوال کیا جاتا اور آپ اس سوال کے پورا کرنے کا قصد کرتے تو فرماتے ہاں اور اگر ارادہ اس کے پورا کرنے کا کسی مجبوری سے نہ ہوتا تھا تو خاموش رہتے تھے۔