جو لوگ دن رات، کھلے اور چھپے اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ انہیں اپنے پروردگار سے اس کا اَجر ضرور مل جائے گا۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے (ان لوگوں کے برعکس)جو لوگ سود کھاتے ہیں۔ وہ یوں کھڑے ہوں گے۔ جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر اُسے مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔ اس کی وجہ ان کا یہ قول (نظریہ)ہے کہ تجارت بھی تو آخر سود ہی کی طرح ہے۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔ اب جس شخص کو اس کے پروردگار سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سے رک گیا تو پہلے جو سود وہ کھا چکا، سو کھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے سپرد۔ مگر جو پھر بھی سود کھائے تو یہی لوگ اہل دوزخ ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کی پرورش کرتا ہے۔ اور اللہ کسی ناشکر بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا البتہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے، نماز قائم کرتے رہے اور زکوٰۃ ادا کرتے رہے ان کا اجر ان کے پروردگار کے پاس ہے۔ انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر واقعی تم مومن ہو تو جو سود باقی رہ گیا ہے اُسے چھوڑ دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے اور اگر (سود سے ) توبہ کر لو تو تم اپنے اصل سرمایہ کے حقدار ہو۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے اور اگر مقروض تنگ دست ہے تو اُسے اس کی آسودہ حالی تک مہلت دینا چاہیے۔ اور اگر (راس المال بھی)چھوڑ ہی دو تو یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے۔ اگر تم یہ بات سمجھ سکو اور اس دن سے ڈر جاؤ جب تم اللہ کے حضور لوٹائے جاؤ گے۔ پھر وہاں ہر شخص کو اس کے اَعمال کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر کچھ ظلم نہ ہو گا اے ایمان والو! جب تم کسی مقر رہ مدت کے لیے اُدھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ اور لکھنے والا فریقین کے درمیان عدل و انصاف سے تحریر کرے۔ اور جسے اللہ تعالیٰ نے لکھنے کی قابلیت بخشی ہو اُسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہئے۔ اور تحریر وہ شخص کروائے جس کے ذمہ قرض ہے۔ وہ اللہ سے ڈرتا رہے اور لکھوانے میں کسی چیز کی کمی نہ کرے (کوئی شق چھوڑ نہ جائے ) ہاں اگر قرض لینے والا نادان ہو یا ضعیف ہو یا لکھوانے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو پھر اس کا وَلی انصاف کے ساتھ اِملا کروا دے۔ اور اس معاملہ پر اپنے (مسلمان) مردوں میں سے دو گواہ بنا لو۔ اور اگر دو مرد میسر نہ آئیں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بناؤ کہ ان میں سے اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔ اور گواہ ایسے ہونے چاہئیں جن کی گواہی تمہارے ہاں مقبول ہو۔ اور گواہوں کو جب (گواہ بننے یا)گواہی دینے کے لیے بلایا جائے تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے اور معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا مدت کی تعیین کے ساتھ اسے لکھوا لینے میں کاہلی نہ کرو تمہارا یہی طریق کار اللہ کے ہاں بہت منصفانہ ہے جس سے شہادت ٹھیک طرح قائم ہو سکتی ہے اور تمہارے شک و شبہ میں پڑنے کا اِمکان بھی کم رہ جاتا ہے۔ ہاں جو تجارتی لین دین تم آپس میں دست بدست کر لیتے ہو، اسے نہ بھی لکھو تو کوئی حرج نہیں۔ اور جب تم سودا بازی کرو تو گواہ بنا لیا کرو نیز کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے اور اگر ایسا کرو گے تو گناہ کا کام کرو گے اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ ہی تمہیں یہ احکام و ہدایات سکھلاتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا ہے اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے کو کوئی کاتب نہ مل سکے تو رہن با قبضہ(پر معاملہ کر لو) اور اگر کوئی شخص دوسرے پر اعتماد کرے (اور رہن کا مطالبہ نہ کرے )تو جس پر اعتماد کیا گیا ہے اسے قرض خواہ کی امانت ادا کرنا چاہئے۔ اور اپنے پروردگار سے ڈرنا چاہیے۔ اور شہادت کو ہرگز نہ چھپاؤ۔ جو شخص شہادت کو چھپاتا ہے بلاشبہ اس کا دل گنہ گار ہے اور جو کام بھی تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے۔ اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خواہ تم اسے چھپاؤ یا ظاہر کرو، اللہ تم سے اس کا حساب لے گا۔ پھر جسے چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا سزا دے گا اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
یہ آیت در اصل صدقات و خیرات کے احکام کا تتمہ ہے۔ یعنی آخر میں ایک دفعہ پھر صدقہ کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ اب اس کی عین ضد سود کا بیان شروع ہو رہا ہے … صدقات و خیرات سے جہاں آپس میں ہمدردی، مروّت، اُخوت، فیاضی پیدا ہوتی ہے وہاں طبقاتی تقسیم بھی کم ہوتی ہے۔ اس کے برعکس سود سے شقاوتِ قلبی، خود غرضی، منافرت، بے مروّتی اور بخل جیسے اخلاقِ رذیلہ پرورش پاتے ہیں اور طبقاتی تقسیم بڑھتی چلی جاتی ہے جو بالآخر کسی نہ کسی عظیم فتنہ کا باعث بن جاتی ہے۔ اشتراکیت در اصل ایسے ہی فتنہ کی پیداوار ہے۔
اے ایمان والو سود دونے پر دونا نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہارا چھٹکارا ہو
قرآن: سورۃ آل عمران: 130
اور ان کو سود لینے کے سبب سے حالانکہ اس سے منع کیے گئے تھے اور اس سبب سے کہ لوگوں کا مال ناحق کھاتے تھے اور ان میں سے جو کافر ہیں ہم نے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے
قرآن: سورۃ النساء: 161
یہ در اصل سود خور یہودیوں کا قول ہے اور آج کل بہت سے مسلمان بھی اسی نظریہ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ سودی قرضے در اصل دو طرح کے ہوتے ہیں:
(1) ذاتی قرضے یا مہاجنی قرضے یعنی وہ قرضے جو کوئی شخص اپنی ذاتی ضرورت کے لئے کسی مہاجن یا بنک سے لیتا ہے۔
(2) اور دوسرے تجارتی قرضے جو تاجر یا صنعت کار اپنی کاروباری اغراض کے لئے بنکوں سے سود پر لیتے ہیں۔ اب جو مسلمان سود کے جواز کی نمائندگی کرتے ہیں، وہ یہ کہتے ہیں کہ جس سود کو قرآن نے حرام کیا ہے وہ ذاتی یا مہاجنی قرضے ہیں جن کی شرح سود بڑی ظالمانہ ہوتی ہے اور جو تجارتی سود ہے وہ حرام نہیں۔ کیونکہ اس دور میں ایسے تجارتی سودی قرضوں کا رواج ہی نہ تھا۔ نیز ایسے قرضے چونکہ رضا مندی سے لئے دیئے جاتے ہیں اور ان کی شرحِ سود بھی گوارا اور مناسب ہوتی ہے اور فریقین میں سے کسی پر ظلم بھی نہیں ہوتا، لہٰذا یہ تجارتی سود اس سود سے مستثنیٰ ہے جنہیں قرآن نے حرام قرار دیا ہے۔
حضورﷺ تمام انسانیت کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے اور آپﷺ کی امت ہونے کی حیثیت سے یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم تمام انسانیت میں خیر اور بھلائی پھیلانے کا ذریعہ بنیں نہ کہ خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ہی لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھائیں۔ امت مسلمہ ایک جسم کی حیثیت رکھتی ہے کہ اگر جسم کے ایک حصے میں درد ہو تو پورے جسم میں تکلیف محسوس ہوتی ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل اقتدار کی ذمہ داری بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز کا نظام قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔
سود اور سود کے استحصالی نظام کے خلاف کلمہ جہاد بلند کرنا کیوں ضروری ہے ؟ آئیے قرآن و سنت نبویؐ کی روشنی میں اس کا جواب ڈھونڈتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔
الذین یاکلون الربوٰالایقوموں الاکما یتخبط الشیطان من المس(سورہ بقرہ آیت نمبر۲۷۵پارہ نمبر۳رکوع نمبر۶)
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن اپنی قبروں سے اس طرح اٹھیں گے کہ جیسے شیطان نے چھو کر اسے مخبوط (حواس باختہ) بنا دیا ہو”
یعنی قیامت کے روز سود خور اس فالج زدہ شخص کی طرح کھڑے کیے جائیں گے جیسے کسی کو کوئی شیطان یا جن چھو جائے اور اس کے ہوش و حواس جاتے رہیں قیامت کے دن جس کو فالج زدہ کھڑا دیکھو تو سمجھ لو کہ وہ سود خور ہے۔ اور اس حرام خوری کے باعث آج قیامت کے دن اس کے اوسان خطا کر دیے گئے ہیں۔ پھر فرمایا ” یہ حالت ان کی اس لیے ہو گی کہ انھوں نے (حلال اور حرام کو یکساں کر دیا ہے ) کہ جیسے سودا ہے ویسے ہی سود ہے ”
سود خوروں کو اس لیے شیطان کے مس شدہ کی طرح ہوش و حواس سے عاری کھڑا کیا جائے گا کہ جب ان کو کہا جاتا تھا کہ سود چھوڑ دو تو وہ کہتے تھے بھئی سود لینا ایک نفع ہی تو ہے جیسے تم کاروبار میں نفع حاصل کرتے ہو۔ ہم قرض کے ذریعے مال کما تے ہیں۔ چونکہ انھوں نے سود اور تجارت کو سود کے بربر اور سود کو تجارت کے بربر قرار دے دیا تھا اور ایہ اتنا بڑا جرم ہے کہ جس کے باعث قیامت کے دن انھیں شیطان زدوں کی طرح کھڑا کیا جائے گا۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ ” اور اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیا” (سورۃ البقرہ )
اور جو سود کو ترک نہ کرے وہ پھر اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہو جائے۔ اللہ نے مسلمانوں کو سود ترک کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ” اے ایمان والو: اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر تم سچے مسلمان ہو۔ ” اللہ تعالیٰ کا یہ واضح حکم بھی تمام لوگوں کے لیے موجود ہے کہ تم نے سود کا لین دین اور سود کا نظام نہ چھوڑا تو پھر تیار ہو جاؤ کہ تمھارے خلاف اور تمھارے استحصالی نظام کے خلاف اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے اعلان جنگ ہو چکا ہے۔
حضرت عبداللہ بن حنظلہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سود کا ایک درہم کھانا چھتیس مرتبہ زنا سے زیادہ شدید (جرم) ہے بشرطیکہ کھانے والے کو معلوم ہو کہ یہ درہم سود کا ہے
(جامع الصغری جلد ایک ص ۲۵۶، کنزالعمال جلد ۴، مشکوۃالمصابیح حدیث ۲۸۲۵)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ جس رات مجھے معراج ہوئی میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ ایسے تھے جیسے اژدہوں سے بھرے ہوئے گھر اور اژدھے پیٹوں سے باہر بھی دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے جبریل علیہ السلام سے دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں۔ جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا یہ سود خور ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر اردو جلد ایک پارہ سوم)
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سود لینے والے، دینے والے، تحریر لکھنے والے اور گواہوں، سب پر لعنت کی اور فرمایا وہ سب (گناہ میں ) برابر ہیں۔(مسلم: جلد دوم ص ۲۷کتاب البیوع، باب لعن آکل الربوا و مُوکِلہ قدیمی کتب خانہ، الترغیب والترھیب جلد اول ص ۵۳۹، الدر المنشور، )
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سود لینے اور دینے والوں کے علاوہ بنکوں کا عملہ بھی اس گناہ میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔
آپﷺ نے فرمایا: ”(سود کے گناہ کے ) اگر ستر حصے کئے جائیں تو اس کا کمزور حصہ بھی اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے ” ‘ (ابن ماجہ بحو آلہ مشکوٰۃ: کتاب البیوع، باب الربا، فصل ثالث)