سود خور کے لئے آخرت میں چند سزاؤوں اور عذاب کے تذکرہ کے بعد آئیے چند دنیوی مضرتوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ’’سات ہلاک کر دینے والی چیزوں سے بچو، لوگوں نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وہ کونسی چیزیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو، نا حق کسی شخص کو قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے دن پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑا ہونا، غافل عفیفہ مومنہ عورتوں پر الزام لگانا۔‘‘  (صحیح البخاری حسب ترقم فتح الباری: 4/ 12, صحیح مسلم: 1/ 64)

اس طرح کی تباہی اور بربادی کے بے شمار واقعات معمولی تلاش و جستجو پر آپ کو سننے کو مل جائیں گے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو ایک حدیث میں فرمایا: ’’جب کسی بستی میں زنا اور سود عام ہو جائے تو اس بستی والوں نے اپنے لئے اللہ کے عذاب کو حلال کر لیا۔‘‘ (رواہ الحاکم عن ابن عباس و قال: ھذا حدیث صحیح الاسنادووافقہ الذہبی، انظرالمستدرک: ۳۷ ج۲

اس معنی کی حدیث مسند ابو یعلیٰ میں بھی بسند جید حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ (دیکھئے الترغیب والترہیب۷۴۶،ج ۲)

آپﷺ نے فرمایا: ”سود کا ایک درہم جو آدمی کھاتا ہے اور وہ اس کے سودی ہونے کو جانتا ہے تو وہ گناہ میں چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے ”

(مسند احمد، دارمی، بحو آلہ مشکوٰۃ: ح ۲۸۲۵کتاب البیوع، باب الربا، فصل ثالث، کنزالعمال جلد ۴، جامع الصغریٰ جلد ایک ص ۲۵۶)

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے کئی گناہ ایسے ہیں جو سود سے بھی بہت بڑے ہیں۔ مثلاً شرک، قتل ناحق اور زنا وغیرہ لیکن اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ کی وعید اللہ تعالیٰ نے صرف سود کے متعلق سنائی ہے اور خود رسول اللہﷺ نے بھی ایسے سخت الفاظ استعمال فرمائے ہیں جو کسی اور گناہ کے متعلق استعمال نہیں فرمائے تو آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سود اسلامی تعلیمات کا نقیض اور اس سے براہِ راست متصادم ہے اور اس کا حملہ بالخصوص اسلام کے معاشرتی اور معاشی نظام پر ہوتا ہے۔ اسلام ہمیں ایک دوسرے کا بھائی بن کر رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ وہ آپس میں مروّت، ہمدردی، ایک دوسرے پر رحم اور ایثار کا سبق سکھلاتا ہے۔ آپﷺ نے ساری زندگی صحابہ کرامؓ کو اُخوت و ہمدردی کا سبق دیا اور ایک دوسرے کے جانی دشمن معاشرے کی، وحی الٰہی کے تحت اس طرح تربیت فرمائی کہ وہ فی الواقع ایک دوسرے کے بھائی بھائی اور مونس و غمخوار بن گئے۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے ایک احسانِ عظیم شمار کرتے ہوئے قرآن میں دو مقامات پر اس کا تذکرہ فرمایا ہے: (سورۂ آل عمران کی آیت 103 میں اور سورۂ انفال کی آیت 63 میں ) اور یہ چیز رسول اللہﷺ کی زندگی کا ماحصل تھا۔ جبکہ سود انسان میں ان سے بالکل متضاد رذیلہ صفات مثلاً بخل، حرص، زرپرستی اور شقاوت پیدا کرتا ہے۔ اور بھائی بھائی میں منافرت پیدا کرتا ہے جو اسلامی تعلیم کی عین ضد ہے۔

دوسرے یہ کہ اسلام کے معاشی نظام کا تمام تر ماحصل یہ ہے کہ دولت گردش میں رہے اور اس گردش کا بہاؤ امیر سے غریب کی طرف ہو۔ اسلام کے نظامِ زکوٰۃ و صدقات کو اسی لئے فرض کیا گیا ہے اور قانونِ میراث اور حقوقِ باہمی بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ جبکہ سودی معاشرہ میں دولت کا بہاؤ ہمیشہ غریب سے امیر کی طرف ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی سود اسلام کے پورے معاشی نظام کی عین ضد ہے ۔

آپﷺ نے فرمایا کہ ”: لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جب ہر کوئی سود کھانے والا ہو گا۔ اگر سود نہ کھائے تو بھی اس کا بخار (اور ایک دوسری روایت کے مطابق) اس کا غبار اسے ضرور پہنچ کے رہے گا”  (نسائی: کتاب البیوع، باب اجتناب الشبہات فی الکسب)

اور آج کا دور بالکل ایسا ہی دور ہے۔ پوری دنیا کے لوگوں اور اسی طرح مسلمانوں کے رگ و ریشہ میں بھی سود کچھ اس طرح سرایت کر گیا ہے، جس سے ہر شخص شعوری یا غیر شعوری طور پر متاثر ہو رہا ہے، آج اگر ایک مسلمان پوری نیک نیتی سے سود سے کلیتاً بچنا چاہے بھی تو اسے کئی مقامات پر اُلجھنیں پیش آتی ہیں۔ مثلاً آج کل اگر کوئی شخص گاڑی، سکوٹر، کار، ویگن، بس یا ٹرک خریدے گا تو اسے لازماً اس کا بیمہ کرانا پڑے گا۔ اگرچہ اس قسم کے بیمہ کی رقم قلیل ہوتی ہے اور یہ وہ بیمہ نہیں ہوتا جس میں حادثات کی شکل میں بیمہ کمپنی نقصان ادا کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ تاہم ہمارے ہاں قانون یہ ہے کہ جب تک نئی گاڑی کا بیمہ نہ کرایا جائے وہ استعمال میں نہیں لائی جا سکتی اور اس قلیل رقم کی قسم کا بیمہ ہر سال کرانا پڑتا ہے۔ اور بیمہ کا کاروبار شرعاً کئی پہلوؤں سے ناجائز ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔

اسی طرح تاجر پیشہ حضرات بنک سے تعلق رکھے بغیر نہ مال برآمد کر سکتے ہیں اور نہ درآمد۔ ان کے لئے آسان راہ یہی ہوتی ہے کہ وہ بنک سے ایل سی ((Letter of Credit یا اعتماد نامہ حاصل کریں۔ اس طرح تمام درآمد اور برآمد کردہ مال سودی کاروبار سے متاثر ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ تجارتی سود یا کمرشل انٹرسٹ(Commercial Interest)   کو جائز سمجھنے والے اور حمایت کرنے والے حضرات یہ حجت بھی پیش کیا کرتے ہیں کہ جب تمہارے گھر کی بیشتر اشیاء سودی کاروبار کے راستہ سے ہو کر تم تک پہنچی ہیں تو تم ان سے بچ کیسے سکتے ہو؟ تو اس قسم کے اعتراضات کا جواب یہ ہے کہ اس قسم کے سود کو ختم کرنا یا اس کی متبادل راہ تلاش کرنا حکومت کا کام ہے اور اگر حکومت یہ کام نہیں کرتی تو ہر مسلمان انفرادی طور پر جہاں تک سود سے بچ سکتا ہے، بچے اور جہاں وہ مجبور ہے وہاں اس سے کوئی مواخذہ نہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا کیونکہ شریعت کا اُصول ہے کہ” مواخذہ اس حد تک ہے جہاں تک انسان کا اختیار ہے اور جہاں اضطرار ہے وہاں مواخذہ نہیں ”

اسلام سلامتی اور نفع بخش دین ہے۔ اور استحصالی کی بالواسطہ اور بلاواسطہ ہر شکل کے خلاف ہے چونکہ ربو (سود) معاشی استحصال کی بدترین شکل ہے۔ اس لیے اسلام نے اسے کلیتہً حرام قرار دیا ہے۔ سود صرف دنیائے اسلام کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا میں معاشی ناہمواریوں کی بنیاد ہے چنانچہ سود سے پاک بینکاری کا تصور ہمیشہ اقتصادی ماہرین کی سوچوں کا مرکز رہا ہے اور اس ضمن میں خود مغربی دنیا میں بھی تجربات ہو رہے ہیں۔ علم معاشیات کا ایک بنیادی اصول یہ کہ سرمایہ ہمیشہ بچتوں سے آتا ہے۔ اور بچتیں ترقی یافتہ ممالک میں بالعموم اور ترقی پذیر ممالک میں بالخصوص اسی متوسط طبقے سے آتی ہے۔ سودی بینکاری نظام کا ایک استحصالی پہلو یہ ہے کہ ایک جائزہ کے مطابق بینک کے ڈپازٹ بیس ہزار روپے یا اس سے کم رقم جمع کروانے والے چھوٹ کھاتہ داروں کے ہوتے ہیں مگر جب انہی ڈیپازٹ سے قرضہ جات کا اجرا ہوتا ہے تو صرف چھ سے سات فیصد قرضہ جات غریب اور متوسط طبقے کے حصے میں آتے ہیں جبکہ قرضے بڑے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں اور سماجی و سیاسی اثرورسوخ کی بنا پر حاصل کر لیتے ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس رات مجھے معراج ہوئی میرا گزر ایک ایسے گروہ پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی طرح ہیں اور ان میں سانپ بھرے ہوئے ہیں جو باہر سے نظر آتے ہیں۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ (جو ایسے عذاب میں مبتلا ہیں ) انہوں نے بتایا کہ یہ سود خور لوگ ہیں:۔ (مسند احمد ابن ماجہ)

فائدہ:۔ اسلام میں سود کی حرمت کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں، جو شخص مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ہے وہ اتنا ضرور جانتا ہے کہ اسلام میں سود حرام ہے۔ بلکہ اس اجمالی حقیقت سے تو غیر مسلم بھی ناواقف نہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ سود خوری کا طریقہ کوئی آج دنیا میں پیدا نہیں ہوا۔ اسلام سے پہلے جاہلیت میں بھی اس کا سلسلہ جاری تھا۔ قریش مکہ، یہود مدینہ میں اس کا عام رواج تھا اور ان میں صرف شخصی اور خاندانی ضرورتوں کے لیے نہیں بلکہ تجارتی مقاصد کے لیے بھی سود کا لین دین جاری تھا۔ ہاں نئی بات جو آخری دو صدی کے اندر پیدا ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ جب سے یورپ کے بنئیے دنیا میں برسراقتدار میں آئے ہیں تو انہوں نے مہاجنوں اور یہودیوں کے سودی کاروبار کو نئی نئی شکلیں اور نئے نام دیئے اور اس کو ایسا عام کر دیا کہ آج اس کو معاشیات و اقتصادیات اور تجارت کے لیے ریڑھ کی ہڈی سمجھا جانے لگا اور سطحی نظر والوں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ آج کوئی تجارت یا صنعت یا کوئی معاشی نظام بغیر سود کے چل ہی نہیں سکتا۔ اگرچہ فن کے جاننے والے اور ماحول کی تقلید سے ذرا بلند ہو کر وسیع نظر سے معاملات کا جائزہ لینے والے اہل یورپ کا بھی یہ فیصلہ ہے کہ سود معاشیات کے لیے ریڑھ کی ہڈی نہیں بلکہ ایک کیڑا ہے جو ریڑھ کی ہڈی میں لگ گیا ہے جب تک اس کو نکالا جائے گا دنیا کی معاشیات اعتدال پر نہ آ سکے گی۔

ہر مسلمان کو علم ہے کہ قرآن مجید اور احادیث میں سود کو واضح طور پر حرام قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں سود کے حوالے سے انتہائی سخت وعیدیں ہیں جو کہ کسی دوسرے گناہ کے متعلق نہیں ہیں۔ قرآن پاک میں سب سے پہلی آیت جس میں سود کے ناپسندیدہ ہونے کا اشارہ ملتا ہے وہ سورہ روم کی یہ آیت ہے۔ ’’جو سود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو اس کے دینے والے در حقیقت اپنا مال بڑھاتے ہیں ’’۔ (الروم۔ 39)۔ اسلام میں سود کے ناپسندیدہ ہونے کی شدت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک اسلامی سلطنت میں کافر امن و امان سے رہ کر اپنے تمام مذہبی معاملات کی پابندی کر سکتا ہے۔ لیکن سود کا کاروبار کرنے کی اس کو بھی اجازت نہیں ہے۔ شب معراج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عالم غیب کی بہت سی چیزوں کا مشاہدہ کرایا گیا، اسی ضمن میں جنت اور دوزخ کے بعض مناظر بھی دکھائے گئے تاکہ خود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حق الیقین کے بعد عین الیقین کا مقام بھی حاصل ہو جائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ذاتی مشاہدہ کی بنا پر لوگوں کو عذاب و ثواب سے آگاہ کر سکیں۔ اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک منظر بھی دیکھا جس کا مندرجہ بالا حدیث میں ذکر ہے کہ کچھ لوگوں کے پیٹ اتنے بڑے ہیں جیسے کہ اچھا خاصا گھر اور ان میں سانپ بھرے ہوئے ہیں جو دیکھنے والوں کو باہر سے نظر آتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دریافت کرنے پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ سود لینے والے اور کھانے والے لوگ ہیں جو اس لرزہ غیز عذاب میں مبتلا کیے گئے ہیں