سودی قرضے دو طرح کے ہوتے ہیں ذاتی قرضے ذاتی ضروریات کے لیے اور تجارتی یا صنعتی قرضے جو کہ بینکوں سے لیے جاتے ہیں۔
آج کل کچھ مسلمان جہالت سے سود کے جواز کی نمائندگی کرتے ہیں کہ جس سود کو قرآن نے حرام قرار د یا ہے وہ ذاتی قرضے ہیں۔ جن کی شرح سود انتہائی ظالمانہ ہوتی ہے جبکہ تجارتی سود حرام نہیں ہے۔ کیونکہ اس دور میں ایسے تجارتی سودی قرضوں کا رواج ہی نہیں تھا۔ نیز ایسے قرضے جو کہ باہمی رضامندی سے لیے اور دیے جاتے ہیں اور ان کی شرح سود بھی مناسب ہوتی ہے اور اس طرح کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ لہذا یہ تجارتی سود اس سے مستثنی ہیں جنہیں قرآن نے حرام قرار دیا ہے ۔
مذکورہ استدلال مندرجہ ذیل دلائل کی بنا پر غلط ہے۔
دلیل نمبر ایک: دور نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں بھی تجارتی سود موجود تھا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سود کی حرمت سے قبل یہی کاروبار کرتے تھے۔
دلیل نمبر دو: قرآن میں ربو کا لفظ علی الاطلاق استعمال ہوا ہے جو کہ ذاتی اور تجارتی دونوں قسم کے قرضوں کو حاوی ہے۔
دلیل نمبر تین : قرآن نے تجارتی قرضوں کے مقابل یہ آیت پیش کی ہے واحل اللہ البیع وحرم الربو اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام سورۃ البقرہ پارہ دو آیت 275 اور ذاتی قرضوں کے مقابل یوں فرمایا یمحق اللہ الربو ویربی الصدقات اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کی پرورش کرتا ہے (سورۃ البقرہ پ 2 آیت 276۔ ّ