عربی زبان  و ادب عرب قوم سامی اقوام کی ایک شاخ ہے۔  ان قوموں میں بابلی، سریانی فینیقی، آرمینی، حبشی، سبئی اور عربوں کو شامل کیا جاتا ہے۔  مؤرخین نے عرب اقوام کو مندرجہ ذیل تین قسموں میں تقسیم کیا ہے۔

 (۱) عرب بائدہ: یہ وہ عربی اقوام ہیں جن کے حالات کا نہ تو تاریخ سے پتہ چلتا ہے اور نہ ہی آثار قدیمہ سے البتہ ان کی زبان کا نمونہ ان کتبوں اور تحریروں میں ہے جو حال کی کھدائیوں میں ملے ہیں۔

(۲) عرب عاربہ یا قحطانی عرب: یہ یمن کے وہ باشندے ہیں جو نسلاً یعرب بن قحطان کی اولاد میں سے ہیں۔  عربی زبان کے اصلی بانی یمن کے یہی باشندے تھے۔

(۳) عرب مستعربہ یا عدنانی عرب: یہ حجاج کے وہ عرب ہیں جو عدنان کی نسل سے تھے یہ لوگ انیسویں صدی قبل مسیح حجاز میں آ کر ٹھہرے اور یہی بس گئے۔

مذکورہ بالا تمام اقوام عربی زبان بولتی تھیں۔  عربی زبان کی ابتدا اور اس کی نشوونما ماہرین لسانیات کا اتفاق ہے کہ سامی اقوام اپنی بستیوں میں جو زبانیں بولتی تھیں ان ہی ایک شاخ عربی زبان بھی ہے۔  اور اس طرح عربی زبان کو آریائی یا حامی زبان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔  عربی زبان دنیا کی ان وسیع ترین سلیس اور خوبصورت زبانوں میں سے ہے جن کی مثال مشکل سے ملے گی۔  یہ زبان دائیں سے بائیں طرف کو لکھی جاتی ہے۔  اس میں ۲۸ حروف تہجی ہیں۔  اس زبان میں بعض حروف جیسے (ض) ایسے ہیں جو دوسری زبانوں میں نہیں ملتے اور نہ دوسری قومیں ان کا صحیح تلفظ کرسکتی ہیں اسی لیے عرب فخریہ کہتے ہیں کہ ’’نحن الناطقون بالضاد‘‘ یعنی دنیا میں صرف ہم ہی ضاد کا صحیح تلفظ کرسکتے ہیں۔  اس زبان میں الفاظ کی آخر آواز کو مخصوص نشانوں (اِعراب) کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے۔  حروف کے ذریعہ لکھ کر نہیں ، جیسا کہ آریائی زبانوں میں ہوتا ہے۔  اسی زبان میں مسلمانوں کی مقدس مذہبی کتاب قرآن شریف نازل ہوئی ہے اور اسی زبان میں اسلام کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی باتیں کہی ہیں اور مذہبی تعلیم دی ہے۔  ۱۹۶۰ء کی مردم شماری کے مطابق اس زبان کو جزیرہ نمائے عرب کے علاوہ ہلال حصیب شمالی افریقہ اور دوسرے ملکوں کے ایک کروڑ سے زائد اشخاص بولتے ہیں۔  اور چوں کہ اس زبان میں قرآن اور حدیث کے علاوہ تمام اسلام علوم و فنون بھی لکھے گئے ہیں اس لیے ساری دنیا کے مسلمان اسے اپنی مقدس مذہبی زبان مانتے ہیں۔  انجمن اقوام متحدہ نے دوسری چار زبانوں کے ساتھ اسے بھی اپنی کارروائیوں کے لئے تسلیم کر کے اس کی بین الاقوامی حیثیت کو سندِ اعتبار عطا کی ہے۔

 عربی زبان کے مختلف لہجے عربی زبان اپنی اصلی شکل میں کس طرح وجود میں آئی اس کا یقینی پتہ لگانا بہت مشکل کام ہے کیوں کہ جس وقت اس کی واضح شکل ہمارے سامنے آئی ہے وہ اسلامی زمانہ تھا اور اس وقت عربی زبان اپنے عروج کو پہنچی ہوئی تھی۔  مگر اب مختلف عرب ممالک میں کھدائیاں کرنے کے بعد جو آثار قدیمہ ملے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان تین مختلف لہجوں میں بولی جاتی تھی۔  لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ جو ں جوں عرب قبائل میں تجارت، میلوں ٹھیلوں ، حج کعبہ اور دوسرے ذرائع سے آپس میں میل جول بڑھا تو لہجوں کا یہ اختلاف رفتہ رفتہ مٹ گیا اور ایک نئی اور خوبصورت زبان نکل آئی جو ’’لہجہ قریش‘‘ میں تھی۔  اور جب اس لہجہ میں قرآن شریف بھی نازل ہو گیا تو اس زبان کو عمر جاوداں مل گئی۔  اور یہی وہ زبان ہے جو آج بھی علمی، ادبی، سیاسی، تاریخی، فنی، تکنیکی اور دیگر ضرورتوں میں عرب ملکوں میں استعمال ہوتی ہے۔

 عربی رسم خط جس طرح عربی زبان کی ابتدا اور ع اس کی نشوونما کے متعلق اب تک کوئی قطعی بات نہیں کہی جا سکتی تھی اسی طرح عربی زبان کے رسم خط کے بارے میں بھی علما اور ماہرین لسانیات کی معلومات محدود تھیں۔  تقریباً نوے سال ہوئے مستشرقین (اسلامی علوم و فنون اور عربی کے ماہر یورپین علما) نے مختلف عرب ممالک میں کھدائیاں کر کے جو تحریریں اور کتبے نکالے ہیں ان کی بنیاد پر ان علما کا خیال ہے کہ آج سے ہزاروں سال پہلے حجری عہد کے دوسرے دور میں بحر روم کے ساحلوں پر بسنے والی قوموں میں جب تہذیب و تمدن کو نشوونما ہوا تو انہوں نے اس وقت تک رائج نقوش کی زبان کو پہلی مرتبہ رسم خط میں تبدیل کیا۔  بعد میں جب ان کے یہاں تہذیب و تمدن نے مزید ترقی کی، صنعت و حرفت بڑھی اور تجارت میں مزید توسیع ہوئی تو ۳۶۰۰ ق م بلکہ غالباً اس سے بہت پہلے ایلام سومیریا اور مصر میں ایک ایسا رسمِ خط ایجاد ہوا جس میں دل کی بات تصویروں کے ذریعہ اد ا کی جاتی تھی اس رسم خط کا نام ’ہیرو غلیقی‘ یا قدیم مصری طرز تحریر تھا۔  اس رسمِ خط کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں پورے جملے کی ترجمانی ایک تصویر کرتی تھی۔  فینیقی قوم نے جو ان دنوں کنعان میں بحر روم کے ساحل پر آباد اور تجارت پیشہ تھی مصر میں ایجاد شدہ حروف تہجی کو ٹائر (Tyre)سِڈون (Sidon) ببلوس(Byblos)کے علاقوں کے علاوہ بحر روم کے ساحل پر آباد تمام شہروں میں پہنچایا اور انہیں شہروں میں قدیم سامی قوم آرامی بھی رہتی تھی جس نے اس رسم خط کو ان کے ذریعہ سیکھا۔  فینیقوں کے رواج دیے ہوئے اس رسم خط سے جس کا سلسلہ ہیرو غلیقی سے جا ملتا ہے ، بعد میں دو رسم خط نکلے ایک جنوبی عرب یعنی یمن میں جس کا نام ’’خط مسند‘‘ تھا یہ خط قبل مسیح پورے جزیرہ نمائے عرب میں استعمال ہوتا تھا۔  دوسرا خط ’’آرامی یا نبطی خط‘‘ تھا اس کا رواج شمالی عرب میں عیسائیوں اور یہودیوں کے واسطے سے ہوا جوا س وقت بنی ارم کی زبان میں لکھتے تھے۔  بعد میں خط مسند کی کئی اور شاخیں ہو گئیں۔  چنانچہ جزیرہ نمائے عرب کے شمالی حصہ میں رسم خط صفوی، ثمودی اور لحیانی کا رواج رہا اور جنوبی حصہ میں حیری کا۔  عربوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنا حجازی رسم خط حیرہ اور انبار کے لوگوں سے لیا اور انہوں نے نبطیوں اور کندیوں سے اور ان لوگوں نے خط مسند سے اس طرح عربی خط کا سلسلہ مسندیعنی یعنی میں رائج شدہ خط سے جا ملتا ہے۔  عرب مؤرخین کا بیان ہے کہ قبیلہ طے کے تین افراد نے عربی رسم خط ایجاد کیا تھا جن کے نام مرار بن مرۃ، اسلم بن سدرۃ اور عامر بن جدرۃ ہیں۔  انہوں نے سریانی زبان کے قاعدوں کے مطابق عربی زبان کے رسم خط کو ڈھالا ور انبار کے بعض لوگوں نے اس کی تعلیم دی انباریوں نے اس خط کو حیرہ کے لوگوں کو سکھایا اور بشر بن عبدالملک نے جو دوت الجندل کے والی اکیدر بن عبدالملک بن عبدالجن الکندی کا بھائی اور مذہباً عیسائی تھا حیرہ میں اپنے قیام کے زمانے میں اس رسم خط کو سیکھا اور مکہ میں جب ایک مرتبہ ٹھہرا تو اس نے سفیان بن امیہ اور ابوقیس بن عبدمناف کو لکھنے کا طریقہ بتایا اور اس طرح مکہ میں لکھنے کا رواج ہوا۔  لیکن مکہ اور مدینہ دونوں شہروں میں اسلام سے پہلے لکھنا جاننے والے بہت کم تھے مکہ کی بہ نسبت مدینہ کے یہودی زیادہ تعداد میں لکھنا جانتے تھے۔  غزوہ بدر میں مکے کے جو لوگ قید ہوئے ان میں سے پڑھے لکھے قیدیوں کا فدیہ رسول اللہ صلعم نے یہ مقرر کیا کہ وہ مدینہ کے مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیں۔  اس طرح مدینہ کے اندر لکھنے پڑھنے کا رواج پڑا بعد میں جب تعلیم کا رواج بڑھا تو نئی نسل پوری تعلیم یافتہ ہو گئی۔  ذیل میں عربی رسم خط کا شجرہ نسب دیا جاتا ہے۔  عربی ادب کی تاریخ کو عام طور سے پانچ ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

۱-جاہلی زمانہ: یہ زمانہ پانچویں صدی سے شروع ہو کر اسلام کے ظاہر ہونے پر ۶۲۲/۶۲۳ء میں ختم ہوتا ہے۔

 ۲-اسلامی زمانہ: اسلام کے ظاہر ہونے سے شروع ہوتا ہے اور بنی امیہ کی حکومت کے خاتمہ پر ۱۷۹۸ء میں ختم ہوتا ہے۔

۳- عباسی زمانہ : عباسی سلطنت کے قیام سے شروع ہو کر زوال بغداد سنہ ۱۲۵۸ء میں ختم ہوتا ہے۔

 ۴- انحطاط کا زمانہ: بغداد کی تباہی (۱۲۵۸ء) سے شروع ہو کر نیپولین کے حملہ مصر پر ۱۷۹۸ء میں ختم ہوتا ہے۔

  ۵- موجودہ زمانہ: نیپولین کے مصر پر حملہ اور محمد علی پاشا کی حکومت سے شروع ہوتا ہے اور اب تک جاری ہے (۱۷۹۸ء۔  تا حال) اس زمانہ کے دو دور ہیں۔  ایک نشاۃ ثانیہ کا پہلا دور اور دوسرا ’’نشاۃ ثانیہ کا دوسرا دور‘‘ جو چل رہا ہے۔

فینیقی

(۱)مسند (۲) آرامی یا نبطی

(۱) لحیانی (۲)نمودی (۳)صفوی (۴)حیری