عربوں کو من حیث القوم شاعری کا ذوق فطری طور ملا ہے۔  یہ قوم بدوی زندگی گزارتی تھی۔  ان کی نسل ہر طرح کی آزادی کے ساتھ آغوشِ فطرت میں پروان چڑھتی تھی۔  حد نگاہ تک پھیلا ہوا صحرا تیز اور جھلسا دینے والا سورج سخت اور تند صحرائی آندھیاں ، چمکتا دمکتا چاند، ہنستے مسکراتے ستارے ، نشیلی صبحیں اور پر کیف شامیں ان کا سرمایہ فکر و نظر تھیں چنانچہ عرب شاعر اپنے فطری ماحول میں ڈوب کر اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار شہر میں کرتا تھا۔  یہی وجہ ہے کہ زمانۂ جاہلی کا جو شعری سرمایہ ہم تک پہنچا ہے وہ بہت مؤثر اور وقیع ہے اور زبان و بیان کا بہترین نمونہ ہے۔  اور اسی کے ساتھ بدوی زندگی کا مرقع تھا۔  چوں کہ جاہلی زمانہ میں شاعر اپنے قبیلہ کی مدح اس کے کارنامے گنا کر فخر کرنے کے علاوہ اس کی طرف سے دوسرے قبیلوں کے شاعروں کا جواب دیتا تھا اپنے قبیلہ کی عزت اور ناموس کی حفاظت کرتا تھا۔  اس لیے عربوں کے یہاں شاعروں کی بڑی قدر تھی۔  چنانچہ جب کسی قبیلہ میں کوئی لڑکا شاعر بن کر چمکتا تو لوگ اس قبیلہ کو مبارکباد دیتے تھے ، خوشی کے شادیانے بجائے جاتے تھے۔  اور وہ قبیلہ دوسروں کے مقابلہ میں اپنا سر اونچا کر کے چلتا تھا۔  زمانہ جاہلی میں ایک سو بیس سے زائد شعرا نے نام پیدا کیا لیکن ان میں سے اکثر کا کلام ضائع ہو گیا۔  عام جاہلی شعرا کے کلام میں اس زمانہ کے اعتبار سے اعلیٰ بدوی اخلاق کی تعلیم عمدہ اور پاکیزہ مضامین و معانی اور بلند پایہ اغراض و مقاصد ملتے ہیں۔

  اگر چہ عام طور سے عرب شعرا انعام و اکرام کے لالچ سے بادشاہوں ، امرا اور رئیسوں کی شان میں مدحیہ قصیدے نہیں کہتے تھے۔  پھر بھی دو ایک شاعر ایسے بھی گزرے ہیں جیسے النابغہ الذبیانی اور حسّان بن ثابت جنہوں نے بادشاہوں کی شان میں مدحیہ قصائد کہے ہیں۔  جاہلی شعرا اپنے کلام میں بھاری بھرکم اور پرشکوہ الفاظ استعمال کرتے تھے ان کے یہاں خیالات میں گہرائی یا افکار میں ندرت اور بلندی نہیں ملتی۔  سیدھے سادے خیال کو حسین مگر پر شکوہ الفاظ کا جامہ پہنا کر کلام کے اثر کو دوبالا کر دیتے تھے مبالغہ، استعارہ، باریک تشبیہات یا فلسفیانہ مضامین ان کے کلام میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔  البتہ وصف اور منظر کشی، جیسے اونٹ گھوڑے اور بھیانک رات کے وصف میں انہوں نے اپنا پورا زورِ بیان صَرف کر دیا ہے۔

 عام طور سے جاہلی شعرا نے حسبِ ذیل اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔  (۱) فخر و حماسہ (۲) وصف (۳) مدح (۴) ہجو (۵) مرثیہ (۶) غزل (۷) معذرت اور حکمِ وامثال۔  مُعلقّات۔  یوں تو جاہلی زمانہ میں بہت سے نامور شعرا پیدا ہوئے جن کا کلام عربی شاعری میں زبان و بیان اور اغراض و مقاصد کے اعتبار سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے مگر ان میں ایک خاص طبقہ سب سے زیادہ ممتاز رہا ہے جن کو ’’اصحاب معلّقات‘‘ کہتے ہیں۔  یعنی وہ شاعر جن کے قصیدے خانۂ کعبہ میں لٹکائے گئے۔  زمانۂ جاہلیت میں دستور تھا کہ عکّاظ کے میلے میں عرب کے تمام شعرا جمع ہوتے تھے (النابغہ الذبیانی) مشہور جاہلی شاعر کی صدارت میں محفل مشاعرہ گرم ہوتی تھی جس میں تمام شعرا اپنا کلام سناتے تھے۔  آخر میں میر مشاعرہ فیصلہ سناتا تھا کہ اس سال کس شاعر کا قصیدہ سب سے زیادہ اچھا رہا۔  چنانچہ اس شاعر کے قصیدے کو سونے کے پانی سے لکھ کر خانۂ کعبہ میں لٹکا دیا جاتا تھا۔  ایسے قصیدہ کو ’’مُعلّقہ‘‘ یعنی خانۂ کعبہ میں لٹکایا ہوا قصیدہ کہتے تھے۔  چنانچہ ان بے شمار شاعروں میں جو زمانہ جاہلی میں نامور سمجھے جاتے تھے آٹھ شعرا کا کلام عکاظ کے میلے میں اول آنے پر خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا۔  اور یہی معلقات جاہلی شاعری کی جان اور اس کا صحیح اور اصل نمونہ ہیں۔  ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔  ۱-امراؤ القیس م ۵۳۹ء ۲- النابغہ الذبیانی م ۶۰۴ء ۳-زہیر بن ابی سلمیٰ۔  سنہ ۹ ھ مطابق ۶۳۱ء ۴-عنترہ بن شداد العبسی م ۶۱۵ء ۵-الاء عشیٰ قیس م ۶۲۹ء ۶- طرفۂ بن العبدم ۵۵۲ء ۷- عمرو بن کلثوم ۵۷۱ء ۸- لبید بن ربیعہ م ۴۱ھ مطابق ۶۸۰ء

مذکورہ بالا شعرا میں اسے امراؤ القیس دورِ جاہلیت کی شاعری کا نمائندہ شاعر مانا جاتا ہے۔  اس کو ’’بگڑا نواب‘‘ (الملک الفلیل) کہتے ہیں کیوں کہ یہ شراب و کباب اور حسن و شباب کا رسیا تھا۔  امراؤ القیس نے سب سے پہلے عربی شاعری میں محبوبہ کے دیار پر کھڑے ہو کر رونے کی رسم نکالی۔  اس نے اپنے معلقہ میں گھوڑے اور محبوبہ کا سراپا کھینچنے تاریک اور وحشتناک رات اور اس کی درازی اور پانی برس کر کھل جانے کی منظر کشی میں بڑی فنی مہارت اور قدرتِ زبان قوتِ تخیل اور ندرت بیان دکھائی ہے۔  اسی لیے عربی ادب میں اس کا معلقہ اول نمبر پر رکھا جاتا ہے

اصحاب معلقات میں دوسرا شاعر جسے امتیازی حاصل حیثیت حاصل ہے وہ النابغہ الزبیانی ہے اس کے کلام میں جذبات انسانی کی بڑی صحیح اور سچی تصویر ہوتی ہے اور خاص طور سے صدق و صفا کے نغمے  اس نے بڑے مؤثر انداز میں گائے ہیں۔  اس کی امتیازی خصوصیت معذرت خواہی ہے۔

  اصحاب معلقات میں تیسرے نمبر پر زہیر بن ابی سلمیٰ کا نام ہے یہ بڑا پاکباز انسان دوست، صلح پسند اور صلح جو شاعر تھا۔  اس کے گھر کے تمام افراد شاعر تھے۔  جاہلی معاشرہ میں یہ پہلا شخص ہے جس نے صلح و آشتی، میل جول اور محبت و خلوص کے لافانی نغمے گائے ہیں اور جنگ و جدال کے برے نتیجوں کو دکھ اکر ان سے بچنے کی تلقین کی ہے۔  وہ ایک قصیدہ کہنے کے بعد سال بھر تک اس کی نوک پلک درست کرتا تھا۔  ا ور ہر طرح سے جب مطمئن ہو جاتا تھا۔  تب ہی اسے سناتا تھا۔  اس نے اپنے معلقہ میں عرب کے ان دو امرا کی دل کھول کر تعریف کی ہے۔  جنہوں نے جنگ داحس وعنبرا کے مقتولین کا خوں بہا اپنی جیب سے دے کر اس منحوس لڑائی کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم کرایا۔

 معلّقات کو چوتھا مشہور شاعر عمر و بن کلثوم ہے۔  اسے فخر و مباہات میں امتیازی شان حاصل تھی۔  عزت نفس، خودی و خود داری میں اس کا جواب نہیں اس نے اپنے علاقہ کے بادشاہ عمرو بن ہند کو صرف اس وجہ سے بھری محفل میں قتل کر دیا کہ عمرو کی ماں نے شاعر کی ماں سے ایک دعوت میں پلیٹ اٹھا کر دینے کو کہا تھا۔  اس واقعہ کے بعد اس نے اپنا معلقہ کہاجس میں اپنی اور اپنے قبیلہ اور خاندان کی ایسی تعریف و توصیف کی ہے جس کا جواب پوری عربی شاعری میں نہیں ملتا۔

  عنترہ بن شداد العبسی جو لونڈی زادہ تھا، فن سپہ گری میں ممتاز اور معرکہ کار زار کا ہیرو تھا۔  حرب داخس و غبرا میں اس نے وہ دادِ شجاعت دی تھی جس کی مثال نہیں ملتیں۔  اس کی شاعری جنگ کے میدان کا نقشہ کھینچنے بہادری اور بے جگری سے لڑنے پر اکسانے اور ’’جان جائے پر آن نہ جائے ‘‘ کی زندہ مثال ہے۔

  ان خاص شعرا کے علاوہ جاہلی زمانے میں چند ممتاز شعرا اور بھی ہوئے ہیں۔  جن میں سے بعض نامور شعرا کے نام یہ ہیں۔  مہلہل بن ربیعہ (م ۵۰۰ء) کہتے ہیں کہ یہ عربوں کا پہلا شاعر تھا شراب و کباب اور رندی وہوسناکی کا رسیا تھا۔  شراب و شباب کی تعریف اور معرکہ کارزار کی منظر کشی اس کا خاص موضوع تھی۔  عمرو بن مالک الازدی جس کا لقب شنفری تھا۔  یہ طبقہ ’’صحالیک الشعرا‘‘ یعنی خانماں برباد منچلے نوجوان شعرا کا ہیرو تھا۔  جو گھر بار چھوڑ جنگلوں اور صحراؤں میں رہتے تھے۔  شنفری کا کلام بڑا مؤثر، الفاظ بڑے پر شکوہ ثقیل اور بھاری بھرکم ہیں اس کا قصیدہ لامیۃ العرب عرب بدوی نوجوان کی زندگی اس کی تکالیف اور گھر بار دوست و احباب سے دوری اور مہجوری کی دل خراش داستان ہے اور صحرا کی زندگی کی صحیح تصویر۔

 ان کے علاوہ اس عہد کے شعرا میں المتلمس (م ۵۵۰ء) المسول بن عادیہ (م ۵۶۰ء) اوس بن حجر (م۶۱۱ء) امیہ بن ابی ا لصلت (م ۶۲۴ء) حاتم طائی (م ۶۹۰ء) خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔