رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کو حدیث کہتے ہیں۔  قرآن کے بعد عربی زبان میں فصاحت و بلاغت اور زبان دانی میں آپ امام تھے آپ کی حدیثیں اور تقریریں عربی ادب کے شہ پارے سمجھی جاتی ہیں۔  آپ کی حدیثوں اور تقریروں نے بھی عربی زبان و ادب کو نئے الفاظ نئی تعبیریں اور اچھوتا انداز بیان دے کر مالا مال کیا۔

رسول صلعم اور خلفائے راشدین کے عہد میں چوں کہ مسلمان ایک طرف نیا دین سیکھنے اور اس کے دشمنوں سے جنگوں میں مشغول رہے۔  ا س لیے نثر میں کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا۔  البتہ خطابت کو رسول اللہ صلعم کے خطبات کی وجہ سے جو آپ خاص طور پر جمعہ اور عیدین کے موقعوں پر دیتے تھے۔  بڑی ترقی ہوئی۔  چنانچہ آپ اپنے زمانہ کے سب سے زیادہ قادر الکلام اور معجز بیان مقرر تھے۔  آپ کے بعد آپ کے جانشین خلفائے راشدین میں بھی ملکہ خطابت پوری طرح موجود تھا۔  حضرت علی کو اس صنف میں امتیاز حاصل تھا۔  قرآن کی تلاوت اور رسول اللہ صلعم کے فیض صحبت نے آپ کی زبان و بیان کو نکھار دیا تھا۔  چنانچہ آپ بہت قادر الکلام فصیح و بلیغ ادیب و مقرر بن کر چمکے۔  آپ نے اپنے عہدِ خلافت میں جو تقریریں کی تھیں وہ خطابت کا اعلیٰ نمونہ ہونے کے ساتھ ساتھ ادب و فن کا بھی بہترین نمونہ ہیں جواب تک داخل درس ہیں۔  رسول اللہ صلعم اور خلفائے راشدین کے زمانے میں شعر و شاعری رسول صلعم ایک خاص دعوت لے کر تشریف لائے تھے۔  اس دعوت کے اصول اور احکامات عرب جاہلی معاشرے کے معتقدات، رسم و رواج اور عادات کے بڑی حد تک مخالف تھے شعر و شاعری جو عربوں کی گھٹی میں داخل تھی جس نہج پر زمانۂ جاہلی میں چل رہی تھی نئی دعوت اور اس نئے معاشرہ کے متقضیات کے منافی تھی اسی لیے رسل اللہ صلعم نے شعرو شاعری کی ہمت افزائی نہیں کی۔  دوسری طرف نئے مسلمانوں کو دین سیکھنے اور اس کو پھیلانے سے ہی فرصت نہ تھی کہ وہ دوسری طرف دل و دماغ لگاتے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس زمانہ میں سرزمین عرب سے نئے شعراء نہ ابھرسکے۔  زمانہ جاہلی کے شعرا میں سے جن لوگوں نے اسلام قبول کیا ان میں سے بعض نے شعر کہنا بالکل چھوڑ دیا تھا جیسے لبید بن ربیعہ اور مشہور جاہلی مرثیہ گو شاعر خنسا۔  البتہ جن شعرا نے مشق سخن جاری رکھی انہوں نے پرانی ریت کو چھوڑ کر اسلامی تعلیمات اور ارشادات نبوی کے دائرہ میں رہ کر رسول اللہ صلعم کی مدافعت یا آپ کی مدح اور کُفّارِ مکہ کی ہجو اور اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے شعر کہے۔  شعرا کے اس طبقہ کو زمانہ جاہلی میں ابھرا اور بعد میں مسلمان ہوا ’’مخضر مین ‘‘ یعنی دو زمانے پائے ہوئے (جاہلیت اور اسلام) شعرا کہتے ہیں۔  ان میں سب سے زیادہ مشہور حضرت حسان بن ثابت ہیں جو رسول اللہ صلعم کے خاص شاعر تھے اور آپ کی طرف سے مکہ والوں کو جواب دیتے تھے۔  اور دوسرے کعب بن زہیر ہیں۔  مخضرین میں ایک اور شاعر الحطیۃٔ بھی ہے جس نے جاہلی رنگ میں ہجو گوئی میں کمال پیدا کیا تھا۔  اور جس نے شرفا کے علاوہ اپنے ماں باپ اور حد تو یہ ہے کہ خود اپنی ہجو لکھی ہے۔  خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی شعر و شاعری کی یہی کیفیت رہی۔  البتہ حضرت عثمان کے قتل کے بعد دینی اور سیاسی فرقوں کے پیدا ہونے اور ان کی آپس کی کشمکش سے فنِ خطابت کے علاوہ شعر و شاعری کو بھی ترقی ہوئی جس کے اثرات کھل کر عہد بنی امیہ میں سامنے آئے اور نظم میں نت نئی تعبیریں آئیں اور نئی راہیں کھلیں۔