ظہور اسلام کے وقت قبائل مصر میں چند ہی افراد لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔  ان میں سے جو لوگ ایمان لے آئے تھے ان سے آنحضرت قرآن لکھوانے کا کام لیتے تھے چنانچہ ان کا نام ’’کاتبین وحی‘‘ یا ’’وحی لکھنے والے ‘‘ پڑ گیا تھا۔  آپ کو جب بادشاہوں اور امرا کو دعوت اسلام کی غرض سے خطوط لکھنے کی ضرورت پڑی تو آپ نے انہی لوگوں سے کام لیا۔  بعد میں صلح نامے اور معاہدے بھی آپ نے انہیں لوگوں سے لکھوائے۔  خلفائے راشدین کے زمان میں حضرت عمر نے معاہدوں ، صلح ناموں اور خطوط کے علاوہ ایک نیا تحریری کام فوج کے رجسٹر بنانے کا کرایا۔  اموی زمانہ میں حضرت معاویہ نے اس کام کو اور آگے بڑھایا اور چند نئے شعبے کھولے جن میں ’’محکمہ خراج‘‘ خاص طور سے قابل ذکر ہے۔  دوسرا بڑا کام یہ کیا کہ سرکاری خطوط اور فرامین لکھنے کے لیے ایک الگ محکمہ ’’دیوان الرسائل‘‘ کے نام سے کھولا جس کا نگراں عبید اللہ بن اوس الفانی تھا۔  ان محکموں کے نگراں شروع میں رومی اور فارسی مبان میں اپنے دفتری کا م کرتے تھے لیکن بعد میں ولید بن عبد الملک (۸۶۔  ۹۶ھ) کے زمانے میں سارے محکموں کی زبان عربی ہو گئی اور ایک نئی قسم کا طرز تحریر وجود میں آیا جس کا نام ’’خطوط اور یاد داشت نویسی‘‘ پڑا اور یہیں سے عربی میں نثر کا وجود ہوا۔  اس وقت تک عام طور سے خلفائے اور امرا اپنے خطوط املا کرتے تھے لیکن جب اس قسم کے کاموں کا دائرہ بڑھا اور اس میں شام، عراق اور مصر کے عربوں اور ایرانی، رومی اور مصری قبطیوں کی اولاد آگے بڑھی جس نے عربی زبان پر پورا عبور حاصل کر لیا تھا تو انہوں نے نہ صرف خود اس قسم کے خطوط اور فرامین لکھنے شروع کیے بلکہ دوسری زبانوں کے محاسن اور فنی خوبیوں کو لے کر خود انہوں نے بھی اس میں جدت اور تنوع پیدا کیا۔  اس فن میں ہشام بن عبد الملک (۱۰۵۔  ۱۲۵ھ) کے آزاد کردہ غلام ابو العلا سالم نے بڑا کام کیا اس سے اس کے شاگرد عبد الحمید بن یحیی نے یہ فن سیکھا اور اسے اتنی ترقی دی کہ اب ’’فن کتابۃ الرسائل یعنی’’ فن خطوط یویسی‘‘ایک مستقل فن بن گیا۔  اور اسی وجہ سے عبدالحمید عربی ادب میں ’’الکاتب‘‘ کے لقب سے مشہور ہوا۔  عبد الحمید الکاتب نے جس کام کی ابتدا اس زمانے میں کی تھی آگے اس نے ترقی کی انتہائی منزلیں عبد الحمید الکاتب کے زمانے میں طے کیں اور اس کے بعد ترقی معکوس کی شکل اختیار کر لی۔  اور آخر کار محض پر شکوہ الفاظ گنجلک پیرایہ بیان کا گورکھ دھندا بن کر رہ گیا چنانچہ عربی میں ایک مقولہ رائج ہو گیا کہ ’’بدأت الکتابۃ بعیدالحمید وانتہت بعبد الحمید‘‘ یعنی دفتری خطوط نویسی کی ابتدا عبد الحمید سے ہوئی اور انتہا عبد الحمید پر۔  ‘‘ عہد اموی میں دیگر علوم و فنون کی تدوین عرب زمانہ جاہلی سے اپنی ادبی و علمی تخلیقات کو لکھ کر رکھنے کے عادی نہ تھے بلکہ سب کچھ اپنے سینوں میں محفوظ رکھتے اور حسب ضرورت زبانی بیان کرتے۔  عہد عثمان میں پہلی دفعہ قرآن لکھ کر ممالک اسلامیہ میں تقسیم کیا گیا۔  رسول اللہ ﷺ کی حدیثوں کو بھی سینوں میں ہی محفوظ رکھا گیا تھا۔  مگر اموی عہد میں سیاسی اغراض کے لیے بعض لوگوں نے حدیثیں گڑھنی شروع کیں تو حضرت عمر بن عبد العزیز کے حکم سے صحیح حدیثوں کو یکجا کتابی شکل میں جمع کیا گیا۔  یہ ایک مختصر سی کتاب تھی جو عہد عباسی میں جب حدیث کی بڑی کتابیں لکھی گئیں تو ان میں ہل مل گئی۔  باقی علوم مثلاً تفسیر، حدیث وغیرہ کو علما بدستور زبانی یاد رکھتے تھے۔  اس عہد میں البتہ دو بہت اہم کام انجام پائے : ایک تو قرآن پر اعراب لگانے کا کام تاکہ غیر عرب قرآن کو صحیح پڑھ سکیں اس کام کو حجاج بن یوسف ثقفی نے کرایا۔  دوسرا کام نحو میں ایک رسالے کے لکھنے کا ہے جسے ابو اسود الدولی نے انجام دیا۔  یونانی کتابوں کے ترجمے عہد اموی میں خراج کا حساب کتاب مغربی صوبوں میں رومی زبان میں اور مشرقی صوبوں کا فارسی زبان میں رکھا جاتا تھا اس کام میں عجمیوں کی اجارہ داری کو دیکھ کر حجاج بن یوسف نے ایک نو مسلم ایرانی نو جوان صالح بن عبد الرحمن کے ذریعہ دفتر خراج کو فارسی سے عربی میں منتقل کرایا۔  شام میں خراج کا حساب رومی زبان میں ہوتا تھا جس کا سربراہ سرجون بن منصور النصرانی تھا۔  عبد الملک بن مروان نے ابو ثابت سلمان بن سعد الخشی سے کہہ کر رومی زبان سے عربی میں خراج کے رجسٹر کو منتقل کرایا۔  یونانی اور دیگر زبانوں سے عربی میں ترجمہ کا کام پہلی مرتبہ عبد الملک بن مروان کے عہد میں (۶۵۔  ۸۶ھ) امیر معاویہ کے پوتے خالد بن یزید کے ایما سے ہوا۔  اس نے فن کیمیا سازی کی وہ کتابیں جو یونانی اور قبطی زبانوں میں تھیں عربی میں ترجمہ کرائیں۔  علم طب میں سب سے پہلی کتاب جو عربی میں ترجمہ ہوئی۔  وہ ’’کناش اہرون ابن اعین الطبیب‘‘ ہے جسے سرجویہ یہودی نے حضرت عمر بن عبد العزیز کے حکم سے عربی میں منتقل کیا۔  حضرت معاویہ کے متعلق روایتوں میں آتا ہے کہ انہوں نے صنعاء سے ایک شخص عبید بن شریہ کو بلا کر اس سے ’’کتاب الملوک والاخبار الماضیہ‘‘ عربی میں لکھوائی تھی۔  یہ صحیح ہے کہ عہد اموی میں تصنیف و تالیف کا کام باقاعدہ اور فنی طریقے سے نہ ہو سکا۔  لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس عہد میں علوم و فنون کے مدوّن اور ترجمہ کرنے کے جس کام کی شروعات ہوئی اس کی بنیاد پر عہد عباسی میں علم وفن تالیف و تصنیف اور ترجمہ کا وہ قصر زریں تعمیر ہوا جس سے بعد میں سارے عالم نے کسب فیض کیا۔

  نظم سلطنت کی توسیع کے ساتھ اسباب تعیش کی فراوانی نازو نعم کی زندگی، فکر فردا سے بے پرواہی اور سماج میں احساس برتری کے زیر اثر لطیف احساسات کو جلا، ذوق حسن و جمال کو نکھار اور جذبات و خیالات کو رنگینی و رعنائی ملی۔  چنانچہ عربی زبان میں پہلی مرتبہ حقیقی غزل کا ظہور ہوا۔  اس صنف کا باقی فریش کا ایک بانکا اور طرح دار نوجوان ’’عمر بن ابی ربیعہ‘‘ تھا جس نے بقول فرزق شاعری کی ابتدا تو ہذیان گوئی سے کی تھا لیکن اس صنف میں اس نے زبان و بیان، وصف و منظر کشی، مکالمہ و معاملہ بندی اور حدیث دیدہ و دل بیان کرنے کا ایسا اچھوتا، دل نشین اور سحر طراز انداز ایجاد کیا کہ اس طرز کی غزلوں کو شریف گھرانے کے لڑکے ، لڑکیاں چھپ کر پڑھتے اور منچلے نو جوان گلی کوچوں میں اور گانے بجانے والے بزم ہائے طرب میں گاتے بجاتے اور ایک عالم کو سرمست و گے خود بناتے تھے۔  مکہ سے نکل کر مدینہ میں بھی اس غزل کی صدائے باز گشت وہاں کے شعرا کی زبانوں سے سنائی دی جن کا سردارمحمد بن الاخوصاالانصاری تھا۔  غزل کا بقول ڈاکٹر طٰہ حسین مرحوم ’’یہ حقیقی رنگ‘‘ اس قدر جما اور اس کی تانیں اتنی بلند ہوئیں کہ عباسی دور تک جاتے جاتے ’’غزل اباحی‘‘ ہی نہیں بلکہ ’’غزل عریاں ‘‘ بن گیا جس نے موالی شعرا کے ہاتھوں فروغ پایا۔  بادیہ میں رہنے والے غریب بدوی عربوں کا معاملہ مکہ اور مدینہ کے امیر عربوں سے ذرا مختلف تھا۔  یہاں کے باشندے اپنی بدوی خصوصیات پر نازاں اور اپنے رسم و رواج کوسینوں سے لگائے ہوئے تھے۔  ان کو اس عہد سے پہلے بھی کوئی سیاسی اہمیت نہیں حاصل تھی اور اب بھی نہیں ہوئی۔  بڑے بوڑھوں کو اس سے سکون مل جاتا تھا کہ انہوں نے جہاد فی سبیل اللہ کا حق ادا کر دیا اور ان کی تلواروں کی بدولت آج قیصر و کسریٰ کے ایوانوں پر اسلامی جھنڈا لہرا رہا ہے۔  مگر نئی نسل کو جو اپنے شعور کے ساتھ اعلی اخلاقی اقدار کی بھی حامل تھی بڑی مایوسی ہوئی۔  اس نے دیکھا کہ امویوں نے دار الخلافہ کو مدینہ سے شام منتقل کر کے اور سیاسی پارٹیوں نے اپنی تگ و دو کا مرکز عراق کو بنا کر ان کے علاقے کی اہمیت یکسر گھٹا دی۔  چنانچہ مایوسی اور حالات کے تقاضوں نے ان میں ایک خاص قسم کا زاہدانہ انداز فکر پیدا کر دیا۔  دوسری طرف ان کی عزت نفس بدوی نخوت اور عربی مروت نے ان کے اندر ایسی ذہنی کیفیت پیدا کر دی کہ نہ وہ اپنی بات برملا کہہ سکتے تھے اور نہ کسی کے آگے دستِ سوال دراز کر سکتے تھے۔  نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دل کی بات دل ہی میں رہی اور وہ اپنی سوزش پنہاں سے آپ ہی جلتے رہے۔  احساس مایوسی اور سوز دروں کا زخم جب ان کے دل کے تاروں کو چھیڑتا تھا تو اس کی جھنکار غزل کے ان اشعار میں سنائی دیتی تھی جن میں پاک اور لاہوتی قسم کی محبت کے نغمے گائے گئے تھے ، جنہیں عاشق، محبوب کو اپنے من مندر کا دیوتا بنا کر پوجتا ہے ، چھوتا نہیں ، ہجر و فراق میں صحراؤں اور بیابانوں میں مارا مارا پھرتا ہے مگر محبوب مل جائے تو اس سے ملتا نہیں اس لیے کہ ان لوگوں کا خیال تھا کہ ’’عالم سوزو ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق‘‘ غزل کی اس قسم کو ’’الغزل العذری‘‘ (قبیلہ عذرہ کی طرف نسبت ہے جو اخلاق کریمانہ اور عفت و پاک دامنی میں مشہور قبیلہ تھا) یا پاک غزل کہتے ہیں۔

اس صنف غزل میں طبع آزمائی کرنے والے وہ شعرا میں جن کے عشق و محبت کے افسانے آج بھی زبان زد خاص و عام ہیں۔  ان میں سے خاص طور پر قابل ذکر لیلی کا عاشق مجنوں ، بشینہ کا عاشق جمیل اور عزہ کا عاشق کثیر ہیں۔  اس وضع غزل گوئی کو مدینہ اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والے بدویوں کی نسبت سے مدنی غزل کہا جاتا ہے۔  بادیہ کے ان نوجوانوں میں ایک گروہ اور بھی تھا جو صاحب سیف ہونے کے ساتھ صاحب قلم بھی تھا۔  یہ لوگ امویوں کے خلاف معرکۂ کارزار میں تلوار کے جوہر دکھانے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف شعلہ بار اشعار بھی کہتے تھے۔  ان میں قابل ذکر الکمیت بن زید (م ۱۲۰ھ مطابق ۷۳۸ء) ہے جس نے بنو ہاشم کی مدح میں ایسے شاندار قصیدے کہے ہیں جو اپنی خوبیوں کی وجہ سے ’’ہاشمیات‘‘ کے نام سے عربی ادب میں مشہور ہیں۔  اور جنہیں سن کر فرزق جیسے شاعر نے کہا تھا کہ ’’خدا کی قسم تم گزشتہ اور موجودہ تمام شعرا میں سب سے بڑے شاعر ہو‘‘ اس کے علاوہ اس گروہ میں الطرماح بن حکیم (م ۱۰۰ھ مطابق ۷۱۹ء) اور عمر ان بن حطان (م ۸۹ھ مطابق ۷۱۴ء) بھی نامور شعرا گزرے ہیں۔  حضرت معاویہ کے انتقال کے بعد یزید مروان اور عبد الملک بن مروان کے زمانے میں ہر قسم کے قبایلی دینی اور سیاسی ہنگامے اٹھ کھڑے ہوئے لیکن بنو امیہ نے بھی جم کر اس صورت حال کا مقابلہ کیا۔  اور مال و زر کے علاوہ شعرا، ادبا اور خطبا کو اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔  اس صورت حال سے زبان و ادب کو بڑا فائدہ پہنچا اور پہلی مرتبہ عربی زبان میں ایک طرف سیاسی شاعر کا وجود اور عروج ہوا۔  اور دوسری طرف میدان خطابت میں بھی ایسے قادر الکلام فصیح و بلیغ اور شعلہ بار مقرر پیداہوئے جن کی مثال عربی ادب میں نہیں ملتی۔  سیاسی شاعری میں جن شعرا نے کمال حاصل کیا ان میں ممتاز مسکین الدارمی، اخطل، جریر، فرزق، ابو العباس الاعمی اعمثی ربعیہ اور عدی بن الرقاع ہیں۔  ان شعرا کو قرآن و حدیث کا معجز نما اسلوب بیان ورثہ میں ملا تھا۔  خدا داد صلاحیت اور فہم و ذکا قدرت سے اور ان سب کو بروئے کار لانے کا داعیہ سیاسی حالات اور مادی منفعت سے چنانچہ انہوں نے بنو امیہ کی مدافعت میں اپنا زور طبع اور فطری صلاحیتیں لگادیں جس کی وجہ سے عربی ادب میں نئے نئے مضامین، اچھوتے خیالات اور منجھا ہوا ایک خاص اسلوب بیان پیدا ہوا جو بے حد پسندیدہ اور مقبول تھا۔  پھر ان شعرا کی آپس کی ادبی جھڑپوں سے بھی شاعری میں نت نئی راہیں کھلیں جریر، فرزق اور اخطل کی شاعرانہ چشمکیں اس کی زندہ مثال ہیں۔  ان شعرا میں اکثر نے دوسرے اصناف مثلاً غزل، مدح، ہجو اور مرثیہ وغیرہ میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔