۱۔  ترقی و عروج کا زمانہ : ۷۵۰ء سے ۹۴۷ء مطابق ۱۳۲ھ سے ۳۳۲ھ تک۔

۲۔  طوائف الملوکی کا زمانہ : ۹۴۶ء سے ۱۲۵۸ء مطابق ۳۳۲ھ سے ۶۵۶ ھ تک (زوال بغداد)۔

علم سیاسی و ملکی حالت بنی امیہ کی حکومت لگ بھگ ایک صدی تک رہی۔  اس زمانہ میں پورے معاشرے اور حکومت میں صرف عربوں کی عملداری تھی۔  اس اثنا میں دنیا کی مہذب ترین قومیں اپنے علم و ادب اور فن و فلسفہ کے ساتھ اس نئے اسلامی سماج میں شامل ہونے لگیں۔  اس کے نتیجہ میں بنو عباس نے ان عجمیوں کی مدد سے جن میں اکثر ایرانی تھے وہ حکومت قائم کی جس کے علمی و ادبی، تہذیبی و تمدنی اور فنی و صنعتی کارنامے تاریخ اسلام میں سنہری حرفوں سے لکھے گئے خلفائے بنی عباس نے عجمیوں کے ساتھ اپنائیت اور برابری کا سلوک روا رکھا۔  ا س رویہ کو اس دور کی ہمہ جہت ترقی میں بڑا دخل ہے۔  چنانچہ اس زمانے میں قصر سلطانی کے ادنی سقہ سے لے کر فوج کے سپہ سالار اور سلطنت کے وزرا کی بڑی تعداد عجمی اور بالخصوص ایرانی تھی۔  اور یہیں سے عربوں کا سیاسی اثرورسوخ ختم ہونا شروع ہوا اور ان کی بڑائی اور فضیلت کی ہوا اکھڑنے لگی۔  اب مجبوراً عربوں کو عجمیوں کے ساتھ گھلنا ملنا پڑا۔  اور اس میل جول سے ایک نیا اور اچھوتا معاشرہ وجود میں آیا جس کی بنیاد تو تھی اسلامی عقائد و عبادات پر مگر جن کی سیاست و معیشت میں ایرانی اثر اور علمی و فکری کاموں میں یونانی رنگ پوری طرح نمایاں تھا۔  علم و فن کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان کے مراکز بھی بڑھے۔  چنانچہ اس عہد میں سب سے بڑا مرکز بغداد تھا۔  یہیں مامون نے مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے کے لیے مشہور اکادمی ’’بیت الحکمت‘‘ قائم کی تھی۔  اور یہیں ایک حد تک علوم و فنون پروان چڑھے۔  دوسرا مرکز کوفہ تھا جہاں دین اور زبان سے متعلق علوم کو فروغ ہوا یہیں کی خاک سے لغت ابن الغربی، فرا اور ثعلب اٹھے اور یہیں امام ابو حنیفہ نے مسلک حنفی کی ابتدا کی۔  تیسرا مرکز بصرہ تھا جس نے عربی نحو و لغت کے اکابر علما جیسے الخلیل سیبویہ اور ابن درید پیدا کیے۔  مجاز میں مدینہ حدیث و فقہ کا مرکز رہا جہاں کی خاک سے مشہور محدث اور فقیہ حضرت مالک بن انس اٹھے جنہوں نے فقہ میں مسلک مالکی کی بنیاد رکھی۔  مصر میں فسطاط (قاہرہ) دینی علوم اور زبان کا مرکز بنا۔  جہاں قرطبہ امویوں کا مرکز تھا مختلف مدارس اور مکاتب کھلے یہاں کی خاک سے مشہور ادیب اور نحوی ابن عبد الرب العقد الضرید کے مصنف اٹھے عروج و ترقی کا یہ دور۔  ۱۳۲ھ ۷۵۱ء سے لے کر ۳۳۲ھ ۹۴۰ء تک چلا۔  اس کے بعد یعنی ۳۳۲ھ سے ۶۵۶ھ مطابق ۹۴۶ء سے ۱۲۵۸ء کا زمانہ ہے جس میں ترکوں کا عمل دخل رہا اور ان کی سرکشی کے نتیجہ میں یہ عظیم الشان عباسی سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی اور اقالیم اور صوبوں کے والیوں اور گورنروں نے اپنے قبیلوں کی خود مختار سلطنتیں قائم کر لیں۔  اگرچہ مرکز خلافت اب بھی بغداد رہا لیکن حکومت اور علم و ادب کے مراکز شام و عراق سے منتقل ہو کر بخارا، جرجان، غزنہ، حلب، قاہرہ اور قرطبہ پہنچ گئے۔  اور علم و ادب تاریخ فلسفہ اور دیگر علوم میں عرب وعجم کی مشترکہ کوششوں سے جو ترقیاں ہوئی تھیں۔  اس زمانہ طوائف الملوکی میں ماند پڑنے لگیں اور مشرق میں انحطاط و تنزلی کا دور شروع ہوا۔  جس کی انتہا ہلاکو کے ہاتھوں زوال بغداد پر ہوئی۔  البتہ مصر و شام میں فاطمیوں اور ایوبیوں کے سایۂ عاطفت میں اندلس میں امویوں کی سرپرستی میں علم و ادب کے سرچشمے جاری رہے۔