اس عہد میں اصناف نثر میں ایک نئی صنف نکلی جس کو ’’مقامہ‘‘ کہا جاتا ہے۔  مقامہ ایک خیالی قصہ ہوتا ہے جو ایک راوی بیان کرتا ہے اور ایک مرکزی کردار کے ارد گرد گھومتا ہے جو مختلف بھیس بدل کر مختلف مزاحیہ مضحکہ خیز اور کبھی سنجیدہ رول ادا کر کے لوگوں کو لوٹتا کھسوٹتا ہے۔  مقامہ کی عبارت مقفی مسجع اور اس میں بھاری بھرکم، شاذا ور متروک الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔  اسی لیے یہ رنگ بہت دنوں تک نہ چلا البتہ اس نئے ڈرامہ کے لیے راہ ہموار ہوئی مقامات کو لکھنے والوں میں بدیع الزمان الہمدانی اور حریری نے نام پیدا کیا بیسویں صدی میں ابراہیم مویلحی نے ’’حدیث عیسی بن ہشام‘‘ لکھی جو مقامہ اور ڈرامہ کی بیچ کی چیز تھی۔

علوم دینیہ میں اس زمانہ میں بہت کام ہوا۔  سب سے پہلے تفسیر و حدیث کی جمع و تدوین ہوئی تفسیر میں سفیان بن عین وکیع بن الجراح، شعبہ بن الحجاج، اسحاق بن راہویہ، مقاتل بن سلیمان اور النصر ا نے چھوٹی بڑی کتابیں لکھیں۔  اس طبقہ کے بعد فن تفسیر میں مکمل اور جامع کتاب جریر الطبری نے لکھی ان کے بعد ابراہیم الثعلبی النیشاپوری نے ، پھر محمد الواحدی نے کتابیں مرتب کیں۔  اس زمانے میں اس علم کو باقاعدہ فن کی حیثیت دی گئی۔  تفسیر کے بعد تدوین حدیث کا کام ہوا۔  حدیث میں سب سے پہلی کتاب مؤطا امام مالک ہے اس کے بعد امام بخاری نے ’’صحیح بخاری‘‘ پھر ان کے شاگرد مسلم النیشاپوری نے ’’صحیح مسلم‘‘ پھر عیسی الترمذی پھر ابو داؤد سجستانی ان کے بعد احمد بن شعیب النسائی اور محمد بن ماجہ نے اپنی اپنی کتابیں ترتیب دیں۔  ان ہی چھ کتابوں کو ’’صحاح ستہ‘‘ یعنی حدیث کی چھ صحیح کتابیں کہتے ہیں۔  اسی زمانہ میں فقہ کی بھی تکمیل ہوئی اور اس میں چار مسلک پیدا ہوئے (۱) مسلک حنفی۔  اس کے بانی امام ابو حنیفہ تھے (۲) مسلک مالکی۔  اس کے بانی حضرت امام مالک بن انس تھے (۳) مسلک شافعی۔  اس کے بانی محمدادریس بن شافع تھے (۴) مسلک حنبلی۔  اس کی بنا احمدبن محمد بن جنبل نے ڈالی تھی۔  علوم کلام میں بھی اس زمانہ میں خاصا کام ہوا۔  آخری ابو الحسن الشعری نے کلام کے تمام مکاتب فکر کو ملا کر بیچ کا راستہ جسے اہل سنت والجماعت کا مسلک کہتے ہیں۔  ادبی تصنیف و تالیف میں اسی زمانے میں ابن المقفع اور الجاحظ نے کمال فن کا مظاہرہ کیا۔  ابن المقفع کی مشہور کتاب ’’کلیلہ و دمنہ‘‘ ہے جو سنسکرت کی کتاب پنچ تنتر کا عربی میں ترجمہ ہے۔  جاحظ نے مختلف علوم و فنون میں معیاری کتابیں لکھیں جن میں قابل ذکر البیان والتبیین، کتاب الحیوان اور کتاب الخلاء ہیں۔  احمد بن طیفور نے نظم و نثر پر مشتمل ایک ضخیم کتاب ۱۴ املاؤں میں لکھی۔  اس کے بعد محمد المبرد، ابو حنیفہ الدینوری، ابو بکر محمد الصولی ابن قتیبہ ابن عبد رب ابو علی الفالی اور آخر میں ابو الفرح الاصفہانی نے اپنی مشہور کتاب ’’الاغانی‘‘ مرتب کی۔

  زبان سے متعلق علوم میں نحو میں سیویہ نے سب سے پہلی کتاب ’’کتاب النحو‘‘ لکھی اور اس علم کو علیحدہ فن کی حیثیت دی۔  اس کے بعد نحو میں اختلافات بڑھے اور کوفہ مکتب فکر اور بصرہ مکتب فکر پیدا ہو گئے جو بعد میں مل کر ’’مکتب فکر بغداد‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔  بصرہ کے علمائے نحو میں ابو عمر بن العلاء خلیل بن احمد، سیبویہ، اخفش مشہور ہیں اور کوفہ کے مکتب فکر میں معاذ اسرار (اس نے علم صرف ایجاد کیا) الرواسی اور الکسائی والنصراء قابل ذکر ہیں۔

 علم عروض کو خلیل ابن احمد نے ایجاد کیا۔  اور ۱۵ بحریں نکالیں بعد میں الاخفش نے ’’متدارک‘‘ بحر ایجاد کی فن لغت میں الخلیل بن احمد نے اپنی مشہور کتاب ’’کتاب العین‘‘ ترتیب دی۔  اس کے بعد ابو بکر بن درید نے ’’الجمرہ‘‘ الازہری نے ’’کتاب التہذیب‘‘ پھر حماد الجوہری نے ’’کتاب الصحاح‘‘ ابن سیدہ الاندلسی نے ’’کتاب المحکم‘‘ ابن فارسی نے ’’کتاب الجمل‘‘ اور صاحب بن عباد نے ’’کتاب المحیط‘‘ لکھی۔  علم معانی و بیان میں خلیل کے شاگرد عبیدہ نے ’’مجاز القرآن‘‘ علم بیان جاحظ نے ’’اعجاز القرآن‘‘ علم معانی میں اور ابن المعتز اور قدامہ بن جعفر نے علم بدیع میں کتابیں لکھیں۔  آخر میں امام عبد القاہر البحرجانی نے علم معانی میں ’’دلائل الاعجاز‘‘ اور علم بیان میں ’’اسرار البلاغہ‘‘ لکھ کر ان علوم کو مکمل کر دیا۔  اس سلسلہ کی مبسوط کتاب السکا کی ’’مفتاح العلوم‘‘ ہے جو مسک خنام ہے۔

 فن سیرت و غزوات میں سب سے پہلے محمد بن اسحق نے کتاب لکھی فتوحات اسلامیہ پر واقدی مدائنی اور لوط بن یحیی نے کام کیا۔  فن انساب پر الکلبی، ایام عرب پر ابو عبیدہ اور الاصمعی نے بادشاہوں کی تاریخ پر سب سے پہلے ابن قتیبہ نے پھر الہثیم بن عدی ابن واضح الیعقوبی نے کتابیں لکھیں۔  آخر میں محمد بن جریر الطبری نے سن ہجری کے مطابق سن وار اپنی کتاب مرتب کی۔  اور ابن الاثیر انے ’’تاریخ الکامل‘‘ لکھ کر اس فن کو مکمل کر دیا۔  علم جغرافیہ میں محمد بن الغزاری نے کتاب السند ہند کو ہندی سے عربی میں منتقل کیا۔  پھر بطلیموس کی کتاب ’’المحبسطی‘‘  کو حجاج بن مطر نے عربی کا جامہ پہنایا۔  پھر احمد بن خود انوبہ نے کتاب المالک والممالک لکھی۔  اس فن میں بعد میں علماء نے بڑی پیش رفت دکھائی چنانچہ عدہ عباسی کے دوسرے دور میں بڑے نامور جغرافیہ داں ہوئے جیسے ابن المائک جس نے ’’صفۃ جزیرۃ العرب‘‘ لکھی اور یعقوبی جس نے ’’کتاب البلدان‘‘ تصنیف کی۔

غیر ملکی زبانوں سے عربی میں ترجمہ کا باقاعدہ کام منصور کے زمانہ میں شروع ہوا۔  ہارون الرشید نے ترجمہ کی طرف توجہ دی اور اس کے بعد مامون نے اپنی قائم کردہ اکادمی ’’بیت الحکمت‘‘ کے ذریعہ ترجمہ کا بہت کام کرایا۔  چنانچہ یونانی سریانی ایرانی اور ہندوستانی زبانوں سے فلسفہ طبیعات اور ریاضیات کی کتابوں کے ترجمے کیے گئے۔  ان ترجموں کے زیر اثر مسلمانوں میں بھی باکمال اور قابل ذکر فلاسفہ پیدا ہوئے جنہوں نے عہد عباسی کے دوسرے دور میں اپنی فلسفیانہ تصنیفات اور آرا سے عربی کو مالامال کر دیا۔  اس زمانے کے قابل ذکر فلاسفر ہیں ابو نصر فارابی، یعقوب الکندی، ابو جعفر الخوارزمی، ابو بکر رازی، موسی بن شاکر ہیں جنہوں نے فلسفہ، منطق، سیاسیات، ادب، حساب جیومیٹری اور طب وغیرہ میں اہم کتابیں لکھیں۔  عباسی زمانے کے دوسرے دور میں نثر عہد عباسی کے دور اول میں علم و فن شعر وادب تاریخ و سیرت ترجمہ و نقل کا کام عروج کو پہنچ چکا تھا۔

دوسرے دور میں علما، ادبا، فقہا اور محدثین نے اس سلسلہ کی کمیوں کو پورا کیا۔  چنانچہ ادب و زبان میں ابن الحمید، الصاحب بن عباد ابو بکر الخوارزمی، الصابی، القاضی، الفاضل، ابن شہید، ابو المطرف بن عمیرہ، ابن زیدون اور لسان الدین الخطیب نے اپنی تخلیقات سے عربی ادب کے دامن کو بھر دیا۔  علم فقہ مین ابو الحسن الماوردی نے اپنی کتاب ’’الاحکام السلطانیہ‘‘ برہان الدین الغرفانی ’’الہدایہ‘‘ اور محمد الغزالی نے اپنی مشہور کتاب ’’احیاء علوم الدین‘‘ تصنیف کی فن تفسیر میں الثعلبی نے ’’الکشف و البیان میں تفسیر القرآن‘‘ محمود الزمخشری نے انکشاف’’ اور فخرالدین الرازی نے ’’مفاتیح الغیب‘‘ لکھی فن حدیث میں الحاکم نیشاپوری، سلیم الرازی اور الحافظ بیہقی نے نام پیدا کیا۔  فن تاریخ میں اس عہد کی ممتاز کتابیں یہ ہیں :۔  ابو نصر العتبی کی کتاب ’’الیمینی‘‘ الفتح بن خاقاں کی کتاب ’’قلائد العقیال‘‘ المسعودی کی ’’مروج الذہب‘‘ ابن مسکویہ کی ’’تجارب الامم‘‘ ابن الندیم کی ’’الفہرست ‘‘ اور ابن الاثیر کی کتاب ’’الکامل‘‘ فن جغرافیہ میں اس زمانے میں الاسطخری نے ’’کتاب الاقانیم‘‘ ابن حوقل نے ’’المالک والممالک‘‘ الادریسی نے ’’نزہت المشتاق فی اختراق الآفاق‘‘ لکھی یاقوت الحموی نے ’’معجم البلدان‘‘ جغرافیہ میں ’’ ارشاد الادیب‘‘ اور ادب میں ’’کتاب المہدا والمال‘‘ تاریخ میں لکھی علوم، فلسفہ، منطق، طب، ریاضی، الہیات وغیرہ میں جو ترقی ہوئی اس کا تفصیلی تذکر رہ اسلامی فلسفہ و کلام کے تحت یا اسلامی تصوف کے ضمن میں درج ہے۔  جہاں مشرق و مغرب کے مشہور فلسفی اور مفکروں جیسے کندی، فارابی، ابن سینا، امام غزالی یا ابن رشد اور ابن طفیل کی تصانیف پر روشنی ڈالی گئی ہے۔