اموی زمانہ تک شعر و شاعری کے مرکز حجاز، نجد، عراق اور آس پاس کے علاقے تھے۔  مگر عراق میں بنو عباس کی اور اندلس میں امویوں کی حکومت قائم ہونے کے بعد بغداد اور قرطبہ میں بزم سخن گرم ہونے لگی۔  ان دونوں مرکزوں کو بسے سو سال بھی نہ ہوئے تھے کہ ہر طرف سے شعرا کھنچ کر یہاں پہنچنے لگے اور انہوں نے شاعری میں نئی راہیں اور نئی اصناف بھی ایجاد کیں مگر پیرا یہ بیان اور انداز جاہلی رہا۔  عباسی دور کے وسط تک یہ رنگ اتنا بدلا کہ اب بجائے دیار محبوب اور اس کے کھنڈرات سے اظہار تشبیب کرنے کے محلات اور کوٹھیوں ، عیش و عشرت کے سازو سامان، مے نوشی، مطرب کی دلنوازی اور ممدوح کے دربار میں بذریعہ کشتی جانے کے ذکر ہونے لگے۔  اور ایک زمانہ ایسا آیا کہ شاعری کی پرانی ریت کا مذاق اڑایا جانے لگا۔  درباری شعرا نے مدحیہ قصائد میں چاپلوسی اور مبالغہ آرائی کو اپنا شعار بنا لیا۔  کہیں کہیں اخلاقی پستی کا یہ عالم ہوا کہ بعض اوقات شاعری، شہدا پن  ابتذال اور جنسی و اخلاقی جرائم کی حکایت عریاں بن گئی اور حالت یہاں تک گری کہ تغزل بالمذکر کی نئی اور مذموم صنف ایجاد کی گئی۔  اور بیشتر نئی باتیں کرنے والے وہ موالی اور نوجوان شعرا تھے جو اکثر عجمی اور خاص طور سے ایرانی النسل تھے جن کا نام شعرا المجون الخلاصہ یعنی ’’اوباش اور اباحی شعرا‘‘ پڑ گیا تھا۔

  اباحی شعرا کے طبقہ میں بہت سے شعرا گزرے ہیں لیکن ان میں کلام کی جملہ خصوصیات کے اعتبار سے مشہور اور ان کا نمائندہ اور امام بشارین برد (۹۰۵۔  ۱۶۷ھ۔  ۷۱۴۔  ۷۸۴ء)تھا۔  اور اس کا ساتھی ابو نواس (۱۴۵۔  ۱۹۸ھ۔  ۷۶۲۔  ۸۱۳ء) ان دونوں کے ہمنواؤں میں ’’صریع الغوانی‘‘ یعنی کشتہ ناز نیناں مسلم بن الولید (م ۲۰۸ھ) اور ابن الضحاک خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔  اباحی شعرا کے ساتھ ساتھ روایت پسند شعرا کا بھی ایک طبقہ اسی زمانے میں داد سخن دے رہا تھا۔  جن میں سے اکثر عربی النسل تھے لیکن اس نے اپنی بزم بغداد کی فضا سے دور شام میں سجا رکھی تھی۔  اس طبقے میں ایسے قادر الکلام منجھے ہوئے اور یکتائے روزگار شاعر تھے جن کا لوہا ہر ایک مانتا تھا۔  انہوں نے ان شعرا کے مقابلہ میں پرانے جاہلی رنگ اور آہنگ کو بنیاد بنا کر شعر و شاعری کا وہ معجز نما ڈھنگ نکالا جس میں تمام مروجہ انداز ہائے نگارش کے ساتھ زہد و تقویٰ، پاکیزہ خیالات، اخلاق اقدار، مروت، اور شرافت کے ابدی نغمے گائے گئے۔  ان شعرا کا یہ اثر ہوا کہ اباحی شعرا کے خاتمہ کے ساتھ اباحی انداز کا رواج بھی ختم ہو گیا۔  ان شعرا میں ابو تمام (۱۹۵۔  ۲۳۱ھ) البحری (۲۰۶۔  ۲۸۴ھ) ابن الرومی (۲۲۱۔  ۲۸۳ھ)ابن المقز (۲۴۵۔  ۲۹۶ھ) اور ابوالطیب المتنبی (۳۰۳۔  ۳۵۴ھ) خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

عہد عباسی کے دوسرے دور میں شعرو شاعری اس دور میں ایران اور خراسان کے علاقوں میں جہاں عربوں اور عربی زبان کا اثر کم ہوتا جا رہا تھا۔  فارسی ادب نے زور پکڑا اور اس کے ساتھ دیا اور شعرا کی زبان میں عجمیت کا اثر بڑھنے لگا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عربی شاعری کی سابقہ روایات اور انداز بیان کے گرنے کے ساتھ اس کی قدر و منزلت بھی گر گئی۔  البتہ عراق میں ممالک عربیہ کی قربت کی وجہ سے عربی شعر و شاعری کا بازار گرم رہا۔  تاتاریوں کے ہاتھوں جب بغداد کی تباہی ہوئی تو یہاں کے شعرا اور ادبا نے مصر و شام میں پناہ لی اور وہاں علم و ادب کی محفل سجائی جس کے نتیجہ میں بہت سے نامور شعرا ابھرے جنہوں نے تمام قدیم اصناف سخن میں زبان کے جوہر دکھائے اور بعض نے مضامین باندھے جیسے فاطمی تہذیب و معاشرت کی تعریف علوی عقائد و نظریات کی تحسین و توصیف۔  شام میں اس عہد کے شعرا میں المتنبی (۳۰۳۔  ۳۵۴ھ۔  ۹۱۸۔  ۹۶۸ء) ابو الفراس الحمدانی (۳۲۰۔  ۳۵۷ھ۔  ۹۳۴۔  ۹۷۰ء) ابو العلا المعری (۳۶۳۔  ۴۴۹ھ۔  ۹۷۶۔  ۱۰۶۰ء) اور مصر میں ابن الفارض (۵۷۶۔  ۶۶۳ھ۔  ۱۱۸۰۔  ۱۲۶۵ء) اور بہاؤ الدین زہیر (۵۸۱۔  ۶۵۶ھ۔  ۱۱۸۵۔  ۱۲۵۸ء) خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

 اسی زمانہ میں عربی میں صوفیانہ شاعری کی داغ بیل پڑی۔  اندلس میں جہاں امویوں کی حکومت تھی ادباء اور شعراء جب آ کر جمع ہوئے تو یہاں شعر و ادب نے بڑی ترقی کی۔  جب اس سلطنت کا شیرازہ بکھرا اور طوائف الملوکی کا دور دورہ ہوا تب بھی حکمراں طبقہ نے ادبا و شعرا کی توقیر و عزت میں کوئی کمی نہ کی۔  جس کی وجہ سے شعر و ادب کی محفلیں جوں کی توں سجی رہیں۔  یہاں کے شعرا نے فنی اعتبار سے شعرائے مشرق کی ہی پیروی کرتے رہے۔  البتہ مناظر قدرت کی تصویر کشی میں ان سے بھی بڑھ گئے۔  اس کے علاوہ بزم یاراں و مجالس شراب و کباب کے وصف میں انہوں نے نیا انداز اور نیا اسلوب بیان ایجاد کیا۔  اندلس کے شعرا میں خاص طور سے قابل ذکر ابن ہانی، ابن خفاجہ ہیں۔  ان کے علاوہ ابن سعید ابن الخطیب اور مشہور رحل نگار ابن فرمان نے بڑا نام پیدا کیا۔  مشرق کے علاقہ عراق، فارس اور خراسان میں جن شعرا نے شہرت حاصل کی ان میں الشریف الراضی مہیار الدیلمی اور اطغرائی کے علاوہ ابن نبات السعدی اسری الرفاء اور سبط التعاویذی ہیں۔  تنزل کا زمامہ ۱۲۵۸۔  ۱۷۹۷ء (۶۵۶ھ۔  ۱۲۲۰ھ) ہلاکو کے حملہ بغداد اور اس کی تباہی کے بعد ایک جمود و تعطل کا سا عالم طاری ہو گیا۔  چنانچہ اس عہد میں ادبی علمی اور تاریخی تخلیقات کم ہوئی البتہ اسلاف کے علمی سرمایہ میں ان کے ادبی و فنی دیگر کارناموں کو چند علما نے بڑی بڑی ضخیم کتابوں میں جمع کیا۔  یہ علما وہ تھے جنہوں نے تباہیِ بغداد کے بعد مصر و شام کے علاقوں میں پناہ لی تھی۔  اور یہیں انہوں نے اپنی بزم علم و فن سجائی۔  اسی لیے اس عہد کو ’’عہد موسوعات‘‘ یعنی انسائیکلوپیڈیا کا زمانہ کہتے ہیں۔  اس میں مندرجہ ذیل علماء نے نمایاں خدمات انجام دیں۔  شہاب الدین النویری نے ’’نہایت الادب فی فنون الادب‘‘ سولہ ضخیم جلدوں میں لکھی جو زبان و ادب کی انسائکلوپیڈیا تھی ابن فضل اللہ العمری نے ’’مسالک الالبہار فی ممالک الامصار‘‘ جغرافیہ اور تاریخ پر ترتیب دی جس کی بیس سے زیادہ جلدیں تھیں۔  ابن منطور نے ’’لسان العرب‘‘ کے نام سے لغت کی تمام کتابوں کو یکجا جمع کر دیا اور القلقشندی نے ’’صبح الاعشی‘‘ ترتیب دے کر فن کتابت اور تاریخ کو یکجا کر دیا۔

  ترکی زمانہ میں جو دور انحطاط ہے مختلف سرگرمیوں اور جنگوں کی وجہ سے علم و ادب کے میدان میں کوئی اہم تخلیقی کام نہ ہو سکا۔  تصنیف و تالیف اور سرکاری کاغذات کے لکھنے میں اس زمانے میں القاضی الفاضل کی پیروی کی گئی۔  مختلف ممالک اسلامیہ میں جن علماء نے اس زمانے میں مختلف علمی و ادبی کام کیے ان میں قابل ذکر لسان الدین الخطیب، ابن البصری، ابن فلکان، ابو الفداء المقریزی، الدجی، ابن بطوطہ ابن خلدون اور المقری ہیں۔  ہندوستان کے ایک نامور عالم محمد بن محمد المرتضی بلگرامی نے جو ’’الزبیدی‘‘ کے نام سے مشہور ہیں ۔ فیروزآبادی کی مشہور لغت ’’القاموس المحیط‘‘ کی عربی میں شرح ’’تاج العروس‘‘ کے نام سے دس جلدوں میں لکھی۔  دور انحطاط میں شعر و شاعری اسی زمانہ میں مشرق علاقوں اور مصر و شام میں بادشاہ اور ارباب حکومت عام طور سے غیر عرب تھے اس لیے عربی شعر و شاعری کی طرف نہ ان کا رجحان تھا اور نہ وہ شعرا کی قدر و منزلت کرتے تھے۔  اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وسط ایشیا میں عربی شعر و شاعری کا رواج تقریباً ختم ہو گیا۔  البتہ عراق اور قرب و جوار میں اس کی کچھ رمق باقی رہی۔  شام، مصر، اندلس اور مغرب اقصی میں بہر حال عربی شعر و شاعری کی حالت اچھی رہی مگر یہاں کے شعرا نے پرانی ریت اور پرانے مضامین کو چھوڑ کر خلفا اور امرا کی مدح کے بعد جن امور پر طبع آزمائی کی وہ ایک حد تک نئے تھے جیسے نعت رسول، تصوف اور صوفیا کی تعریف اور زہد و تقویٰ کے مضامین، غزل میں تغزل بالمذکر کی ریت کو ان شعرا نے دوبارہ زندہ کیا۔  یہ شعرا بعض اوقات توریہ اور خباس کو استعمال کر کے شعر کو پہیلی بنا دیتے تھے۔  ابتذال، معاملہ بندی اور فحش گوئی کا رواج بڑھ گیا، علمی زبان کی شاعری کے اصناف مثلاً موشحات، صوالیا، زجل اور قومہ کا اضافہ ہوا۔  ان اصناف سخن میں طبع آزمائی کرنے والے شعرا میں سے قابل ذکر ہیں۔  ۱۔  شرف الدین الانصاری (م۶۶۲ھ) ۲۔  جمال الدین ابن نبات المصری (م ۷۵۸ھ) ۳۔  شہاب الدین التلعفری (م ۷۶۵ھ) ۴۔  الشاب الظریف (م ۶۸۷ھ) ۵۔  الامام ابومیری (م ۶۹۵ھ) ۶۔  ابن الوردی (م ۷۴۹ھ) ۷۔  ابو بکر بن مجہ (م ۸۳۷ھ) ۸۔  سفی الدین الحلی (م ۷۵۰ھ) ۹۔  فخر الدین بن مکالس (م ۸۶۴ھ) ۱۰۔  ابن معتوق الموسوی (م ۱۰۲۵ھ)