نشاۃ ثانیہ کا پہلا دور (۱۸۰۵ء۔ ۱۹۱۹ء)

مصر پر نیپولین کے حملہ کا اثر نیپولین نے مصر کو ۱۷۹۸ء میں فتح کیا تو پہلی بار مشرق کو مغرب اور اس کی تہذیب و تمدن سے براہ راست سابقہ پڑا نیپولین اپنے ساتھ علما انجینئروں ، کاریگرو ں اور صنعت و حرفت کے ماہرین کی ایک ٹیم لے کر آیا تھا۔  جن کی مدد سے اس نے مصر میں مکاتب اور مدارس کھولے اور کارخانے قائم کیے اور مشرق میں پہلی بار ایک یرلس کھولا اور پہلی بار یہاں سے ایک اخبار نکالا۔  اس کا سب سے اہم علمی و ادبی کام ’’المجمع العلمی المصری‘‘ (مصری علمی اکادمی) کا قیام ہے اس اکادمی کے ۴۸ ممبر تھے جو مختلف علوم و فنون کے ماہر تھے۔  یہ ماہرین اپنے علمی اور تحقیقی کارناموں کو ہر تیسرے مہینے ایک کتابچہ کی شکل میں شائع کرتے تھے انہوں نے پہلی بار یہاں ایک اسٹیج بھی بنایا جس پر فرانسیسی مبان کے ڈرامے اسٹیج کیے جاتے تھے۔  یہ سب کام مصر اور مشرق کے لوگوں کے لیے بالکل نئے تھے۔  فرانسیسیوں نے اپنی تین سالہ مدت حکومت میں جو کارنامے انجام دیے بعد میں محمد علی پاشا کے زمانے میں وہی ملک و قوم کی ہمہ جہت ترقی کی بنیاد بنے۔  محمد علی پاشا محمد علی پاشا نے زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد ایک قومی کالج قائم کیا۔  اس کے بعد بہت سے مدرسے اور اعلی تعلیمی ادارے کھولے۔  ذہین اور محنتی طلبہ اور حکومت کے کارندوں کو فرانس بھیج کر تربیت دلائی اور چھاپے خانے اور نشر و اشاعت کے مرکز قائم کیے۔  لولاق کے پہلے پریس میں سب سے پہلے اب المقفع کی ’’کلیلہ و دمنہ‘‘ چھپی اس کے بعد بغدادی کی ’’خزانۃ الادب الکبری‘‘ ابن خلدون کا مقدمہ، حریری کے مقامات، رازی کی تفسیر اصفہانی کی الاغانی اور لغت میں ’’القاموس‘‘ شائع ہوئی۔  ۱۸۸۲ء میں مصر میں سب سے پہلا اخبار ’’الوقائع المصریہ‘‘ کے نام سے ترکی زبان میں چھپا۔  شام میں سب سے پہلا اخبار ۱۸۵۸ء میں ’’حدیقۃ الاخبار‘‘کے نام سے نکلا۔  اور قسطنطنیہ میں پہلا عربی اخبار ۱۸۶۰ء میں ’’الجوائب‘‘ کے نام سے نکلا۔  محمد علی پاشا نے عربی کو مصر کی سرکاری زبان بنا دیا تھا۔  محمد علی کے پوتے اسمعیل پاشا نے اپنے دادا کے نقش قدم پر چل کر ہر قسم کے علمی، ادبی اور فنی کاموں کی ہمت افزائی کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے زمانے میں مصری علماء و فضلاء اب ترجمہ کرنے کی منزل سے نکل کر خود مختلف موضوعات پر عربی زبان میں معیاری فنی کتابیں لکھنے لگے۔

علم و فن کی جو شمع یہاں روشن ہوئی اس کی شعاعیں شام اور لبنان میں بھی پہنچیں۔  یہاں بھی بہت سے مدرسے اور تعلیمی ادارے کھلے۔  پریس قائم ہوئے۔  اخبارات نکلے اور ارباب حکومت کی سرپرستی میں یہاں کے علما نے بھی علم و ادب کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔  اور یہیں سے عربی ادب نے حصہ لیا اور جن کی کوششوں سے اگلی منزل کی راہ ہموار ہوئی۔

مصر میں شعرا ۱۔  السید اسماعیل الخشاب (م ۱۸۱۵ء) (۲) الشیخ حسن العطار (م ۱۸۳۴ء) (۳) ابراہیم بک مرزوق (م ۱۸۶۶ء) (۴) الشیخ علی ابو النصر (م۱۸۸۰ء) (۵) عبد اللہ پاشا فکری (م ۱۸۸۹ء) (۶) محمد شہاب الدین (م۱۸۵۷ء) (۷) عبد القادر الجزائری(م۱۸۸۸ء) (۸) الشیخ علی اللیثی (م۱۸۹۶ء) (۹) محمود سامی البارودی (م۱۹۰۲ء) (۱۰) اسماعیل صبری پاشا (م۱۹۲۳ء)۔  ادبا اور مصنفین ۱۔  رفاعہ بک رافع (م۱۸۷۳ء) ۲۔  الشیخ حسین المرصفی (م ۱۸۸۹ء) ۳۔  علی مبارک پاشا (م۱۸۹۳ء) ۴۔  امین فکری پاشا (م۱۸۹۹ء) ۵۔  محمود پاشا الفلکی (م۱۹۰۳ء) ۶۔  الشیخ محمد عبدہ (م ۱۹۰۵ء) ۷۔  ابراہیم بک المویلحی (م ۱۹۰۶ء) ۸۔  قاسم بک امین (م۱۹۰۸ء) ۹۔  جرجی زیدان (م۱۹۱۴ء) ۱۰۔  احمد فتحی زغلول (م ۱۹۱۴ء) ۱۱۔  حمرہ فتح الہ (م۱۹۱۸ء)۔  ۱۲ ملک حفنی ناصف (م ۱۹۱۸ء)۔

مقررین اخبار نویس (۱) سلیم تقلا اور بشارہ تقلا ایڈیٹر الابرام (۲) الشیخ علی یوسف ایڈیٹر الموید (۳) فارس نمرود اور یعقوب صروف ایڈیٹر المقطم (۴) جمال الدین افغانی ایڈیٹر اللواء

 لبنان کے شعرا میں اس زمانے میں نقولا الترک (م۱۸۲۸ء) بطرس کرامۃ (م ۱۸۵۱ء) اور ناصف الیازجی (م۱۸۷۱ء) اور ادبا و مصنفین میں یہ لوگ مشہور ہوئے۔  ۱۔  مارون النقاش (ڈرامہ کے موجد اور فن کار) (۱۸۵۵ء) بطرس البستانی (م ۱۸۸۳ء) اور فارعہ الشدباق (م ۱۸۸۷ء) کے علاوہ ابراہیم الیازجی (م۱۹۰۶ء) اور المطران الدبس (م۱۹۰۷ء) شہرت حاصل کی۔  شام کی ممتاز ہستیوں میں حسین جنبہ، محمد عابدین، ادبی اسحاق اور میخائیل مشاقہ اور ابراہیم الحورانی کے نام ہیں۔

عراق میں ابو الثناء الشہاب الالوسی، محمود شکری الالوسی، السید حیدر المحلی، ابراہیم طباطبائی اور جعفر الحلی نے نام پیدا کیا۔  نثر اس زمانے کے شروع تک نثر نگار القاضی الفاضل کے طریقہ پر مسجع و مقفی عبارتیں لکھتے رہے تھے مگر جب اس زمانے میں پریسوں کی کثرت، اخبارات و رسال کے اجراء اور علمی و ادبی کتابوں کے شائع ہونے کا رواج عام ہو ا تو ادبا اور فن کاروں کا انداز تحریر بھی بدلنا شروع ہوا۔  اور عام طور سے ادبا نے جاحظ کا طرز تحریر اختیار کیا۔  مغربی ادب کے اثر سے بیان میں سادگی اور پرکاری آئی اور الفاظ کے مقابلہ میں معانی و مطالب پر زیادہ زور دیا جانے لگا۔  فن خطابت جو اس سے پہلے ماند پڑنے لگا تھا ملکی و ملی ضروریات کی وجہ سے پھر چمک اٹھا اور اس کے ممتاز فن کار پیدا ہوئے جیسے عبد اللہ ندیم، جمال الدین افغانی شیخ محمد عبدہ، مصطفے کامل اور بطرس البستانی، ان تمام خوش آئند تبدیلیوں کی وجہ سے نثر کی جملہ اقسام میں بڑی ترقی ہوئی اور یہ سلسلہ برابر جاری رہا یہاں تک کہ نشاۃ ثانیہ کے دوسرے دور یعنی ۱۹۱۹ء کے بعد عربی نثر دنیا کی ممتاز اور ترقی یافتہ زبانوں کی ہم پلہ ہو گئی۔