نشاۃ ثانیہ کا دوسرا دور (۱۹۲۰ء سے لے کر آج تک)

بیسویں صدی کے شروع میں عرب دنیا ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا تھی۔  ایک طرف ترک پوری عثمانی سلطنت کو ترکی کے رنگ میں رنگنے میں لگے ہوئے تھے اور دوسری طرف عرب ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کی دھن میں تھے کہ پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی۔  جس میں ترکی نے جرمنوں کا ساتھ دیا اور عربوں نے حلیفوں کا۔  اس امید میں کہ مغربی طاقتیں انہیں آزادی دلا کر ان کی خود مختار ریاستیں قائم کر دیں مگر جنگ کے خاتمہ پر ہوا یہ کہ مغربی طاقتوں نے عرب ریاستوں کو آپس میں بانٹ لیا اور فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کر دیا۔  عالمِ عرب تڑپ اٹھا اور انقلاب و شورش کی ایک شدید لہر اٹھ کھڑی ہوئی۔  اس وقت شدید ضرورت اس کی تھی کہ سارے عربوں کو متحد اور متفق کر کے ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا جائے۔  چنانچہ اس مقصد کے حصول کے لیے ادبا شعرا اور اخبار نویسوں نے اپنی ساری قوتیں اور ساری فکری ذہنی اور تخلیقی طاقتیں صرف کر دیں اسی لیے اس زمانے کے ادب کو ’’ادب الشورہ و التجمع‘‘ یعنی انقلابی اور اتحادی ادب کہتے ہیں۔  اس معرکہ میں جن ادبا و شعرا نے قلم کے جوہر دکھائے ان میں قابل ذکر عراق کے الرہاوی، الرصافی اور الکاظمی مصر کے بارودی، حافظ ابراہیم شقی، محرم، نسیم اور ادیب اسحٰق، حلب کو الکواکبی، تیونس کے الثعالبی اور محمد بیرم الخامس، الجزائر کے عبدالحمید بن بادیس، لبنان کے بستانی۔  شام کے عبدالقادر مغربی اور ابراہیم یازجی، فرابلس کے نوفل اور مراکش کے سلاوی ہیں۔  ابھی یہ کوششیں جاری تھیں کہ دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی اس میں عربوں نے پھر اتحادیوں کا ساتھ دیا۔  اور آخر اتحادی اس جنگ سے کامیاب ہو کر نکلے جنگ کے خاتمہ کے بعد جب اقوام متحدہ نے آزادی اقوام کا اعلان کیا تو عربوں نے اطمینان کا سانس لیا اور ۱۹۵۰ء سے جبکہ ممالک عریبہ رفتہ رفتہ آزاد و خود مختار ہونے لگے اور قلم و زبان پر عاید پابندیاں ہٹنے لگیں تو عربی ادب میں بھی ایک انقلاب آفریں دور شرع ہوا۔  اس دور میں ادب کی مُروّج اصناف میں عظیم الشان ترقی کے علاوہ چند ایسی اصناف داخل ہوئیں جن سے عربی ادب اب تک نا آشنا تھا۔  مصر اپنی دیرینہ روایات اور فطری توانائیوں کے سہارے حسبِ سابق اس زمانہ میں بھی مرکز علم و فن رہا۔  اور اس سرزمین سے ایسے فن کار اور ادیب اٹھے جنہوں نے عربی ادب کو گلہائے رنگا رنگ سے سجا کر ایک گلدستہ بنا دیا۔


قاہرہ کے بعد شام و لبنان کا نمبر آتا ہے۔  شام علمی تحقیق و تدقیق کے لئے ہمیشہ سے مشہور رہا ہے اس نے اپنے اس امتیاز کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اسے بہت ترقی دی۔  لبنان مین بیروت کو اس سلسلہ میں بڑی اہمیت حاصل ہوئی۔  یہاں نوجوان ادیبوں نے ہلکے پھلکے ادب کو بڑا فروغ دیا۔  مختصر افسانہ نویسی، آزاد نظم اور ادبِ لطیف یہاں کا خاص رنگ بن گیا۔  عراق نے مختلف خونی ڈرامے دیکھنے کے بعد اب علم و ادب کی محفل پھر سے سجانی شروع کی ہے۔  مغرب کے ملکوں میں بھی ادبی و علی سرگرمیاں پوری توانائیوں کے ساتھ جاری ہیں۔  نثر خطابت: اس زمانہ میں خطابت کو بڑی ترقی ہوئی۔  ابتدا میں السید عبداللہ ندیم الشیخ محمدعبدہ۔  مصطفیٰ کامل نے سیاسی اور دینی خطابت میں۔  احمد فتحی زغلول، عبدالخالق ثروت پاشا نے قانونی اور عدالتی تقریروں میں اور سعد زغلول نے سیاسی اور عام ملکی مسائل میں خطابت کے جوہر دکھائے۔  پانچویں دہے میں اربابِ حکومت اور مملکتوں کے صدور میں بھی بعض اچھے مقرر پیدا ہوئے۔  ان سب میں جمال عبدالناصر مرحوم کو امتیاز حاصل ہے۔