افسانہ ناول اور ڈرامہ

عربی ادب میں افسانہ فن کی حیثیت سے پہلی جنگ عظیم کے بعد وجود میں آیا۔  اس صنف میں مصطفی لُطفی متفلوطی اور جبران خلیل جبراننے کچھ طبع زاد اور کچھ ترجمہ شدہ کہانیوں کے ذریعہ پہل کی۔  لطفی کی مثال کہانیاں  ’’العبرات‘‘ اور ’’النظرات‘‘ ہیں اور جبران کی ’’الارواح المتمروہ‘‘ اور ’’الاجنحہ المتکّسرہ‘‘ میں ملتی ہیں۔  دوسری جنگ عظیم کے بعد افسانہ نگاری میں بڑی ترقی ہوئی اور اس کے تین مکتبِ فکر وجود میں آئے۔  ایک رومان پسند مکتبہ فکر جس کے رہبر اور امام لطفی اور جبران تھے۔  دوسرا حقیقت پسند مکتب فکر، جس میں آزمودہ کار، منجھے ہوئے اور نامور ادبا تھے جیسے افسانہ کے بابا آدم محمود تیمور اور ان کے بعد یحییٰ حفی، ڈاکٹر طٰہٰ حسین، ابراہیم المارتی، عباس محمود العقار، میخائیل نعمیہ، توفیق عواد، سید تقی الدین، خوادالشائب وغیرہ۔  تیسرا مکتب فکر ان نوجوان ادیبوں کا ہے جن کی نگارشات میں زمانۂ حال کے فنی میلانات اور ترقی پسند خیالات کا عکس نظر آتا ہے ان کے خاص موضوع سماجی پسماندگی اور مزدور طبقہ کے مسائل اور مشکلات کی تصویر کشی ہے۔  ان میں قابل ذکر یوسف ادریس، محمود بدوی یوسف السبائی، اور احسان عبدالقدوس وغیرہ ہیں۔

 اس عہد میں افسانہ نگاری کو ترقی دینے میں اخبارات و رسائل کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔  انہوں نے نہ صرف مغربی افسانوں اور ڈراموں کے ترجمے کرا کے چھاپے بلکہ مختصر ترین افسانے لکھنے کی ریت بھی نکالی۔  جنہیں آپ ٹرام میں بیٹھے بیٹھے پڑھ لیں یا چند سطروں میں ایک قصہ۔  ناول اس عہد کی ایک دین ناول بھی ہے اس صنف میں ڈاکٹر طٰہٰ حسین، نجیب محفوظ، احسان عبدالقدوس اور یوسف السباعی نے کمال فن کا مظاہرہ کیا ہے۔  نجیب محفوظ نے اپنی چار ناولوں (زقاق المدق، السکریۃ، قصڑ الشود اور بدایہ بلانہایہ) کے ذریعہ مصر کی گزشتہ سے لے کر آج تک کی تہذیبی، معاشرتی، اور عام ملکی و سیاسی حالت کا بہترین نقشہ کھینچا ہے۔  احسان عبدالقدوس اور یوسف السباعی کے ناولوں اور کہانیوں میں ادب مکشوب یا اباخی رنگ جھلکتا ہے۔