نشاۃ ثانیہ کے دوسرے دور میں شعر و شاعری

پہلی جنگ عظیم سے لے کر دوسری جنگِ عظیم تک شعر و شاعری بھی نثری ادب کی طرح ’’ادبِ انقلاب و اتحاد‘‘ بن کر رہ گئی تھی، مگر محمود سامی البارودی نے جو صُور پھونکا اور اس کی صدائے بازگشت لبنان کے پہاڑوں سے ابراہیم الیازجی کی آواز میں گونجی تو ارضِ فراعنہ نے حافظ و شوقی کی صورت میں اس آواز پر لبیک کہا۔  جنہوں نے شعر و شاعری کی خوابیدہ دنیا میں ایک ہلچل سی مچا دی۔  چنانچہ اس زمانے میں نئی نسل نے پھر سے اپنے آبا و اجداد کے کلام سے کسبِ فیض کرنا شروع کر دیا۔  گزشتہ عہود کی فنی خصوصیات کے تانے سے نئے ماحول نئے حالات اور افکار و خیالات کے بانے کو ملا کر میدان شعر و شاعری میں زبان و بیان میں قادر الکلامی کی شان دکھائی قد ما کا وقار اور گمبھیر پن ان کی اثر انگیزی اور گہرائی کے ساتھ انہوں نے عصر حاضر کی روانیٔ ادا اور خیالات کی رفعت اور تنّوع اور موضوعات و مسائل کی ہمہ گیری اور وضاحت کو جوڑ دیا ہے۔  اس طرح سے ان شعراء نے شراب کہن کو ساغرِ نو میں ڈال کر عربی شاعری کو اچھوتی اور انمول تخلیقات سے مالامال کر دیا۔  موجودہ دور کے شعراء میں قابلِ ذکر عمر ابوریشہ، الاخطل الصغیر طٰہ مندور، علی محمود، ایلیا ابوماضی فرحات اور القروی وغیرہ ہیں۔  اس زمانے میں شاعری کی بعض نئی اصناف کا بھی تجربہ کیا گیا چنانچہ پہلی بار عربی میں آزاد نظم کا تجربہ غالباً لبنان میں ہوا اس کے بعد مصر میں بھی اس کے تجربے ہوئے لبنانی مکتبِ فکر میں فدوی طوفان میں ، موسی الصایغ ار ان کے ہمنواؤں نے اس صنف میں طبع آزمائی کی۔  مصری مکتبِ فکر میں اس کے عَلَم بردار نزار قبانی اور عزیز اباظہ ہیں۔  چوں کہ آزاد نظم عربی ذوق پر گراں اور مزاج کے خلاف ہے اس لیے اس صنف کو فروغ نہ حاصل ہوسکا۔  البتہ مہجری ادب میں یورپی اور امریکی ادب کے اثر سے اس صنف میں جبران امین الریحانی اور نسیب عریضہ نے کمال فن کا مظاہر کیا۔