ہندوستان میں عربی زبان کی درس وتدریس کا سلسلہ مسلمانوں کی آمد کے وقت سے جاری ہے۔  اور یہاں کے علما نے بھی اس میں نمایاں خدمات انجام دیں ہیں۔  قاضی محمد اعلیٰ تھانوی (بارہویں صدی ہجری) نے علوم و فنون کی اصطلاحات میں کتاب ’’کثاف اصطلاحات الفنون‘‘ اور علامہ سید مرتضیٰ بلگرامی معروف بزبیدی (م ۱۲۰۵ھ) نے مجد الدین فیروز آبادی کی لغت ’’القاموس المحیط‘‘ کی عرب شرح ’’تاج العروس‘‘ کے نام سے دس جلدوں میں لکھی۔  مولانا سید عبدالجلیل بلگرامی اور میر غلام علی آزاد بلگرامی نے بلاغ و بدائع اور فن عروض میں اضافے کیے اور عربی شاعری میں ہندوستانی موزونیتِ طبع کے جوہر دکھائے جسٹس کرامت حسین اور مولانا سلیمان اشرف بہاری نے فقہ اللسان اور المبین کے ذریعہ عربی زبان کے فلسفہ لغت اور نحو پر معرکہ آراء کام کیا۔  عربی درس گاہوں میں دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ کے حلقہ سے عربی زبان و ادب کے گوہر نایاب پیدا ہوئے۔  اس کے سابق ناظم مولانا عبدالحسنی مرحوم مے الثقافتہ الہندیہ کے علاوہ ہندوستانی علما و فضلا کے تذکر رہ میں ایک مبسط کتاب عربی میں ’’نزہۃ الخواطر‘‘ کے نام سے لکھی، جس کی آٹھ جلدیں اب تک شائع ہو چکی ہیں۔  ندوہ کے فارغین میں کئی ادیب محقق اور شاعر پیدا ہوئے جن میں مولانا مسعود عالم ندوی، مولانا محمد ناظم ندوی اور شاعر عبدالرحمن کا شغری ندوی سرفہرست ہیں۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی اپنی علمی، ادبی اور دینی عربی کتابوں کی وجہ سے عالم اسلام اور عرب میں جانی پہچانی شخصیت بن چکے ہیں۔  مولانا کو عربی خطابت میں حیرت ناک ملکۂ ہے۔  عربی صحافت میں بھی ندوہ نے پہل کی تھی اور اس وقت بھی یہاں سے عربی کا ایک ماہوار رسالہ ’’البعث الاسلامی‘‘ کے نام سے اور ایک پندرہ روزہ ’’الرائد ‘‘ کے نام سے نکل رہا ہے۔  دارالعلوم دیوبند سے بھی عربی کا ایک رسالہ ’’الداعی‘‘ کے نام سے نکلتا ہے۔


عہد قدیم کا ادب (مغرب و مشرق وسطیٰ میں ) عہدِ قدیم کے ادب کا ایک بہت بڑا حصہ یا تو تباہ ہو چکا ہے یا طریقۂ تحریر کے وجود میں آنے سے پہلے ہی فراموش ہو گیا تھا۔  آثارِ قدیمہ اور فنِ کتبہ خوانی کے ماہروں کی کاوش سے جو معلومات اس بارے میں فراہم ہوئی ہیں وہ بہت تشنہ اور ناکافی ہیں۔  مغرب اور مشرقِ قریب یا مغربی ایشیا کی قدیم تہذیبیں اسیریا، بابل، مصر، یونان اور رومہ کی تہذیبوں اور فلسطین کی اسرائیلی تہذیب پر مشتمل تھیں۔  ان میں سے ہر ایک کا دوسری کسی ایک یا ایک سے زیادہ تہذیبوں سے ربط ضبط تھا۔  ان میں سب سے زیادہ پرانی تہذیبیں اسیریا ااور بابل کی تھیں جن کے متعلق بہت سی ٹوٹی پھوٹی مٹی کی تختیاں دستیاب ہوئی ہیں۔  ان کے علاوہ قدیم مصر کے سڑے گلے پے پی رس (Papyrus)پارچے ملے ہیں جو ہماری دنیا کے لیے کچھ زیادہ بامعنی نہیں ہیں۔  بابل نے البتہ دنیا کا پہلا ضابطۂ قوانین چھوڑا اور اولین اساطیری نمونے (Acrhelypalmyh)پر مبنی دو ایسی نظمیں تخلیق کیں جن کی گونج دو دراز علاقوں میں بھی سنائی دی۔  مصر کے باطنی اور مابعد الطبیعی تصورات اور ایک عالم ماورا کے عرفان نے یونان و رومہ کے ذہن کو متاثر کیا۔  مغربی دنیا کی ذہنی اور تہذیبی روایت یونان و رومہ کے افکار اور عبرانی تہذیب کی گہری روحانیت سے مستعار ہے۔  عبرانی اثرات کے ماخذ توریت (Old Testament)اور انجیل ہیں جو مغرب میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابیں رہی ہیں۔  مغربی انسان کا تخیل اس کے اخلاقی اقدار اور ادبی اصناف یونان و رومہ کے رہین منت ہیں۔  یونانی اور لاطینی مصنفوں نے جو اخلاقی اور بشری نصب العین (Human Ideal)پیدا کیا وہ عہدِ قدیم کے ختم ہوتے ہوتے یہود و نصرانی روحانی نصب العین میں جذب ہو کر دور وسطیٰ کے ادب کا پیش رو ثابت ہوا۔  اسیر یا اور بابل کا ادب قدیم اسیریا اور بابل کی زبان اکے ڈین (Akkadian)وہ پہلی سامی زبان ہے جس کے کچھ آثار ہم تک پہنچے ہیں اور اس لحاظ سے تقابلی لسانیات میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔  اس کا نظامِ تحریر سُمیری (Sumerian)سے ماخوذ ہے۔  جو دنیا کی قدیم ترین تحریری زبان مانی جاتی ہے۔  دجلہ و فرات کے کناروں پر جو اسیر یائی و بابلی تہذیب پائی جاتی تھی اس میں بحیثیت بول چال کی زبان کے اکے ڈین سے سمیری کی جگہ لے لی تھی۔  یہ قبل مسیح کے الفِ ثالث کی بات ہے۔  ویسے تحریری زبان کی شکل میں سمیری پہلی صدی عیسوی تک اکے ڈین کے شانہ بہ شانہ باقی رہی۔  اس تہذیب کے بہت سے آثار ادبی سے زیادہ لسانی اور تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔  عام لفظوں اور خداؤں کے ناموں کی فہرستیں ملتی ہیں جو الفاظ اور تصورات کے باضابطہ مجموعوں کی شکل رکھتی ہیں اور جن کا مقصد انسائیکلو پیڈیائی معلوم ہوتا ہے۔  بعض ایسی فہرستیں ہیں جن میں سمیری تلفظ کے ساتھ الفاظ اروع ان کے اکے ڈین مترادفات دو مختلف کالموں میں دیے گئے ہیں۔  یہ لغات کا کام دیتی ہوں گی۔  ان کے علاوہ بہت سے کتبے ملے ہیں جن کی اہمیت تاریخی ہے۔  اسیریائی اور بابلی تحریریں مٹی کی تختیوں پر ملی ہیں جن میں سے بعض ۲۵۰۰ ق م کی ہیں۔  ان تختیوں پر اساطیری عبارتیں ابتدائی حکمرانوں کے کارناموں کے بارے میں رزمیے ، دعائیں اور کہاوتیں لکھی ہوئی ہیں۔  ادبی حیثیت سے سب سے زیادہ اہم اینو ماایلیش (Enuma elish)یعنی تخلیق کا رزمیہ اور گل گامیش کا رزمیہ (Epic of Gilgamesh)نامی دو نظمیں ہیں۔  پہلی نظم میں شہر بابل کے خدا مارڈوک (Marduk)کی کہانی ہے جس نے تیامت (Tiamat)نامی ایک مہیب عجیب الخلق مونث مخلوق کو تہِ تیغ کر کے اس کے جسم سے دنیا کو جنم دیا اور اس کے کارنامے کے صلے میں دوسرے خداؤں نے اسے کائناتی بالادستی عطا کر دی۔  دوسری نظم جو اکے ڈین زبان کا سب سے اہم ادبی کارنامہ ہے ایک سمیری ہیرو گل گامیش اور ع اس کے ساتھی ان کی ڈو (Enkidu)کی داستان ہے۔  اس کا پورا متن نینو ا میں شاہ اسیریا آشور بنی پال (AShurbanipal)(۶۶۸-۶۲۷ق م)کے کتب خانے سے دستیاب ہونے والی تختیوں پر موجود ہے۔  یہ نظم بابل کی تخلیق ہے اور اس میں بہت سی سمیری کہانیوں کو یکجا کر کے ایک نیا خیال داخل کیا گیا ہے یعنی گل گامیش کی اپنے ساتھی ان کی ڈوک کی موت کے بعد لافانیت کی تلاش۔  ایک اور دلچسپ چیز اس میں طوفانِ نوح کی ایک بابلی روایت ہے جس کا قصہ اس سیلاب سے بچنے والا ایک شخص اتنا پِش تِن (Ulnapishin) گِل گامیش کو سناتا ہے۔  یہ داستان ایشیائے کوچک میں اکے ڈین کے علاوہ اور زبانوں میں بھی موجود تھی اور امکان ہے کہ یونانی آڈیسی (Odyssey)پر اس کا اثر پڑا ہو۔  قدیم مصری ادب جو مصری ادب ہم تک پہنچا ہے وہ زیادہ تر پے پی رس (Papyrus)پر لکھی پروہتی (Pieratic)تحریروں پر یا پھر مکتبوں میں استعمال ہونے والی تختیوں ، ٹھیکروں اور چو نے کے پتھروں کے ٹکڑوں پر نوشتہ درسی نسخوں پر مشتمل ہے۔  کوئی ستر (۷۰)تصنیفوں کا پتہ چلا ہے لیکن یہ زیادہ تر ادھوری ہیں اور مصر کے ادبی کارنامے کا ایک بہت نامکمل نمونہ۔  نوع کے اعتبار سے یہ تحریریں تاریخ اساطیری پر مبنی مقبول عام داستانوں یا مثنویوں سیکولر (Secular)یا غیر مذہبی نظموں ، خط نویسی کے نمونوں اور اخلاقی اصولوں یا پند و مواعظِ کے مجموعوں پر مشتمل ہیں۔  مقبولِ عام کہانیوں میں یہ قابلِ ذکر ہیں ’’شاخوں غو اور جادوگر‘‘ ’’تباہ شدہ جہاز کا ملاح‘‘ (جس میں ایک ویران جزیرے پر افتادہ ملاح کی کہانی ہے جسے ایک عفریت نما سانپ پناہ دیتا ہے ) ’’دوبھائیوں کی کہانی‘‘ یہ آخری کہانی پاتال کی دیو مالائی دیوتا آسی رس (Osiris)کے قصے پر مبنی اور خیر و شر کی کش مکش کے موضوع سے متعلق ہے۔  دوسری عام کہانیاں ایسی ہیں جو فوق الفطرت عناصر سے عاری ہیں مثلاً ’’چرب زبان دہقان کی کہانی‘‘ جس میں ایک کسان اپنی فصیح البیانی کے زور پر انصاف پانے میں کامیاب ہوتا ہے۔  ناصحانہ اور پند آموز ادب بعض عقل مندوں کے اقوال کی شکل میں ہے۔  جس میں کوئی مردِ سال خوردہ اپنے بیٹے کو یا کوئی بادشاہ اپنے جانشین کو نصیحتیں کرتا ہے۔  یہ عبرانی خرد مندانہ ادب (Wisdom Literature)سے مماثل ہے۔  ان کے مماثل لیکن قنوطی رنگ لیے ہوئے وہ نغمے ہیں جنہیں ’’بربط نوازن کے گیت‘‘ (Song of the Harpers)کا نام دیا گیا ہے اور جو مقبروں کی دیواروں پر کندہ ملتے ہیں۔  معبدوں کی دیواروں پر بھی کچھ طویل عباداتی تحریریں ملی ہیں۔  ایتھنز میں ’’مردوں کی کتاب‘‘ (Book of the Dead)شامل ہے جو جادوئی اور اساطیری قصوں کا مجموعہ ہے اور دیوتاؤں کے ذکر سے پُر ہے۔  یونانی اور لاطینی مصنف مصر کی قدامت اور رنگا رنگی سے بہت متاثر تھے اور ان کی تحریروں میں بہت سی مصری حکایتوں کا سراغ ملتا ہے۔  قدیم عبرانی ادب عبرانی ادب کی روایت بارہویں صدی ق م سے قائم ہے۔  ۱۲۰۰ ق م سے ۲۰۰ء تک عبرانی فلسطین میں بول چال کی زبان رہی پہلے توراتی عبرانی (Biblical Hebrew)کی صورت میں اور پھر مِشنائی عبرانی (Mishnaic Hebrew)کی شکل میں۔  (یہودی فقہی اصولوں اور موسوی قوانین (Mosaic Law)کے مجموعے کو مِشنا کہا جاتا تھا) مِشنائی عبرانی ایک بعد کی بولی ہے جس کا توراتی عبرانی سے راست تعلق نہیں۔  دوسری صدی ق م میں جب فریسیوں (Pharisces)نے اس بولی کو اپنی تعلیم و تعلّم کا ذریعہ بنایا تو اسے ادبی درجہ حاصل ہو گیا۔  عبرانی زبان نے ہمیشہ بدلتے ہوئے ادبی ذوق کے تقاضوں کا ساتھ دیا۔  چناں چہ مختلف زبانوں میں وہ کبھی باریک مذہبی فکر کبھی صحت علمی (Scientific Precision)  اور کبھی تصوف کی سرمستی کا گہوارہ بنتی رہی۔  توراۃ کے وسیع حلقہ اثر کے سبب عبرانی نے براہِ راست یا ترجموں کی وساطت سے مغربی ادب پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔