کتاب وسنت اور اجماع امت سے غیبت کا حرام اور گناہ کبیرہ ہونا ثابت ہے، قرآن نے غیبت سے نفرت دلانے کے لئے صاحب غیبت کو اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانے والے کے مترادف قرار دیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلا یَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَیُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ یَأْكُلَ لَحْمَ أَخِیہِ مَیْتًا فَكَرِہْتُمُوہُ [الحجرات:12]
ترجمہ: اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟تو تم ضرور نفرت کرو گے۔ (تو غیبت نہ کرو)
۱۔ اپنے نفس کے عیوب تلاش کرنا
انبیاء اوررسولوں کے علاوہ کوئی بھی انسان نفس کے عیوب سے پاک نہیں ہوسکتا، انسانوں میں کوئی شخص بے شمار عیبوں والا ہوسکتا ہے اور کوئی بہت کم عیب والا، تاہم ہر فرد میں کچھ نہ کچھ عیوب ہوتے ہیں، لہٰذا بندے کو چاہیے کہ اپنے عیوب کو تلاش کرے اور ان کے اصلاح کی فکر کرے، یہ عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ اور بہتر ہے۔
صاحب غیبت اپنی نیکیوں اور حسنات کو برباد کرنے والا ہے، نیز وہ غیبت کے ذریعے اپنی نیکیوں کو جس کی غیبت کر رہا ہے ، اس کے کھاتے میں منتقل کرنے والا ہے، غیبت کرنے والے کا حال ایسا ہے کہ وہ بیک وقت گناہ بھی کرتا ہے اور اپنی نیکیوں کو ضائع کر کے اپنے محسود کا فائدہ بھی کرتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اگر میں کسی کی غیبت کرتا تو اپنے والد کی ہی غیبت کر لیتا”
غیبت کرنے والا دوقسم کے جرائم کا مرتکب ہوتا ہے:
ایک جرم تو اللہ تعالیٰ کے حق میں کرتا ہے، جس کا کفارہ یہ ہے کہ اپنے جرم پر ندامت کا اظہار کرے، جبکہ دوسرا جرم بندے کے حق میں کرتا ہے ، جس کا کفارہ یہ ہے کہ جس کی غیبت کی ہے ،اگر اُس شخص کو غیبت کا علم ہوا ہو تو اس سے معذرت کا اظہار کرے، اور اگر اس کو غیبت کا علم نہ ہوا ہو تو اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کرے اور اُس بندے کے حق میں نیک دعا کرے،نیز یہ یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ سن رہا ہے اور دیکھ رہا ہے اور اللہ کے فرشتے اس کے ایک ایک عمل کو قلمبند کر رہے ہیں۔