اس امر کا ذکر یہاں بیجا نہ ہو گا کہ شمالی ہندوستان کے جن علاقوں میں عرصۂ دراز سے اردو زبان رائج تھی، انھیں علاقوں میں تاریخ کے ایک مخصوص دور میں دیوناگری رسمِ خط میں لکھی جانے والی زمانۂ حال کی ہندی جسے "ناگری ہندی" کہتے ہیں، کا ارتقا عمل میں آیا۔ اس کے اسباب لسانی سے زیادہ فرقہ وارانہ (Sectarian) تھے جن کی جڑیں ہندو احیاء پرستی میں پیوست تھیں۔ بعد میں انھیں عوامل نے "ہندی، ہندو، ہندوستان" کے نعرے کی شکل اختیار کرلی۔ یہاں کے مذہبی اکثریتی طبقے نے دیوناگری رسمِ خط کی شکل میں اس نئی زبان کو تقویت دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جس کے نتیجے میں اردو چشم زدن میں محض ایک اقلیتی طبقے کی زبان بن کر رہ گئی، اور 1947ء میں ملک کی تقسیم نے اس کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا۔
اردو کی بنیاد بلاشبہ کھڑی بولی پر قائم ہے۔ اس زبان کا باقاعدہ آغاز دہلی اور مغربی اتر پردیش (مغربی یوپی) میں ہوا، کیوں کہ کھڑی بولی علاقائی اعتبار سے مغربی یوپی کی بولی ہے۔ مغربی یوپی کا علاقہ بہ جانبِ شمال مغرب دہلی سے متصل ہے۔ اردو بشمولِ دہلی انھیں علاقوں میں بارھویں صدی کے اواخر میں معرضِ وجود میں آئی۔ تاریخی اعتبار سے یہ وہ زمانہ ہے جب دہلی پر 1193ء میں مسلمانوں کا سیاسی تسلط قائم ہوتا ہے اور ترکوں، ایرانیوں اور افغانوں پر مشتمل مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ترکِ وطن کر کے دہلی میں سکونت اختیار کر لیتی ہے۔ اس دور میں دہلی میں سکونت اختیار کرنے والوں میں پنجابی مسلمانوں کی بھی ایک کثیر تعداد تھی کیوں کہ یہ لوگ پنجاب سے ہی نقلِ مکانی کر کے دہلی پہنچے تھے۔شمالی ہندوستان میں اس نئے سیاسی نظام کے قیام کے دور رس نتائج مرتب ہوے اور یہاں کا نہ صرف سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوا، بلکہ اس کے اثرات یہاں کی سماجی اور تہذیبی و ثقافتی زندگی پر بھی پڑے۔ یہ تبدیلیاں لسانی صورتِ حال پر بھی اثر انداز ہوئیں۔ چنانچہ بعض وجوہ کی بنا پر کھڑی بولی کو، جو دہلی کے شمال مشرقی خطے میں یعنی مغربی یوپی میں رائج تھی، تقویت حاصل ہوئی اور اس کا چلن نہ صرف دہلی کے گلی کوچوں، بازاروں، میلوں ٹھیلوں نیز عوامی سطح پر ہو1، بلکہ دھیرے دھیرے یہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی رائج ہو گئی۔ نووارد مسلمانوں اور مقامی باشندوں (جن کی یہ بولی تھی) کے باہمی میل جول کی وجہ سے اس میں عربی اور فارسی کے الفاظ داخل ہونا شروع ہوئے جس سے اس میں "نکھار" پیدا ہو گیا۔ کھڑی بولی کے نکھار کا یہ زمانہ اردو کا ابتدائی زمانہ ہے۔ کھڑی بولی کے اس نئے اور نکھرے ہوئے روپ یا اسلوب کو "ہندی"، "ہندوی" اور "ریختہ" کہا گیا اور اسی کو بعد میں "زبانِ اردوئے معلیٰ"، "زبانِ اردو" اور بالآخر "اردو" کے نام سے موسوم کیا گیا۔اس لسانی عمل میں ہریانوی بولی نے تقویت پہنچائی جو کھڑی بولی کی طرح(ا) یعنی الف پر ختم ہونے والی بولی ہے۔ اگر چہ لسانی اعتبار سے دہلی ہریانوی بولی کے حدود میں واقع ہے،لیکن ہریانوی بنیادی طور دہلی کے شمال مغربی علاقے کی بولی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسعود حسین خاں قدیم اردو کی تشکیل میں کھڑی بولی کے ساتھ ہریانوی کا بھی ہاتھ بتاتے ہیں۔ ہریانوی کے یہ اثرات بعد میں زائل ہو جاتے ہیں۔
یہ ایک لسانیاتی حقیقت ہے کہ ہر زبان اولاً محض ایک "بولی"(Dialect) ہوتی ہے جس کا دائرۂ اثرورسوخ ایک چھوٹے سے علاقے یا خطے تک محدود ہوتا ہے۔ جب یہی بولی بعض ناگزیر اسباب اور تقاضوں کے ماتحت جن میں سیاسی، سماجی اور تہذیبی و ثقافتی تقاضے شامل ہیں، اہم اور مقتدر بن جاتی ہے اور اس کا چلن عام ہو جاتا ہے اور یہ اپنی علاقائی حد بندیوں کو توڑ کر دور دراز کے علاقوں میں اپنا سکہ جمانے لگتی ہے تو "زبان" کہلاتی ہے۔ پھر اس کا استعمال ادبی نیز دیگر مقاصد کے لیے ہونے لگتا ہے اور اس کی معیار بندی (Standardisation)بھی عمل میں آتی ہے جس سے یہ ترقی یافتہ زبان کے مرتبے تک پہنچ جاتی ہے۔اردو جو ایک ترقی یافتہ اور معیاری زبان ہے، اس کی کُنہ میں یہی کھڑی بولی ہے اور یہی اس کی بنیاد اور اصل واساس ہے۔ ہند آریائی لسانیات کی روشنی میں یہ بات نہایت وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اردو کھڑی بولی کی ہی کوکھ سے پیدا ہوئی ہے بعد میں اس پر نواحِ دہلی کی دوسری بولیوں کے اثرات پڑے ۔ یہ ایک تاریخی اور لسانی حقیقت ہے کہ کھڑی بولی کے اس نئے اور نکھرے ہوئے روپ کو سب سے پہلے نووارد مسلمانوں اور ان کے بعد کی نسلوں نے اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ اسے نکھارا، سنوارا اور جِلا بخشی جس سے یہ زبان اس لائق بن گئی کہ اسے ادبی مقاصد کے لیے استعمال کیاجاسکے، چنانچہ اس زبان کا ادبی استعمال بھی سب سے پہلے مسلمانوں نے ہی کیا۔
چوں کہ کھڑی بولی کا اردو کے ساتھ ماں اور بیٹی کا رشتہ ہے اور کھڑی بولی شورسینی اپ بھرنش سے پیدا ہوئی ہے، لہٰذا اس رشتے کی وجہ سے اردو ایک ہند آریائی زبان قرار پاتی ہے۔ کھڑی بولی کا براہِ راست تعلق شورسینی اب بھرنش یا مغربی اپ بھرنش سے ہے جو وسطی ہند آریائی دور (500 قبلِ مسیح تا 1000 سنہِ عیسوی) کی آخری یادگار ہے۔ شورسینی اپ بھرنش ( مغربی اپ بھرنش) بشمولِ دہلی اور پنجاب شمالی ہندوستان کے ایک وسیع علاقے میں رائج تھی۔ 1000 سنہِ عیسوی تک پہنچتے پہنچتے اس نے دم توڑ دیا اور اس کے بطن سے متعدد بولیاں معرضِ وجود میں آئیں جو انھیں علاقوں میں رائج ہوئیں جہاں شورسینی اپ بھرنش بولی جاتی تھی۔ انھیں بولیوں میں سے ایک بولی "کھڑی بولی" کہلائی جس کا ارتقا دہلی اور دہلی کے شمال مشرقی علاقے یعنی مغربی اتر پردیش (مغربی یوپی) میں ہوا جس نے بعد میں نکھر کر ایک نیا روپ اختیار کر لیا۔ کھڑی بولی کا یہی نیا اور نکھرا ہوا روپ "ہندی" اور "ہندوی" کہلایا جو ہماری آج کی "اردو" کے قدیم نام ہیں۔ شورسینی اپ بھرنش سے پیدا ہونے والی دیگر بولیاں ہریانوی، برج بھاشا، بندیلی اور قنوجی ہیں جو اپنے اپنے علاقوں میں رائج ہوئیں۔ جارج گریرسن نے اپنےLinguistic Survey of India(لسانیاتی جائزہ ہند) میں ان پانچوں بولیوں کو" غربی ہندی" کے نام سے موسوم کیا ہے۔مغربی ہندی کسی مخصوص زبان کا نام نہیں، بلکہ انھیں پانچوں بولیوں کے مجموعے کا نام ہے۔ ان کے علاوہ پنجابی اور گجراتی زبانوں کا تعلق بھی شورسینی اپ بھرنش ہے کہ یہ زبانیں بھی 1000 سنہِ عیسوی کے بعد شورسینی اپ بھرنش کی کوکھ سے پیدا ہوئی ہیں۔
کھڑی بولی کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اسماء، ضمائر، صفات اور افعال بالعموم طویل مصوتے -a یعنی(ا) پر ختم ہوتے ہیں، مثلاً لڑکا، بیٹا( اسم)، میرا (ضمیر)، بڑا (صفت)، آیا، گیا (فعل)۔ ذیل کے دونوں جملے کھڑی بولی کے ہیں:
چوں کہ لسانیاتی اعتبار سے اردو نے کھڑی بولی کا ڈھانچا اختیار کیا ہے، لہٰذا اس خصوصیت کی بنا پر یہ دونوں جملے اردو کے جملے بھی کہے جائیں گے۔ اس کے علی الرغم شورسینی اپ بھرنش کی ایک دوسری بولی برج بھاشا میں، جس کا ارتقا دہلی کے جنوب مشرقی علاقے (متھرا، آگرہ، وغیرہ) میں ہوا، اسما، ضمائر، صفات اور افعال بالعموم ایک دوسرے مصوتے -o یعنی "و" پر ختم ہوتے ہیں، مثلاً لڑکو، بیٹو میرو،بڑو،آیو، گیو، وغیرہ۔ کھڑی بولی کے مذکورہ دونوں جملے برج بھاشا میں یوں ادا کیے جائیں گے:
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اردو نے اپنے ارتقا کے کسی بھی مرحلے میں برج بھاشا کی ان شکلوں کو اختیار نہیں کیا۔ اردو کی شناخت روزِ اول سے ہی اس کا کھڑی بولی پر مبنی ہونا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں اردو پر دیگر بولیوں کے اثرات پڑتے رہے ہیں، جیسے کہ قدیم (دکنی) اردو پر ہریانوی (دہلی کے شمال مغربی علاقے کی بولی) کے اثرات مرتسم ہوئے۔ لیکن اردو کا بنیادی ڈھانچا یا کینڈا جو کھڑی بولی پر مبنی ہے کبھی تبدیل نہیں ہوا۔
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ کھڑی بولی کے نکھار کا زمانہ اردو کا ابتدائی زمانہ ہے۔ یہیں سے کھڑی بولی، اردو کی شکل میں اپنا نیا روپ اختیار کرتی ہے۔ کھڑی بولی کے اس روپ کو ہم اردو کا ابتدائی روپ یا" قدیم اردو" کہیں گے۔ "ہندی"، "ہندوی" اور "ریختہ" سے بھی قدیم اردو ہی مراد ہے۔ اردو کا قدیم نام "ہندی" بعد کے دور تک یعنی بیسویں صدی کے اوائل تک رائج رہا (اگرچہ اس کا "اردو" نام بھی استعمال ہوتا رہا)۔اردو کے مستند ادیبوں میں غالبؔ کے علاوہ علامہ اقبال نے بھی اردو کے لیے "ہندی" کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اقبالؔ اپنی مثنوی "اسرارِ خودی" میں فرماتے ہیں:
گرچہ ہندی درعذوبت شکر است
طرزِ گفتارِ دری شیریں تراست
(اگرچہ اردو مٹھاس میں شکر کی طرح ہے، لیکن فارسی اس سے بھی زیادہ میٹھی زبان ہے۔)
یہاں "ہندی" سے اردو زبان اور "دری" سے فارسی زبان مراد ہے۔
لہٰذا قدیم فارسی تذکروں، تاریخ کی کتابوں اور اس زمانے کی ادبی تصانیف میں مستعمل لفظ "ہندی" سے زمانۂ حال کی ہندی مراد لینا سراسر نادانی ہے۔ جس وقت ہماری آج کی اردو کی ابتدائی یا قدیم شکل کے لیے "ہندی"، "ہندوی" اور "ریختہ" جیسے نام رائج ہوئے تھے اس وقت زمانۂ حال کی ہندی یا دیوناگری ہندی کا کہیں وجود نہیں تھا۔ زمانۂ حال کی ہندی (جو دیوناگری رسمِ خط میں لکھی جاتی ہے)درحقیقت انیسویں صدی کے اوائل کی اختراع ہے، جب کہ اردو کے یہ نام بارھویں-تیرھویں صدی سے رائج ہیں۔ لہٰذا موجودہ ہندی بولنے والوں کا یہ خیال یا عقیدہ کہ یہ ہندی قدیم زمانے سے موجود ہے، صحیح نہیں ہے۔ ان کا یہ دعویٰ بھی صحیح نہیں ہے کہ اس کے ادب کا آغاز امیر خسرو (1253ء تا 1325ء) سے ہوتا ہے۔
اس امر کا ذکر یہاں بیجا نہ ہو گا کہ لفظِ "ہندی" نہ تو ہندی الاصل ہے اور نہ سنسکرت نژاد۔ اسی طرح نہ یہ تدبھو ہے اور نہ تتسم۔ یہ لفظ خالص فارسی ترکیب سے بنا ہے۔ نووارد مسلمانوں نے جب یہاں سکونت اختیار کی تو انھوں نے اس ملک کو "ہند" کے نام سے یاد کیا۔ لفظِ "ہند" کی تشکیل "سندھ" کی "س" کی "ہ" (ہائے ہوز) میں تبدیلی سے عمل میں آئی ہے، کیوں کہ سنسکرت کے بعض الفاظ کی "س" فارسی میں "ہ" میں بدل جاتی ہے، مثلاً سنسکرت "سپت" فارسی "ہفت"(بمعنی "سات")، یا سنسکرت "سپتاہ"فارسی "ہفتہ"، وغیرہ۔ سندھ اگر چہ ایک دریا کا بھی نام ہے، لیکن عہدِ قدیم میں سندھ سے شمالی ہندوستان مراد لیتے تھے جس میں پنجاب سے لے کر بنگال تک کا میدانی علاقہ شامل تھا۔ یہی لفظ "سندھ" فارسی میں "ہند" بن گیا جس کے آخر میں یائے نسبتی جوڑ کر ہندی (ہند+ی) بنا لیا گیا۔ اس طرح لفظِ "ہندی" خالص مسلمانوں کی ایجاد اور دین ہے۔ چنانچہ "ہندی" سے مراد ہند یعنی ہندوستان سے نسبت یا تعلق رکھنے والا یا ہند میں سکونت اختیار کرنے والا قرار پایا۔ یہی لفظ ہند میں بولی جانے والی بولیوں کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا۔ جب مسلمانوں نے 1193ء میں دہلی پر اپنا سیاسی تسلط قائم کیا تو ان کا واسطہ یہاں کی کھڑی بولی سے پڑا جسے وہ دھیرے دھیرے اپنا تے گئے۔ انھوں نے اسے "ہندی" اور کبھی کبھی "ہندوی" کہنا شروع کیا۔ بعد میں اسی زبان کو "ریختہ" بھی کہاگیا۔ "ہندی"، "ہندوی" اور "ریختہ"__ یہ اردو زبان کے ہی مختلف نام ہیں جو قدیم زمانے میں پڑے۔ بلکہ جیسے جیسے یہ زبان ترقی کرتی گئی اور پھیلتی گئی، اس کے نام پڑتے گئے۔ علاقائی اعتبار سے بھی اس کے کئی نام پڑے، مثلاً "دہلوی"، "دکنی"، "دکھنی"، "گجری"، وغیرہ۔ یہ بات درست ہے کہ اس کا "اردو" نام بہت بعد میں پڑا یعنی اٹھارہویں صدی کے ربعِ آخر میں، جب مصحفی نے یہ شعر کہا (اس سے پہلے اسے "زبانِ اردوئے معلیٰ" یعنی "شہرِ معلیٰ! قلعۂ معلیٰ! دربارِ معلیٰ کی زبان" بھی کہا گیا):
خدا رکھے زبان ہم نے سنی ہے میرو مرزا کی
کہیں کس مُنہ سے ہم اے مصحفی اردو ہماری ہے
لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اس سے پہلے اردو زبان کا وجود نہ تھا۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ اردو شمالی ہندوستان میں بارھویں صدی کے اواخر میں کھڑی بولی کی شکل میں معرضِ وجود میں آئی۔ نووارد مسلمانوں اور ان کے بعد کی نسلوں کے لائقِ اعتنا سمجھنے سے یہ چمک اٹھی اور اس میں ادب بھی پیدا ہونے لگا۔ پھر جیسے جیسے یہ ترقی کی منزلیں طے کرتی گئی اس کا ادبی سرمایہ وقیع تر ہوتا گیا۔ اس میں قطعی کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اردو زبان زمانۂ حال کی ہندی سے قدیم تر زبان ہے کیوں کہ اس کا ادبی استعمال آج سے سات سوسال قبل شروع ہو چکا تھا، جب کہ زمانۂ حال کی ہندی (کھڑی بولی ہندی/ناگری ہندی/ اعلیٰ ہندی) کو پیدا ہوئے ابھی صرف دو سو سال ہوئے ہیں۔ اس لسانی حقیقت کا اعتراف بعض انگریزی اور ہندی مصنفین نے بھی کیا ہے جس کا ذکر اگلی شقوں میں آئے گا۔