شکیل اختر
ہندوستان میں باقاعدہ نشریاتی کا آغاز پہلی جنوری 1936 کو ہوا۔ اس سے قبل ہندوستان میں نشریات کا سلسلہ بکھرا ہوا تھا۔ ہندوستان میں نشریات کے آغاز سے ہی نشریاتی ادب کے ہلکے ہلکے نقوش ابھرنے لگے تھے اور مختصر مدت ہی میں اس نے ادب کے وسعت اور امکانات میں بے حد اضافہ کیا اس کی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ ریڈیو میں ابتدائی سے اردو زبان کو ایک کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے اور تمام اہم مراکز سے اسی زبان میں پروگرام نشر کئے جاتے تھے۔ دوسرح طرف ہندوستان میں نشریات کے آغاز ہی میں پطرس بخاری اور ذوالفقار بخاری جیسے اردو داں حضرات نے جہاں ریڈیو نشریات کو مستحکم کیا وہیں ان دونوں بھائیوں نے غیر دانستہ طور پر نشریاتی ادب کی روایت کا آغاز بھی کیا اور چن چن کر اردو داں حضرات کو اس نئے میڈیم سے روشناس کروایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اردو میں نشریاتی ادب کی داغ بیل پڑنے لگی اور گذشتہ صدی کے اختتام تک اس میں ادب کا ایک وسیع ذخیرہ ہو گیا جس نے عمومی طور پر اردو ادب کی ترویج میں نمایاں حصہ لیا۔ اس موضوع پر مزید گفتگو سے قبل آگے ایک نظر ڈالتے ہیں نشری اور غیر نشری ادب کے فرق پر۔
غیر نشری ادب صرف پڑھے لکھے لوگوں کے لئے ہوتا ہے۔ جب کہ نشری ادب کی رسائی عام لوگوں تک ہوتی ہے۔ غیر نشری ادب کا پڑھنے والا ایک مخصوص طبقہ ہوتا ہے۔ اس ادب کے تخلیق کار کسی بھی شہ پارے کو لکھتے وقت قاری کی فکر، تہذیبی اور معاشرتی سطح کا خیال نہیں رکھتے بلکہ جوں ہی کوئی خیال ذہن میں آیا اسے صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا جاتا ہے اس کے برعکس ریڈیو کا ایک معمولی پروگرام بھی نشر ہونے سے قبل کئی مرحلوں سے گزرتا ہے اور اس کی تیاری برسہا برس پہلے سے ہوتی ہے۔ نشری شہ پارے کو براڈ کاسٹ کرنے سے قبل اس بات کا یقین کرنا پڑتا ہے کہ سننے والوں کا تعلق معاشرے کی کس سطح سے ہے۔ ان کی نفسیات اور دلچسپی کیا ہے۔ نشریاتی ادب میں زبان و بیان کا خاص خیال رکھا جاتا ہے جبکہ غیر نشریاتی ادب میں بھاری بھرکم الفاظ کے استعمال کی اچھی مثالیں ملتی ہیں۔ نشریاتی ادب دراصل دریا میں کوزے کو بند کر نے کا نام ہے کیوں کہ یہاں وقت کی پابندی از حد ضروری ہے۔ اس ادب سے تعلق رکھنے والے تخلیق کار کو اگر اپنے موضوع پر پورا عبور حاصل نہ ہو تو تقریر لکھنی مشکل ہو جاتی ہے۔