نشریاتی ادب کسی بھی نشری ادارے کے ذریعہ پیش کئے جانے والے وہ پروگرام ہیں جنہیں نشریاتی اصولوں، تقاضوں اور بنیادی ادبی خصوصیات کو مد نظر رکھ کر تیار کیا جاتا ہے۔

عمومی طور پر ادب سے متعلق وہ پروگرام جو ریڈیو کے ذریعہ نشر کیا جاتا ہے وہ نشر یاتی ادب کہلاتا ہے۔ دنیا کے تمام نشری ادارے اپنی مخصوص پالیسی کے تحت پروگرام نشر کر تے ہیں جس کا اطلاق ادبی پروگراموں پر بھی ہوتا ہے۔ ہندوستان میں چونکہ جمہوری طرز کے ابتدا سے ہی ادبی پروگراموں کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے اور تقریباً تمام اہم مراکز سے اردو کے ادبی پروگرام آج بھی نشر کئے جا رہے ہیں اور یہ سلسلہ ابتدائی دور سے ہی رواں دواں ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے نشریاتی ادب کا ایک اچھا خاصہ ذخیرہ ہو گیا۔

نشریاتی ادب عمومی طور پر وہ ادب ہے جس کی ترسیل معاشرے لی نچلی سطح تک ہوتی ہے۔ غیر نشریاتی ادب نے جس کام کو ایک طویل مدت میں نہیں کیا اسے نشریاتی ادب نے قلیل مدت میں کر دکھایا۔ مثال کے طور پر اردو کے مشہور و معروف شاعر غالب کو ہی لے لیجئے، غیر نشریاتی ادب میں ان پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں۔ ان کے اشعار کی تفہیم میں بھی خوب خوب گل بوٹے کھلائے گئے ہیں۔ اس کے باوجود غیر نشری ادب غالب کو عوام کی سطح پر متعارف نہیں کر اسکی جب کہ نشریاتی ادب نے بہت مختصر مدت میں غالب کو نہ صرف معاشرے کے عمومی حلقے سے متعارف کرایا بلکہ وہ لوگ بھی اس کے دیوانے بن گئے جن کو اردو نہیں آتی ہے لیکن غالب سے متعلق کچھ حد تک جانکاری ضرور رکھتے ہیں۔ ایک اور بات کا یہاں ذکر کرتا چلوں کہ ریڈیو سے قبل موسیقی درباروں تک محدود تھی اور ایک وقت ایسا آیا جب جاگیر داری ختم ہو گئی تو موسیقاروں کی سر پرستی بھی ختم ہو گئی لیکن ریڈیو نے اس فن کو بھی جلا بخشی اور اسے درباروں سے نکال کر گلی کوچوں میں پہنچا دیا اور عام لوگوں میں موسیقی کا ذوق بھی پیدا کیا۔ نشریاتی ادب نے اس موسیقی کے ذریعہ بھی مختلف شاعروں کو عوام سے متعارف کرایا ہے۔

اردو میں نشریاتی ادب کی تاریخ کا اگر اجمالی جائزہ لیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ اردو کا ہر معروف ادیب یا تو ریڈیو کے اسٹاف میں رہا ہے یا ریڈیو سے باہر رہ کر اس کے لئے لکھا ہے ایسے شعرا و ادبا کی ایک طویل فہرست ہے جن کا ذکر آگے آئے گا تاہم نشریاتی ادب کی پوری تاریخ کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

  1. اول ابتدا سے 1947 ء تک۔
  2. دوئم 1947 ء سے تا حال

اول دور میں ہندوستان کا نشریاتی ادب اور خصوصاً اردو کا نشریاتی ادب تجربے کے دور سے گذر رہا تھا۔ اس زمانے میں جن لوگوں نے ریڈیو کے لئے لکھا ان کے سامنے نشریاتی ادب کی کوئی روایت موجود نہیں تھی۔ دوسری طرف انگریزی ادب کا دامن بھی ان موتیوں سے خالی تھا۔

ہندوستان میں ریڈیو نشریات کے آغاز ہی سے نشریاتی ادب کے نقوش کا پتہ چلتا ہے لیکن بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ آج تک نشریاتی ادب کی جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ اردو میں نشریاتی ادب کی روایت بہت پرانی ہے۔ اس کا آغاز 1930 ء کی دہائی میں ریڈیو نشریات کے ساتھ ہوا۔ (اب تک) اردو میں ریڈیائی تقریروں کا جو مجموعہ کتابی ں صورت میں منظر عام پر آ چکا ہے اس کے مطابق 3 اکتوبر 1929ء کو اردو میں پہلی بات چیت ملّا واحدی کی نشر کی گئی تھا جس کا موضوع تھا مصور غم مولانا راشد الخیری کی یہ تقریر "کیا خوب آدمی تھا" سلسلہ تقاریر کے تحت نشر کی گئی تھی۔ اس سے قبل ریڈیو میں تقریریں تو نشر ہوئی ہیں لیکن اب اس کا مسودہ کہیں محفوظ نہیں ہے اور نہ اس کے حوالے ملتے ہیں۔ طباعت کی صورت میں مذکورہ کتاب اردو کی پہلی ریڈیائی تقریروں کا مجموعہ ہے۔

ہندوستان میں ریڈیو نشریات کے آغاز میں عام طور پر اردوداں طبقے نے اس نئے میڈیم کی جانب لبیک نہیں کہا مگر بالخصوص ایک طبقے نے اس کی اہمیت کو سمجھا اور اسے اظہار کے ایک وسیلے کے طور پر قبول کیا۔

سید ذوالفقار علی بخاری اپنی خود نو شت میں لکھتے ہیں:

"آغا اشرف کو ساتھ لے کر ہر ایک کے در دولت پر حاضری دی اور بصد التماس ریڈیو پر تقریر کرنے کے لئے رضا مند کیا۔ ڈاکٹر انصاری، خواجہ حسن نظامی، بھائی آصف علی، مرز ا محمد سعید، نواب خواجہ عبدالمجید، ڈاکٹر ذاکر حسین، بیگم سر بلند جنگ، آغا شاعر قزلباس، شمس العلما مولوی عبدالرحمن، منشی پریم چند، مرزا فرحت اللہ بیگ، پرنسپل رشید احمد صدیقی کس کس کا نام گناؤں۔ یہ تھے ہمارے مستقبل طور پر تقریر نشر کرنے والے حضرات، لاہور میں ابھی ریڈیو جاری نہیں ہوا تھا مگر سالک اور امتیاز کے بغیر محفل سونی ہو جاتی تھی چنانچہ انتظام یہ کیا گیا کہ یہ حضرات لاہور سے ٹیلی فون پر بولیس اور دہلی سے ہم ان کی تقریر ریلے کریں گے۔ سالک صاحب افکار و حوادث اور امتیاز چچا چھکن لے کر اس بزم میں شریک ہوتے۔" -- (سرگدشت سید ذوالفقار علی بخاری صفحہ 54 ایڈیشن 1995)

اسے خوش بختی ہی کہا جائے گا کہ ہندوستان میں نشریات کے اولین دور میں پطرس بخاری جیسا ادیب اور ذوالفقار بخاری جیسے صاحب نظر عہدیدار ملا ان دونوں بھائیوں نے ہندوستان میں نشریات کا ایک جامع نٹ ورک تیار کیا۔ کمال احمد صدیقی نے اپنی کتاب میں ذوالفقار علی بخاری کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

"یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ذوالفقار علی بخاری نے ہی اس وقت کے نامور ادیبوں، دانشوروں اور فنکاروں کو نشریات سے روشناس کرایا اور لکھنے پڑھنے والوں کو مروجہ لکھنے کی زبان کے بجائے بولنے کی زبان اہمیت سے آگاہ کیا اور اسی زبان میں نشریات کے مسودے مرتب کرنے پر آمادہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نشریات کی ایجاد زبان کو از سر نو تازگی اور حرارت دے کر اسے اپنے اصل مرتبہ پر فائز کرے گی"۔

آزادی سے قبل آل انڈیا ریڈیو سے پروگرام عموماً اردو میں ہوا کر تے تھے جسے ہندوستانی کہا جاتا تھا۔ رفعت سروش نے اپنے مضمون میں ریڈیو سے وابستہ لوگوں کا ذکر کیا ہے جن کے نام یہ ہیں۔

"پطرس بخاری، ن۔ م۔ راشد، میراجی، مختار صدیقی، اسرارالحق مجاز، راجہ مہدی علی خاں، تابش دہلوی، انصارناصری، فضل حق قریشی، راز مرادآبادی، شوکت تھانوی، سلام مچھلی شہری، کرتار سنگھ دگل، عشرت رحمانی، وشو امتر عادل، شہزاد لکھنوی اختر الایمان، ممتاز مفتی، اشفاق حسین، حفیظ ہو شیار پوری، ضیاء جالندھری، اعجاز بٹالوی، ڈاکٹر مسعود حسین خاں، لالہ مہیشور دیال، حبیب تنور فارغ بخاری اور رفعت سروش۔" بحوالہ (آل انڈیا ریڈیو کی اردو خدمات از رفعت سروش سہ ماہی قصے، جنوری تا جون، صفحہ 122، سال 2001)

اب ان لوگوں کا ذکر سنئے جنہوں نے ریڈیو کے لئے تقریریں لکھیں اور اسے کتابی صورت میں چھپوا کر محفوظ بھی لیا۔ ایسے لوگوں میں سرفہرست نام مصور فظرت خواجہ حسن نظامی کو ریڈیو کے لئے استعمال کی جانے والی زبان کا اچھا خاصا شعور تھا۔ اس کے ساتھ ہی انھیں ٹاک پڑھنے کا بھی فن خوب آتا تھا۔ خواجہ حسن نظامی سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے کمال احمد صدیقی لکھتے ہیں:

"خواجہ حسن نظامی، ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے آل انڈیا ریڈیو کے آغاز سے پروگراموں میں شرکت کی بلکہ جن کے اسلوب نے ریڈیو کے لئے دوسرے تو خیز لکھنے والوں کو بھی راستہ دکھایا۔"