آل احمد سرور اردو کے ایک مقبول ناقد کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اردو ادب کے تنقیدی سرمائے میں اپنی تخلیقات کے ذریعہ اضافہ کیا ہے۔ آل احمد سرور آل انڈیا ریڈیو کے مختلف پروگراموں میں دلچسپی سے شرکت کرتے تھے ان کا تعلق بھی آزادی سے قبل ریڈیو کے لئے مختلف نوع کی تقریر لکھنے والوں میں سے تھا۔ انہوں نے بے شمار تنقیدی مضامین احباب ریڈیو کی فرمائش پر لکھے تھے۔ ان کی نشری تخلیقات اکثر و بیشتر رسائل کی زینت بھی بنتی رہی ہے۔ ایسی ہی ریڈیائی تقریروں کا مجموعہ تنقید ی اشارے ہیں۔ اس میں شامل مضامین ریڈیو کے لئے لکھے گئے تھے لیکن دوسرے ایڈیشن میں چند مضامین کا اضافہ کیا گیا۔

ریڈیو نے ابتدائی دور سے ہی ادب کی مختلف اصناف کو اپنے دامن میں سمیٹنا شروع کر دیا تھا اور اس پر گہرے اثرات بھی مرتب کئے۔ ابتدائی دور میں جب تقریروں کا سلسلہ شروع ہوا تو مختلف نوع کی ادبی تقریریں نشر کی گئیں جن میں کچھ خاکے بھی تھے مگر اس وقت اسے ایک علیحدہ صنف کے طور پر نشر نہیں کیا گیا مگر یہ خدوخال کے اعتبار سے خاکے کے زمرے میں آتے ہیں اس سلسلے میں ڈاکٹر صابرہ سعید اپنی کتاب میں لکھتی ہیں۔

"1929ء میں آل انڈیا ریڈیو سے چند مضامین نشر کئے گئے جو راشد الخیری، ڈپٹی نذیر احمد، چکبست اور داغ سے متعلق تھے۔ راشد الخیری کا خاکہ ملا واحدی نے لکھا تھا لیکن باقی مضامین خاکوں سے زیادہ سوانحی مضامین کے ذیل میں آتے ہیں بحوالہ "اردو میں خاکہ نگاری" ڈاکٹر صابرہ سعید۔